اگر کسی شخص کی بھرے مجمع میں اتنی بے عزتی ہو جائے کہ وہ سر اٹھانے اور منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔
مثلاً کوئی سٹیج پر تقریر کر رہا ہو اور اُسے معلوم ہو کہ پتلون کی زِپ کھلی رہ گئی تو ایسی خفت یا ایسا احساسِ ندامت اس ضمن میں آئے گا۔ یا استاد کا تھپڑ لگنے پر کسی سٹوڈنٹ کا کلاس کے سامنے پیشاب یا پاخانہ خطا ہو جائے؛ یا کسی لڑکی کے ساتھ بھری مارکیٹ میں اوباش لڑکے بدتمیزی کر جائیں؛ یا گاؤں کا چوہدری کسی غریب خاتون کو گلی میں گھسیٹتا پھرے اور بے آبرو کردے؛ یا کسی شریف آدمی کو تھانے لے جا کر بے گناہ اس کی چھترول کرائی جائے۔
لہٰذا اس علامت پر جو ہومیوپیتھک دوائیں اہمیت کی حامل ہیں ان میں
Colocythis; Ignatia Amara; Natrum Muriaticum; Lycopodium Clavatum; Staphysagria
شامل ہیں۔
اگر اس قسم کے المیے سے گزرنے پر جلد پر زردی چھا جائے یا جگر متاثر ہو جائے تو لائیکوپوڈیم (Lycopodium Clavatum) ہی واحد دوا ہو گی۔ اور اگر مزاج میں عجیب سی بے حسی چھا جائے یا چُپ سی لگ جائے، اداسی چھا جائے یا مریض اول فول باتیں کرنا شروع کر دے، اسہال لگ جائیں یا ہسٹیریا کے دَورے پڑنا شروع ہو جائیں تو سٹیفیس پر غور کریں۔ سٹیفی (Staphisagria) میں غصہ اور بے عزتی کے ملے جلے اثرات ہوتے ہیں۔
کالوسنتھ (Colocythis) کی مریض رو پڑتی ہے، اور خاص طور پر اسے پیٹ میں درد یا اسہال ہو سکتے ہیں اور حیض دب سکتے ہیں۔
اگنیشا (Ignatia Amara) میں مریضہ کو سانس لینے میں تنگی آ سکتی ہے، اسے چُپ لگ سکتی ہے، مریضہ بے آرامی یا بے خوابی کا شکار ہو سکتی ہے۔
نیٹرم میور (Natrum Muriaticum) کے معاملات بھی اگنیشیا (Ignatia Amara) سے ملتے جلتے ہیں، تاہم یہ اپنا حالِ دل بیان کرنے کے حوالے سے بہت کنجوس ہے، بہت کچھ پی جاتی ہے اور لب پر نہیں لاتی۔ اور سب سے بڑی بات حالتِ افسردگی میں آپ کا دم دلاسہ قبول نہیں کرتی۔ اللہ کا شکر ہے، اللہ کا فضل ہے، ایسی کوئی بات نہیں، میں ٹھیک ہوں، آپ پریشان نہ ہوں۔ کوئی خاص بات نہیں، کوئی مسئلہ نہیں جیسے جملے اس کا تکیہ کلام ہوتے ہیں۔
Rubric: Ailments from Mortification
(ڈاکٹر بنارس خان اعوان کے مضمون – شرح علامات – سے ماخوذ)
———–
مشہور شاعر، ادیب اور مفکر ادریس آزاد نے خفت کے موضوع پر اپنے رشحاتِ قلم شئیر کیے ہیں جو درج ذیل ہیں
خِفّت کیا شئے ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خفت کیسی کیفیت ہے؟ یہ توھین یا انسلٹ نہیں، بالکل مختلف چیز ہے۔ بظاہر معمولی لیکن فی الحقیقت بہت شدید کیفیت ہے جس کے مضمرات میں بڑے بڑے حوادث اور بعض اوقات انتقام جیسے خوفناک عوامل پرورش پاتے ہیں۔ خفت کسی ایک لمحے میں پیدا ہوتی ہے، لیکن اس کے اثرات دیر تک قائم رہتے ہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے اگر ہم یوں کہیں کہ خفت اُس بے عزتی یا انسلٹ کو کہتے ہیں جو صرف خفیف کو خود ہی معلوم ہوتی ہے اور خفیف پر خود ہی گزرتی ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔ خفت خفیف پر ہی خود کو ظاہر کرتی ہے آس پاس کے لوگوں کے سامنے عیاں نہیں ہوتی۔ اگر آس پاس کے لوگوں کے سامنے عیاں ہوجائے تو وہ خفت نہیں رہتی انسلٹ بن جاتی ہے۔ اس سے زیادہ بہتر تعریف یہ ہے کہ اپنی ہی نظروں میں اچانک انسلٹ ہو جانا خفت کہلاتا ہے۔ اس کی مثالوں میں زیادہ تر کا تعلق اشتہأ اور شہوت کے اوقات میں پیش آنے والے ناپسندیدہ واقعات کے ساتھ ہے۔ اشتہأ کی مثال میں فرض کریں آپ کو بھوک لگی ہے۔ آپ کھانے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ کسی نے آنا ہے اور آپ کو کھانا دینا ہے۔ آپ منتظر بیٹھے ہیں کہ اچانک آپ کو سامنے سے کوئی آتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو کھانا لا رہا ہے۔ آپ کو یقین ہو جاتا ہے کہ وہ آپ کی ہی طرف آ رہا ہے۔ لیکن جب وہ پاس آئے تو آپ کے قریب سے گزرتا ہوا کسی اور طرف چلا جائے تو آپ کو یکلخت خفت محسوس ہوگی۔ اور شہوت کی مثال میں فرض کریں کہ آپ نے سمجھ رکھا ہے کہ سامنے بیٹھی لڑکی آپ کی طرف دیکھ رہی ہے اور اُس کی نظروں میں پسندیدگی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کچھ ہی دیر میں آپ پر اچانک کُھلتا ہے کہ وہ تو آپ کے عقب میں بیٹھے ہوئے کسی شخص کی طرف متوجہ ہے۔
شہوت اور اشتہأ سے ہٹ کر بھی خفت کی مثالیں موجود ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ایک دوست سے وقت لے کر اُس کی طرف جا رہے ہیں۔ آپ کو یقین ہے کہ وہ آپ کے انتظار میں ہو گا۔ آپ اُسے میسج کرتے ہیں کہ آپ روانہ ہیں۔ اور وہ آپ کو ایسا ریپلائی کرے کہ جس میں وہ چاہے کہ آپ اُس کی طرف نہ آئیں۔
خیر! خفت ایک نفسیاتی کیفیت ہے مثالیں تو ہرطرح کی مل جائیں گی۔ لیکن حقیقت یہ ہےکہ خفت اپنی ہی نظروں میں شرمندہ ہو جانے کا نام ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ’’عزت وہی ہے جو آپ کی اپنی نظروں میں ہوتی ہے۔ باقی سب تصنع ہے‘‘۔