فسٹیولا / فسچلا / فسچولا لاطینی زبان میں پائپ یا نلی کو کہتے ہیں۔ میڈیکل کی اصطلاح میں یہ وہ نالی یا غیر قدرتی راستہ ہوتا ہے کہ جو جسم کے اندرونی دو اعضاء کے درمیان یا جسم کے کسی اندرونی حصہ سے باہر کی سطح تک پیدا ہو جاتا ہے۔
فسٹولا یا فسچولا کئی قسم کا ہوتا ہے مثلاً دانت، ہڈی (گھبیر)، ناف اور آنسو کی تھیلی کا ناسور یا فسچیولا۔ ہمارے ہاں عام طور پر اِس سے مراد مقعد کا ناسور لیا جاتا ہے۔ مقعد کے ناسور (Anal Fistula) کو بھگندر بھی کہتے ہیں۔
یہ دراصل پرانا زخم ہوتا ہے جس سے پتلا یا گاڑھا مواد (پیپ یا خون آلود پیپ) بہتا رہتا ہے۔ بعض اوقات یہ بہت بدبودار ہوتا ہے۔ اگر یہ بہتا رہے تو تکلیف یا درد نہیں ہوتا۔ اگر مواد بہنا رک جائے تو بہت تکلیف دیتا ہے۔ اِس کا بہنا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔
اِس سے یہ بات سمجھ آ جانی چاہئے کہ اِس تکلیف کا علاج بیرونی طور پر کچھ لگا لینے سے نہیں ہوتا کیونکہ زخم کہیں اندر ہوتا ہے۔زخم کے مواد کا باہر آنا قدرتی مدد ہے۔ اندرونی نظام کو ٹھیک کئے بغیر باہر کا زخم بند کر دینا مریض کو کسی بڑی اور موذی (عام طور پر ٹی بی یا کینسر، اللہ کریم ہم سب کو اپنی امان میں رکھے) بیماری کی طرف لے جا سکتا ہے۔
اس طرح کی تکلیفوں کے پیچھے بالعموم معدے کی واضح خرابی، ٹی بی کا مزاج یا ہسٹری ہوتی ہے اور واضح طور پر ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی مسائل بھی۔ ابتدا میں آنت کی ایک طرف چھوٹا مگر سخت سا دانہ نکلتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ دانا بڑا ہو جاتا ہے تو مریض کو سخت بے آرامی اور درد محسوس ہونے لگتا ہے۔ ہفتہ دس دن کے اندر آس پاس کی جگہ سوج جاتی ہے اور پھر بدبودار پیپ نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔ ناسور / فسچولہ کا منہ کھل جائے اور پیپ نکلنا شروع ہو جائے تو سوجن اور درد کم ہو جاتا ہے۔
ایسے مریضوں کے علاج کے لئے یوں تو تقریباً دو سو ہومیوپیتھی دوائیں لٹریچر میں درج ہیں۔ پاکستان میں میرے تجربے میں مندرجہ ذیل ٹاپ ہومیوپیتھک ادویات فسچولا کے علاج میں مفید ثابت رہی ہیں۔ یورپ یا دوسرے ایسے ممالک جہاں فاسٹ فوڈ اور شراب یعنی الکحل کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہاں کا رہن سہن بھی بالکل مختلف ہوتا ہے؛ وہاں کے مریضوں کی ہومیوپیتھک دوائیاں بھی اَور ہو سکتی ہے۔
ہومیوپیتھی کا اہم ترین اصول ہی یہی ہے کہ علاج مرض کا نہیں مریض کا ہو گا۔ ان میں سے کون سی دوا کب اور کتنی خوراک، طاقت (پوٹینسی) میں استعمال کرنی ہے؛ یہ کام کوئی ہومیوپیتھک ڈاکٹر مریض کا تفصیلی کیس لینے کے بعد ہی کر سکتا ہے۔ مرض اگر پرانا ہو تو علامات اور حالات کے مطابق دوائیں بدلنی ہوتی ہیں۔بعض اوقات اس تکلیف کے پیچھے بہت زیادہ غم، غصہ، نفرت، ڈر، خوف، فوبیا، وہم، وسوسے، منفی سوچیں، عجیب خیالات کی یلغار، مثبت منفی کی کشمکش، حساس طبیعت، جلد بازی، انتقام یا دھوکہ جیسے بڑے جذباتی، نفسیاتی اور ذہنی مسائل بھی ہوتے ہیں۔ اگر اُن کو ساتھ حل نہ کیا جائے تو فسٹیولا کبھی دوائیوں سے ٹھیک نہیں ہوتا۔ سرجری اور آپریشن کا فائدہ بھی عارضی ہی ہوتا ہے کہ اگر جذباتی و نفسیاتی مسائل اُسی طرح جاری رہیں۔ ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے اپنا ہر چھوٹا بڑا مسئلہ پوری تفصیل سے ڈسکس کریں تاکہ وہ تکلیف کو ہر پہلو سے سمجھ کر حل کرنے پر کام کرے۔
میرے تجربہ یہ ہے کہ کم از کم چھ ماہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے تاہم اللہ کے کرم سے بہتری کے واضح آثار پہلے ماہ ہی شروع ہو جاتے ہیں۔
فلورک ایسڈ (Fluoric Acid).
سلیشیا (Silicea).
بسیلینم (Bacilinum).
کلکیریا فلور (Calcarea Flour).
ٹیوبرکیولینم ( Tuberculinum Bovinum Kent).
نکس وامیکا (Nux Vomica).
آرسینک البم (Arsenic Album).
ہیپر سلف (Hepar Sulph)۔
مریض عام طور پر قبض، معدے اور نیند کی خرابی، سٹریس، ڈپریشن اور غصے کی شدت کا شکار بھی ہوتے ہیں؛ اِس لئے ان مسائل کو سمجھے بغیر علاج کا مستقل فائدہ نہیں ہوتا۔ علاج کے دوران کھانے پینے کی عادات اور مناسب آرام کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جو مریض سرجری کروا لیتے ہیں؛ کچھ عرصہ بعد ان میں یہ مسئلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ مریض اپنے معمولاتِ زندگی میں ضروری تبدیلی نہیں کرتا۔ علاوہ ازیں اِس تکلیف سے جڑے صحت کے دوسرے مسائل کو سمجھ کر علاج نہیں کیا جاتا۔
حسین قیصرانی – سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ، لاہور پاکستان ۔ فون 03002000210