جگر (Liver) کی اہمیت کسی بھی اہم جسمانی عضو (دل، دماغ، گردے وغیرہ) سے کم نہیں۔ نظامِ ہاضمہ کو اِعتدال میں رکھنے کا یہ نہایت ہی اہم عضو ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ جسم کو نقصان پہنچانے والے مواد اپنے اندر جمع کرتا ہے؛ اس مواد سے صفراء پیدا کرتا ہے اور اسے پِتہ (Gallbladder) کے ذریعے معدہ میں پہنچاتا ہے جہاں یہ غذا کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ بڑا مضبوط اور قوی عضو ہے مگر انتہائی بد پرہیزی اور موروثی بیماریوں سے متاثر ہو کر اِس کے خراب ہونے کا اِمکان رہتا ہے۔
جگر کے اَمراض، وجوہات اور اُن کا ہومیوپیتھک علاج
جگر کے امراض کی، اگرچہ، کوئی واضح علامات تو نہیں ہوتیں تاہم مندرجہ ذیل شکایات سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ جگر کی بیماریاں شروع ہو رہی ہیں:
مستقل بھوک لگنے کی شکایت
جگر کی بیماری کی ایک ابتدائی علامت ہر وقت منہ چلانا ہوتا ہے یعنی یا تو میٹھی چیزوں کی بہت زیادہ خواہش ہوتی ہے یا ہر وقت بھوک لگتی رہتی ہے۔ یاد رکھئے! جب ہمارا نظام خراب ہوتا ہے تو وہ ہم سے غلط کام کرواتا ہے۔ بہت کھانا بالخصوص زیادہ میٹھا کھانے کا رجحان جگر کو نقصان پہنچاتا ہے مگر جگر کے مرض میں مبتلا انسان اس سلسلہ کو جاری رکھتا ہے۔ ایسی عادات جگر پر مزید چربی بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ ہومیوپیتھک علاج کے دوران زیادہ کھانے یا میٹھے کی طلب کو توازن میں لایا جاتا ہے۔
موٹاپا اور بالخصوص پیٹ کا نکلنا
موٹاپا ایک عالمی وبا بن چکا ہے۔ جن لوگوں کے پیٹ کے گرد اضافی چربی اکٹھی ہو جاتی ہے یا یوں کہہ لیں توند نکل آتی ہے، ان میں جگر پر چربی چڑھنے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ اکثر یہی اس کی ابتدائی علامت ثابت ہوتی ہے۔
کولیسٹرول میں اضافہ
خون میں چربی کی مقدار میں اضافہ یا کولیسٹرول بھی اس بات کی طرف توجہ دِلاتا ہے کہ جگر میں بہت زیادہ چربی جمع ہو رہی ہے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ خون میں کولیسٹرول کی مقدار کا اضافہ جگر سے خارج ہونے والی چربی سے ہی ہوتا ہے۔
شوگر اور ذیابیطس / ذیابطیس (Diabetes Mellitus) کا مرض
اگر خدانخواستہ کوئی ذیابیطس / شوگر کے مرض کا شکار ہو جائے تو اُسے کچھ عرصے بعد جگر پر چربی چڑھنے کے ٹیسٹ کو عادت بنا لینی چاہئے۔ تحقیق کے مطابق ذیابیطس ٹائپ ٹو (Diabetes Mellitus Type 2) کے شکار افراد میں جگر کے امراض کا خطرہ 60 فیصد تک ہوتا ہے اور اکثر انہیں اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔
بلڈ پریشر میں بہت زیادہ اضافہ
بلڈپریشر کے شکار افراد میں جگر کے امراض کا خطرہ کافی زیادہ ہوتا ہے۔ اپنے بلڈ پریشر کو چیک کرنا اور دل کی صحت کو بہتر بنانا جگر کے امراض کی صورت میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
خاندانی اور موروثی مرض
اگر کسی قریبی رشتہ دار میں جگر پر چربی چڑھنے کا مرض ہو تو خاندان کے دیگر افراد میں بھی اس کا امکان خاصا بڑھ جاتا ہے۔ یہ مرض موروثی طور پر بھی ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے اِس لئے ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں اِس پہلو کو خصوصی طور پر مدِ نظر رکھنا بے حد ضروری ہے۔
مستقل سُستی اور تھکاوٹ
جگر پر چربی چڑھنے کی اگرچہ کوئی جسمانی علامت نہیں ہوتی اور بظاہر خون کے ٹیسٹ یا جگر کے معائنے کے بغیر اس کی شناخت بھی ممکن نہیں ہو پاتی، مگر جگر کے امراض کی شدت بڑھ رہی ہو تو تھکاوٹ اور کمزوری جیسی علامات ضرور سامنے آ سکتی ہیں۔ اگر کسی کو ہر وقت تھکاوٹ اور کمزوری کا احساس ہوتا ہے (جبکہ ماضی میں ایسا نہ ہوا ہو) تو فوری طور پر معائنہ کرانا چاہیے۔
معدے میں درد
اگر معدے کے دائیں جانب اوپری حصے میں درد ہو تواِس کا تعلق بھی جگر کے امراض سے ہو سکتا ہے۔ چونکہ جگر سے خارج ہونے والا مواد معدے میں اکٹھا ہو سکتا ہے اور سوزش وغیرہ کی صورت میں معدے کے درد کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کھانے کی خواہش ختم ہونا بھی جگر کے امراض کی علامت ہو سکتی ہے۔
اُلجھن اور کنفیوژن
اگر ہر معاملے میں کنفیوژن، الجھن یا دو دِلی کا احساس ہوتا ہے تو یہ جگر کے سنگین امراض کی علامت ہو سکتی ہے، چونکہ جگر اپنا کام معمول کے مطابق نہیں کر پاتا اس لیے زہریلا مواد دورانِ خون میں شامل ہو جاتا ہے اور دماغ تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر آپ کی الجھن بد ترین ہو جائے تو فوری طور پر تشخیص اور علاج پر توجہ دینا ضروری ہے۔
ہومیوپیتھک دوائیوں سے جگر کی بیماریوں کا علاج
جگر کا بڑھ جانا: کارڈؤس مدر ٹنکچر (Carduus Marianus)۔
جگر کا سکڑ جانا (سرہوسس liver cirrhosis ۔ ): فاسفورس (Phosphorus)۔ چائنا (China)۔ آورم میور (Aurum Muriaticum)۔
جگر کا درد: برائیونیا (Bryonia)، امونیم میور (Ammonium Muriaticum)، ڈایوسکوریا (Dioscorea)، چیلیڈونیم (Chelidonium)۔
جگر کا فعلی بگاڑ: کارڈؤس مدر ٹنکچر (Carduus Marianus)۔
جگر کا ورم: برائی اونیا (Bryonia)، مرکسال (Mercurius Solubilis)، ہیپر سلفر (Hepar Sulphuris)۔
جگر پر چربی چڑھ جانا: فاسفورس (Phosphorus)۔
جگر کا سرطان، کینسر: کولسٹرینم (Cholesterinum)۔
یرقان کا ذکر ہم کسی اَور موقع کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ جگر کے تمام امراض میں موروثی مزاج کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے اور اُسی کے مطابق علاج کرنا ہی مستقل، مکمل اور دیرپا صحت کی ضمانت ہے۔ مذکورہ بالا دوائیاں اِسی انداز سے علاج کرنے پر مفید ثابت ہو سکتی ہیں ورنہ جگر کے اَمراض کے لئے ہومیوپیتھی دوائیوں کی تعداد تو سینکڑوں میں ہے۔ اِس لئے جگر کے صحیح علاج کے لئے کسی ماہر ڈاکٹر کی راہنمائی بے حد ضروری ہے بصورتِ دیگر نقصان کا اِمکان زیادہ ہے۔
حسین قیصرانی – ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ- لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210