کچھ بچے جو خاموش طبع ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ جب ماں انہیں آپ کے کلینک میں لائے گی تو اس نے بچے کو اٹھایا ہوا ہوتا ہے حالانکہ وہ بچہ عمر کے اس حصے میں ہے جہاں اسے ماں کے ساتھ چل کر آنا چاہے۔ اس کا مطلب ہے یا تو وہ بیمار ہے یا اتنا کمزور ہے کہ خود چل نہیں سکتا۔
اگر کمزوری کی وجہ سے ہے تو اس کی دوا کلکیریاکارب ہے۔
یا ممکن ہے بچہ شرمیلا ہو۔ شرمیلے پن کی معروف دوا برائٹا کارب ہے جس کا ذکر آپ کو ہر جگہ ملے گا۔ تاہم پلساٹیلا میں بھی شرمیلا پن پایا جاتا ہے۔ ایسے بچے برائٹاکارب کی طرح غبی اور کند ذہن نہیں ہوتے۔ پلساٹیلا بچے کا خاص وصف یہ ہے کہ یہ آپ سے نظریں نہیں ملائے گا لیکن جب آپ اس سے آہستہ آہستہ متعارف ہوتے جائیں گے تو آپ کے قریب ہو جائے گا۔
کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں جن میں خوف پایا جاتا ہے۔ ایسے بچے آپ کے کلینک میں نہیں آنا چاہتے انہیں زبردستی لایا جاتا ہے۔ مثلاً آرسینک، برائٹا کارب، کاسٹیکم، لائیکوپوڈیم، ٹیوبرکلونیم وغیرہ۔
کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں جو اپنی طرف دیکھنا اور چھونا گوارہ نہیں کرتے مثلاً
کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں جو آپ کے کلینک میں آتے ہی خاموشی سے بیٹھ جائیں گے یا اپنے کسی کھلونے سے کھیلنا شروع کر دیں گے۔ زیادہ بولیں گے نہیں۔ ان بچوں کو ہم چار قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
۱۔جو بزدل اور شرمیلے ہیں۔ ۲۔ جو بڑے مہذب ہیں۔ ۳۔ جو دواؤں کے زیر اثر یا نفسیاتی طور پر دباؤ کا شکار ہیں۔ ۴۔ جو ذہنی طور پر نہایت کمزور اور معزور ہیں۔
پہلی قسم جس کا پہلے بیان ہو گا وہ ہے کلکیریاکارب ، برائٹاکارب، پلسٹیلا وغیرہ۔ پلسٹیلا ہر سوال کا جواب دینے سے پہلے ماں کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھے گا۔ برائٹاکارب ویسے ہی ماں کی کود میں منہ چھپانے کی کوشش کرے گا۔ برائٹاکارب ایک بت کی مانند ہے جہاں کھڑا کر دیں کھڑا رہے گا۔ جہاں بٹھا دیں بیٹھا رہے گا۔
مہذب بچے ادب آداب والے بچے۔
اگر دیکھا جائے تو بچوں میں اس طرح کی بظاہر عادت عجیب لگتی ہے کیونکہ بچے میں اس قدر انرجی ہوتی ہے کہ اسے نچلا بیٹھنے ہی نہیں دیتی۔ آپ نے اپنے کلینک میں اکثر دیکھا ہو گا کہ بچوں کیلئے نچلا ہو کر بیٹھنا ناممکن ہوتا ہے۔ کبھی ایک چیز کو چھیڑتے ہیں تو کبھی دوسری کو۔ آپ کے کلینک میں ایسی چیزیں موجود ہونا ضروری ہے جس سے بچے چھیڑ چھاڑ کر سکیں۔ اس طرح آپ کو بطور گائیڈ لائین Objective symptoms مل سکتے ہیں۔
نیٹرم میور اور سلیشیا کے بچے بڑے مہذب اور مؤدب انداز میں بیٹھیں گے۔ آپ کو شبہ ہو گا کہ یہ بچہ اپنی عمر سے کچھ سال آگے ہے۔
کیا آپ نے کبھی سڑک کے کنارے باپ بیٹے کو ساتھ چلتے دیکھا ہے۔ آپ کو بچے کی نظروں میں چمک اس کی چال میں بانکپن اور اس کے چہرے پر پھیلی خوشگوار توانائی نظر آئے گی۔ جبکہ ساتھ چلتی شخصیت کی نظروں میں عدم دلچسپی، چال میں لڑکھڑاہٹ اور چہتے پر اکتاہٹ اور غمگینی کے آثار نظر آئیں گے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ درمیان میں یہ خوشیاں کہاں غائب ہو گئیں۔
بات ہو رہی تھی نیٹرم میور اور سلیشیا کے بچوں کی۔ یہ بچے بڑے Reserve قسم کے ہوتے ہیں۔ آپ محسوس کریں گے کہ ان میں تمام بچوں کی طرح Openness نہیں ہے۔ یہ جلدی بے تکلف نہیں ہوتے ۔ بغیر سوچے سمجھے بات نہیں کرتے جو بچوں کا شیوہ ہے۔
نیٹرم میور کا بچہ (بڑوں کی مانند) اپنی انگلیوں کو بل دیتا رہتا ہے۔آپ نے دیکھا ہو گا اگر آپ کسی بچے کو ٹافی پیش کرتے ہیں تو فاسفورس کا بچہ فوراً جھپٹ کر لے لے گا جب کہ نیٹرم میور کا بچہ ماں کی طرف دیکھنا شروع کر دے گا۔ ماں کہے گی ہاں بیٹے لے لو۔ آپ اس سے پوچھتے ہیں آپ کی کتنی عمر ہے بچہ ماں کی طرف دیکھے گا۔ جواب دیا جائے یا نہیں۔ ماں اشارہ کرے گی بتا دو ۔ 8 سال۔ ہر سوال کے جواب میں ماں یا باپ کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھنا نیٹرم میور کے بچے کی خاص نشانی ہے۔
سٹیفی اور پلسٹیلا کے بچے بھی تقریباً ایسے ہی ہوتے ہیں۔ انہیں ماں کہتی ہے کہ آپ خاموشی سے اس کرسی پر بیٹھے رہیں۔ اب وہ چاہیں یا نہ چاہیں انھوں نے اس کرسی پر بیٹھے رہنا ہے۔ کیوں کہ انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ تینوں بڑے Obedient ہوتے ہیں۔ (دباؤ کا شکار بچے)
ایسے بچے جنہیں بار بار Antibiotics کا کورس کرایا گیا ہو۔ یا جو اپنے والدین کے ناجائز دباؤ کا شکار ہوں یا اپنی بپا کردہ پریشانیوں کے زیر اثر ہوں۔ اگرچہ ایسی مثالیں آپ کو کم ملیں گیں۔ تاہم آپ دیکھیں گے کہ ایسے بچے آپ کے کلینک میں آ کر خاموش بیٹھیں گے۔ ان کے چہرے پر آپ کو عدم دلچسپی یا اکتاہٹ نظر آئے گی۔ تھکے تھکے سے اپنے آپ سے بیزار؛ نہ آتے وقت سلام کریں گے نہ جاتے وقت۔ ایسے بچوں کو اکثر والدین یہ کہیں گے۔ بچے ڈاکٹر صاحب کو سلام کرو۔ڈاکٹر صاحب سے ہاتھ ملاؤ وغیرہ۔
جب درست دوا ان کی وائٹل فورس کو ٹیون کر دیتی ہے تو اگلی Visit میں ان کی والدہ آپ سے یوں کہتی ہے ڈاکٹر صاحب اب یہ بچہ کچھ زیادہ ہی شریر ہو گیا ہے۔ بھائی بہنوں کو چھیڑتا ہے۔ اور مجھے اکثر اگے سے دلیلیں پیش کرتا ہے۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ بچے کے اندر جہاں کہیں توانائی کے راستے میں رکاوٹ تھی؛ ہٹنا شروع ہو گئی ہے۔
ایسے بچے کان بہنے، باربار نزلہ زکام کی شکایت ہونے پر جب بار بار انٹی بائیوٹکس دی جاتی ہیں تو ان کے ڈسچارجز رک جاتے ہیں۔ کینٹ نے ایسے کیسوں میں مرکیورس کو Recomend کیا ہے۔ انٹی بائیوٹکس ایسے ڈسچارجز کو دبا کر مرض کو Mental اور Emotional لیول تک گہرا کر دیتی ہے۔ آپ ایسے بچوں کو چند ہفتے ہر قسم کی دواؤں سے دور رکھیں ایک دوبار کان بہے گا یا ناک سے نزلہ نکلے گا تو آپ دیکھیں گے کہ بچہ ہنستا کھیلتا نارمل Behave کرنا شروع کر دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کینٹ نے لکھا ہے۔ Dischages are the healthy sighn۔
ذرا سا کان میں مواد نظر آنے یا دو چھینکیں مارنے پر انٹی بائیوٹکس کا کورس کروا دینے کی مثال تو ایک چیونٹی کو ہتھوڑے سے مارنے کے مترادف ہے۔
تجربہ یہی ثابت کرتا ہے کہ کان بہنے کو اگر انٹی بائیوٹکس کا استعمال کر کے روکا جائے تو اس کے بار بار رکنے اور بہنے کا امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اسے بہنے دیا جائے۔ اس طرح اس کے ہمیشہ کے ٹھیک ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ایسے والدین جو اپنے بچے کی ایک چھینک، بخار میں ایک ڈگری کا ٹمپریچر اور ایک دن کے جلاب برداشت نہیں کرسکتے اور فوراً E.N.T یا چائلڈ سپیشلسٹ کا رخ کرتے ہیں۔ ہماری نظر میں خسارے میں رہتے ہیں۔ ہمارا تجربہ ہے کہ ایسے بچے ہمیشہ Immune deficiency کا شکار رہتے ہیں۔ دراصل یہی (بچپن) زمانہ ہے جہاں بچے نے چھوٹی موٹی (صحت ) کی آزمائشوں سے دوچار ہو کر آئندہ زندگی میں آنے والے چیلنجوں کے لئے تیار ہونا ہوتا ہے۔ ایسی بیماریوں کو (اگر یہ Serious رخ اختیار نہ کریں) تو قدرت کی طرف سے سزا کی بجائے امتحان سمجھنا چاہے۔ جہاں تک ممکن ہو بچے کو وقت دیں تاکہ وہ خود ہی ان سے نبرد آزما ہو کر صحت یابی حاصل کر لے۔ زورمرہ زندگی میں بچے کو چوبیس گھنٹے انتہائی نگہداشت کے سٹائل میں لپیٹ لپاٹ کر رکھنا بھی قابل تعریف نہیں ہے۔
ہاں اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ بچے کی وائٹل فورس بیماری سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب نہیں رہی تو لازمی دوا کا استعمال کریں۔ لیکن معمولی بیماریوں میں دوا سے یہی وائٹل فورس کو ایک موقع ضرور دیں۔
بطور ہومیوپیتھک ڈاکٹر آپ اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ کس وقت ایسے بچے کو دوا دی جائے اور کس وقت انتظار کیا جائے۔ ایسا بچہ اگر اسے دوا کی ضرورت نہیں اور اس کی وائٹل فورس خود ہی کامیابی سے اپنا دفاع کر رہی ہے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کو کسی ہومیوپیتھک دوا کی علامات نہیں ملیں گیں۔ تاہم جب وائٹل فورس اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہے گی تو وہ صاف صاف علامات کا اظہار کرے گی۔ اس کا مطلب ہے اب ہومیوپیتھک دوا ظاہر ہو رہی ہے اور آپ کو دینی چاہے۔
مثلاً بچے کے بخار کا کیس لے لیں۔
بچے کی ماں اگر آ کر بتاتی ہے ڈاکٹر صاحب رات سے بچے کو بخار ہے۔ اور اس نے دو تین بار چھینکیں بھی ماری ہیں۔ اور میں نے اس کا ناک بھی صاف کیا ہے۔ بچہ رات کو ایک بار رویا بھی ہے۔
آپ دیکھتے ہیں ٹمپریچر 99.5 ہے۔ بظاہر بچہ گھوم پھر رہا ہے۔ Active بھی ہے۔ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ بچہ اپنی فیڈ بھی نارمل لے رہا ہے۔ رات سویا بھی ہے۔ پیشاب پاخانہ میں بھی کوئی شکایت نہیں ہے۔ اور بخار کو 24 گھنٹے بھی نہیں گذرے ہیں۔ی ہاں آپ کون سی دوا دیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ اگر آپ چائیں تو ماں کی تسلی کے لئے تین دن کی پلاسبو دے کر رخصت کر دیں۔ اور اگلے دن شکایت بڑھتی ہے تو دوبارہ آنے کا کہہ دیں۔
دوسرے یا تیسرے دن کیا ہو گا؟ دو امکانات ہیں۔ اولاً ماں بتائے گی کہ ڈاکٹر صاحب آپ کی پڑیا دینے سے شام تک بخار اتر گیا تھا اور اب بچہ بالکل ٹھیک ہے۔ یا مثلاً یہ جواب بھی ہو سکتا ہے کہ بخار تیز ہو گیا ہے۔ رات دوبار 103 تک چلا گیا تھا۔ بچہ سوتے میں ڈر جاتا ہے۔
خواہ مخواہ ایسی صورت میں دواؤں کی بوچھاڑ کر دینا جب جسم کو اس کی ضرورت ہی نہ ہو؛ دانش مندی نہیں ہے۔
کالی کارب
نوزائیدہ اور بڑے بچوں میں یہ دوا عام طور پر ظاہر ہوتی ہے۔خصوصاً سینے کی تکالیف میں۔ ان بچوں کو بھی ماں اٹھائے رکھنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ضدی، چڑچڑاپن، ایسے بچوں کو خوب زور دار جھولے دیئے جائیں تو خوش ہو جاتے ہیں۔ یہ بچے بھی ذرا سی بات پر چڑ جاتے ہیں۔ بہت حساس طبع ہوتے ہیں۔ ذرا سے اچانک شور سے، چھونے سے اندھیرے سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔