کراچی میں آپ کو اکثر فلائی اوورز کے نیچے، لیاری ندی کے کناروں پر اور بعض علاقوں کے میدانوں میں لوگ سر پر چادر اوڑھے دھواں پھونکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ان کے کپڑے میلے کچیلے اور بال مٹی اور دھول سے اٹے ہوتے ہیں۔
منشیات کے عادی ان افراد کے حلیے اور ٹھکانوں سے تو اکثر لوگ باخبر اور واقف ہیں لیکن شہر کے پوش علاقوں میں اعلیٰ درس گاہوں کے نوجوان بھی منشیات میں مبتلا ہو رہے ہیں، جس سے والدین اور متعلقہ محکمہ لاعلم رہتے ہیں۔
شہر میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے مراکز میں ان دنوں ایک نئے نشے کے عادی نوجوانوں کو لایا جا رہا ہے، جسے کرسٹل میتھ کہا جاتا ہے۔ اس کا شکار عموماً نجی تعلیمی اداروں اور امیر گھرانوں کے نوجوان بن رہے ہیں۔
ایسے ہی ایک بحالی مرکز میں ایک نوجوان (جے) سے ملاقات ہوئی جو اپنے ہم جماعت کے ذریعے کرسٹل کا عادی بنا تھا۔
’یونیورسٹی میں داخلہ ہوا وہاں ایک نیا ماحول تھا، میرے کلاس فیلوز کوئی چیز استعمال کرتے تھے۔ ان سے جب میری دوستی ہوئی تو انھوں نے آہستہ آہستہ مجھے اس کے استعمال کے لیے آمادہ کر لیا۔ جیسے جیسے میں نے وہ چیز استعمال کی تو میں نے ذہنی اور جسمانی طور پر خود کو کافی بہتر محسوس پایا اور میں اس کا عادی ہونے لگا بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ تو کرسٹل ہے۔ جب میں یہ استعمال نہیں کرتا تھا تو مجھے سکون نہیں آتا تھا۔‘
نشے کے عادی افراد کی بحالی کا عمل اتنا آسان نہیں
اس نوجوان کو اہل خانہ بحالی مرکز میں لے تو آئے ہیں، لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔
جے کے مطابق جب گھر والوں کو پتہ چلا تو انھوں نے مجھے علاج کرانے کے لیے کہا لیکن میں نے انکار کر دیا کیونکہ کرسٹل کے استعمال سے مجھے راحت ملتی تھی۔ لیکن گھر والے بضد رہے اور ایک روز بہانے سے مجھے ڈاکٹر کے پاس لے آئے جہاں ڈاکٹر نے مجھے علاج پر قائل کر لیا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کرسٹل کے مسلسل استعمال سے خوشی اور مسرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور کسی توانائی کے مشروب کی طرح طاقت محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ کیفیت تھوڑی دیر ہی برقرار رہتی ہے۔
ذہنی دباؤ، غیرمتوازن شخصیت اور دوستوں کا دباؤ
مرکز نفسیات اور منشیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ہیرا لال لوہانو منشیات کے استعمال کی تین بنیادی وجوہات بیان کرتے ہیں، جن میں ذہنی دباؤ سرفہرست ہے۔
منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے مراکز میں ان دنوں ایک نئے نشے کے عادی نوجوانوں کو لایا جا رہا ہے، جسے کرسٹل میتھ کہا جاتا ہے
بقول ان کے یہ دباؤ امتحان کا بھی ہو سکتا ہے، کسی کے ساتھ مقابلے کا رجحان بھی، دوسری وجہ شخصیت کا عدم توازن ہے اور تیسری وجہ دوستوں کا دباؤ ہے۔ یعنی چار دوست اگر منشیات استعمال کرتے ہیں تو پانچواں دوست دباؤ میں آ کر اس کا استعمال شروع کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر لوہانو کے مطابق بعض امیر گھرانوں کے نوجوانوں میں کرسٹل کے استعمال کی ایک وجہ جنسی قوت میں اضافے کی خواہش بھی شامل ہے اور انھیں یہ لت ڈانس پارٹیوں میں لگتی ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوولیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2005 سے 2016 کے دوران منشیات کے استعمال کے نتیجے میں معذوری کا شکار ہونے والے افراد میں 98 فیصد اضافہ ہوا ہے اور منشیات کے عادی نوجوانوں میں ذہنی معذوری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
ڈاکٹر لوہانو کا کہنا ہے کہ منشیات دماغ کے خلیوں میں عدم توازن پیدا کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں دماغ اس طرح سے کام نہیں کرتا جس طرح سے عام لوگوں کا کرتا ہے اور نتیجتاً انسان ذہنی، جسمانی اور سماجی طور پر معذور ہو جاتا ہے۔
گھر تک آسان رسائی
پولیس کے مطابق کرسٹل کی فروخت روایتی انداز میں نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے کی جاتی ہے۔
ایس ایس پی جاوید اکبر ریاض کے مطابق منشیات فروش واٹس ایپ، فیس بک یا سوشل میڈیا کی اس طرح کی جو دیگر ایپس ہیں انھیں استعمال کر رہے ہیں۔
’یہ لوگ واٹس ایپ پر ایک میسیج کر دیتے ہیں اگر یہ پیغام سو لوگوں تک بھی گیا ہے تو ان میں دس سے پندرہ ایسے نوجوان مل جائیں گے جو ان کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔‘
منشیات کے عادی افراد کے حلیے اور ٹھکانوں سے شہر کے اکثر لوگ باخبر اور واقف ہیں
ان کا کہنا تھا کہ منشیات کا عادی بنانے کے لیے یہ گاہکوں کو ان کے گھر تک پہنچائی جا رہی ہیں۔
’ہم نے کچھ ایسے گروپ پکڑے، جو ٹیکسی سروس استعمال کر تے تھے۔ ان میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں ہی شامل تھے اور یہ گھروں میں جا کر ڈرگز پہنچاتے تھے۔ ایسے گروپ شہر کے پوش علاقوں میں سرگرم ہیں کیونکہ وہاں کے نوجوانوں کے لیے چار پانچ ہزار روپے کا انتظام کوئی مشکل بات نہیں۔‘
کرسٹل میتھ ہے کیا؟
اس نشے پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرسٹل یا آئس نامی یہ نشہ ’میتھ ایمفٹامین‘ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔
یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل کی قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔
ان کے مطابق اس کے لیے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اسے انجیکشن کے ذریعے سے بھی جسم میں اتارا جاتا ہے۔
کرسٹل آتی کہاں سے ہے؟
کراچی میں پولیس اور رینجرز بعض ایسی لیبارٹریز پر چھاپے مار چکی ہے، جہاں کرسٹل تیار کی جاتی تھی جبکہ اس کی ایک بڑی مقدار افغانستان سے سمگل ہو کر آتی ہے۔
ایس ایس پی جاوید اکبر کے بقول پاکستان منشیات کی ایک عالمی گزرگاہ پر واقع ہے، اس لیے یہاں انھیں فروخت کرنے والی مافیا اور استعمال کرنے والے بھی موجود ہیں۔
ایس ایس پی جاوید اکبر کے مطابق جب منشیات سوشل میڈیا پر فروخت ہوں گی تو پولیس کے پاس اسے روکنے کے وسائل محدود ہوں گے
جدید منشیات فروشوں تک رسائی ایک چیلنج
علاقے میں کہاں کہاں منشیات فروخت ہو رہی ہے، علاقہ پولیس اور دیگر ادارے اس سے باخبر ہوتے تھے، لیکن جدید منشیات فروشوں تک رسائی پولیس کے لیے ایک چیلنج ہے۔
ایس ایس پی جاوید اکبر کے مطابق پہلے یہ معلوم ہوتا تھا کہ فلاں مکان سے منشیات فروخت کی جا رہی ہے لیکن اب پتہ نہیں لگتا جب سوشل میڈیا پر فروخت ہو گی تو پولیس کے پاس اس کو روکنے کے وسائل محدود ہوں گے۔
’پوش علاقوں میں جو پارٹیاں ہو رہی ہیں ان میں بھی نوجوانوں کو ڈرگز دی جاتی ہیں۔ یہ ایریاز ایسے ہیں جن کا پتہ نہیں ہوتا، ایک پارٹی ایک دن اگر کسی گھر میں ہو رہی تو ہو سکتا ہے کہ دوسرے روز وہ کسی دوسرے کے گھر میں ہو رہی ہو۔‘
کراچی میں منشیات کے استعمال کی صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر حکومت سندھ ایک پالیسی تشکیل دے رہی ہے جس کے تحت نوجوانوں کے جامعات میں داخلے کے لیے خون کے نمونے حاصل کیے جائیں گے۔
بشکریہ: بی بی سی اردو