نفسیاتی کشمکش، کنفیوژن، تذبذب اور خودکلامی کا مستقل عذاب – ایک سچی کہانی – کامیاب علاج

“اب تم زیادتی کر رہی ہو وہ تمہیں منانے کے لیے آیا تھا نا پھر کیوں نہیں مانی۔”“میں زیادتی کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں؟ تم بھی مجھے ہی الزام دے رہی ہو۔” “نہیں میں الزام نہیں دے رہی۔ میں تو بس تمہیں یہ سمجھا رہی ہوں کہ جب اس نے پہل کر لی تھی تو تم بھی قدم بڑھا لیتی۔”“اچھا آج اتنے دنوں بعد انہیں مجھے منانے کا خیال آ گیا وہ بھی تب جب میں نے خود آگے بڑھ کر بات کر لی ورنہ انہیں تو آج بھی فرق نہ پڑ تا وہ تو آج بھی انجان بنے رہتے۔ انہیں خود سے تو کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی مجھے منانے کی, مجھ سے بات کرنے کی۔”

“تم بھول رہی ہو اس نے اس دن بھی تم سے بات کرنے کی کوشش کی تھی پر تم نے جواب نہیں دیا تو پھر وہ بھی خاموش ہو گیا اور بدتمیزی کتنی کی تھی تم نے اس کے بلانے پر وہ پھر بھی خاموش رہا۔ اور آج اگر تم نے خود سے بات شروع کر ہی لی تھی تو پھر قصہ ختم کر دیتی پھر وہی باتیں دہرانے کی اور نئے سرے سے ایک مدعا بنانے کی کیا ضرورت تھی؟۔”

“کیا منایا تھا، ہیں، بتاؤ مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا منایا تھا انہوں نے مجھے۔ ایک دفعہ بس فارمیلٹی پوری کرنے کے لیے کہہ دیا کہ بات ختم کر دو اور میں نے ایک دفعہ کہا کہ میں نے بات نہیں کرنی تو پیچھے ہٹ گئے۔ ویسے جب میں کسی چیز سے منع کرتی ہوں تو مجھے تنگ کرنے کے لیے بار بار وہی کام کرتے ہیں تب تو باز نہیں آتے اور اب میں نے ایک دفعہ منع کیا تو بہت فرماں بردار بن گئے۔”

“تمہارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ تم بات کو چھوڑتی ہی نہیں ہو پکڑ کے بیٹھ جاتی ہو اور پھر خود ہی الٹا سیدھا سوچ سوچ کر پریشان ہوتی رہتی ہو۔ وہ بے چارا اب کیا کرے؟ مجھے ایک بات بتاؤ کیا فائدہ ہے اپنے آپ کو ذہنی اذیت دینے کا اسی وقت غبار نکال کر بات ختم کیوں نہیں کر دیتی تم۔” 

“مجھے کوئی غبار نہیں نکالنا کیونکہ مجھے اب رہنا ہی نہیں ہے ان کے ساتھ ۔ جب انہیں میری پرواہ ہی نہیں ہے تو میں کیوں زبردستی ان کے سر پر مسلط رہوں یہ ایسے ہی خوش ہیں میرے بغیر تو رہیں میرے بغیر ہی۔ میں ویسے بھی اب تھک گئی ہوں۔” 

“اچھا، اسے پرواہ نہیں ہے تمہاری۔ تو پھر کیوں وہ تمہاری بدتمیزیاں برداشت کرتا ہے، غلطی نہ ہو پھر بھی تمہیں مناتا ہے، تم ایک دفعہ اسے کہو تو بڑی سے بڑی بات بھی نظرانداز کر دیتا ہے، تمہاری تکلیف کی وجہ سے تمہیں اپنا کوئی کام نہیں کہتا، ہمیشہ تمہیں ہر چیز میں مارجن دیتا ہے۔ اور کیسے کرتے ہیں خیال؟ ویسے نا شکری تو ختم ہے تم پر، ایک ذرا سی بات پر سب کچھ زیرو کر دیتی ہو کوئی ایک احسان تو یاد رکھا کرو اس کا۔”

“اچھا میں جب بھی ناراض ہوتی ہوں تو منہ پھیر کر سو جاتے ہیں۔ دیکھو کیسے مزے سے سو رہے ہیں انہیں نہیں پتا کہ ان سے لڑ کر مجھے نیند نہیں آتی لیکن دیکھو ان کی لاپرواہی، ایسے نارمل ہیں جیسے انہیں میرے خراب موڈ کا پتا ہی نہیں ۔ یہی ہو رہا ہے نا اتنے دنوں سے اور ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے۔ میں پورا سال بھی بات نہ کروں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پھر بھی میں ہی ناشکری ہوں ہے نا؟ میں چاہے جتنے دن مرضی ناراض رہوں ہمیشہ خود ہی آگے بڑھ کر بات ختم کرتی ہوں پھر بھی میں ہی بری ہوں اور یہ، جو میرے خود سے پہل کرنے کے بعد مجھے منانے کا احسانِ عظیم کرتے ہیں، بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔  ہے  نا؟ جب اپنا دل کیا تو مجھے منا لیا ورنہ ایسے منہ پھیر کر سوئے رہے جیسے میرا اس دنیا میں وجود ہی نہیں ہے، واہ واہ کیا بات ہے بڑا خیال ہے ان کو میرا۔” 

“یہ غلط بات ہے وہ اسی وقت تمہیں مناتا ہے اور بات ختم کرنے کو کہتا ہے لیکن تم اپنا منہ ہی سیدھا نہیں کرتی ہو تو پھر وہ بے چارہ کیا کرے۔ سارا دن کا تھکا ہوتا ہے اب سوئے بھی نہ اور میڈم کا موڈ دیکھتا رہے”۔

تمہیں پتا ہے وہ کیوں اتنی پر سکون نیند سو رہا ہے؟

“کیونکہ انہیں میرے ہونے نہ ہونے سے، میری خوشی میری پریشانی کسی چیز سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔”

“نہیں، اس لیے کیونکہ وہ تمہاری طرح غلط باتیں نہیں سوچتا، اپنے آپ کو اذیت نہیں دیتا۔” 

” وہ پر سکون اس لیے ہیں کیونکہ میں ان کے ساتھ وہ سب نہیں کرتی جو وہ میرے ساتھ کرتے ہیں۔ میں بھی اگر ان کے ساتھ ایسا رویہ رکھوں نا! جیسا ان کا ہے میرے ساتھ تو پھر پتا چلے انہیں بھی۔ پھر میں دیکھوں کون سا سکون ہے اور کونسی نیند؟” 

“تمہیں تو کچھ بھی سمجھانا بے کار ہے کیونکہ تم نے کسی کی بھی نہ تو سننی ہوتی ہے نہ ہی ماننی ہوتی ہے۔ پھر بھی اتنا ضرور کہوں گی کہ وہ تم سے صرف ایک ہاتھ کی دوری پر ہے چاہو تو ہاتھ بڑھا کر اس دوری کو ختم کر دو اور اگر نہ چاہو تو اس بات کو لے کر بیٹھی رہو اور سڑتی کڑھتی رہو، تمہاری مرضی ہے۔ میں اب اس کے بعد تم سے کچھ نہیں کہوں گی۔”

ہر دلیل کے ساتھ وہ قطرہ قطرہ پگھل رہی تھی۔ اس کے اندر سے اٹھنے والی اسے آئینہ دکھاتی آواز اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہی تھی۔ اس نے ایک شکستہ نظر اپنے پہلو میں پر سکون سوئے ہوئے اپنے شوہر پر ڈالی، جو پچھلے کئی دنوں سے اس کی بے سکونی کی وجہ بنا ہوا تھا، اور بالآخر اپنی شکست تسلیم کر لی۔ بہت ہمت مجتمع کر کے اس نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا لیکن اس کا ہاتھ اپنی منزل تک نہ پہنچ سکا۔

اسے شدت سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہ بالشت بھر فاصلہ طے کرنا اتنا بھی آسان نہیں تھا کیونکہ ان دونوں کے بیچ انا کی ایک سیسہ پلائی دیوار حائل تھی جسے توڑنے میں یقیناً اس کا سارا وجود کرچی کرچی ہو جاتا۔ اس نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا اوراپنی ہتھیلیوں سے آنکھوں سے بہنے والے موتی سمیٹنے لگی۔ یہ موتی اس کے ٹوٹنے کا عندیہ تھے یا پھر بے بسی کا مظہر، ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی اندازہ لگانے سے قاصر تھی لیکن ایک بات واضح تھی یہ موتی اس کی ذات میں پڑنے والی دراڑ کو مزید گہرا کر رہے تھے۔ 

کیس کا تجزیہ، دوا اور علاج — ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور ہومیوپیتھی سٹوڈنٹس کے لئے

مریضہ نے اپنا کیس ایک کہانی کی صورت میں پیش کیا ہے جو اُس کی اپنی ہے اور حرف حرف سچی۔ وہ دن رات ایک مستقل اور مسلسل ذہنی کشمکش میں مبتلا تھی۔ اُس کے اندر منفی سوچیں حملہ آور ہوتیں اور اُن کے جواب میں وہ خود ہی کچھ مثبت سوچیں سوچتی اور اپنے آپ کو دلیلیں دے کر مطمئن کرتی مگر کامیابی ہمیشہ منفی یا پریشان کر دینے والے خیالات کی ہی ہوتی۔ وہ اپنے شوہر سے بے پناہ محبت کرتی ہے اور وہ بھی بہت اچھا انسان اور ذمہ دار انسان ہے مگر اس کی سنجیدگی اور عام طور پر خاموش رہنے کی عادت محترمہ کے لئے سوہانِ روح تھا۔ وہ ایک اذیت ناک اور نہ ختم ہونے والی کشمکش میں مبتلا ہو گئی کہ شاید اُس کا خاوند اُس میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا یا شاید محبت کرتا ہے یا شاید نہیں کرتا۔

پھر وہ ہر معاملہ اور کام میں ڈبل مائنڈڈ (Double Minded) اور کنفیوز (Confused) رہنے لگی۔ دل و دماغ مسلسل جنگ کا میدان بنے رہتے۔ خوشی، سکون اور اطمینان چھن گیا۔ اُس کی یاد داشت (Memory Loss) بُری طرح خراب ہو رہی تھی۔

وہ یونیورسٹی میں لیکچرر تھی جہاں سٹوڈنٹس اور کولیگ اُس کے اندازِ گفتگو، اعتماد اور پرسنیلٹی سے بہت متاثر تھے۔ اردو اور انگریزی دونوں دونوں زبانوں میں یکساں مہارت رکھتی تھی۔ بین الاقوامی معیار کے رسالہ جات میں تحریریں شائع ہوتیں۔ ایک طرف یہ صورت حال اور دوسری طرف گھر میں، اُس کے خیال میں، کسی کو اُس سے زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ اُس کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ اصل میں وہ کون ہے — گھر والی بے وقعت بیوی یا یونیورسٹی لیکچرر جس کے ہر طرف چرچے تھے۔ جوں ہی وہ فارغ بیٹھتی تو اُس کے دماغ میں سوچوں کا لاوا ابلنا شروع ہوتا۔

 اناکارڈیم (Anacardium Occidentale) سے علاج شروع کیا گیا۔ دوا کے ساتھ ساتھ شروع میں آن لائن سائکوتھراپی سیشن کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔ ایک ماہ کے اندر ہی محترمہ زندگی میں واپس آ گئی۔
جب اناکارڈیم کی لیئر اُتری تو وہ لیکیسس (LACHESIS MUTUS) کا کیس بن کر سامنے آئی ۔۔۔۔ وہ کہانی پھر سہی۔

حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔

فیڈبیک ملاحظہ فرمائیں۔ 

 

AOA dr sb! hope u r fine. Finally I came after wandering 4 hours. We had lunch at our fav place, shared tons of gossips then headed to the market. I bought lots of things while nothing was planned but still bought enough stuff. It rained while we were in between our shopping but we kept on moving n at the end we encountered a procession that was on its way through bazar then we walked much to get some conveyance.
Gossip, food, walk in rain everything just made me happy.

Moral of the story I enjoyed alot after a loooooooooong time feeling happiness deep inside.

Even I tried imli n aalu bukhara sharbat first time in my life cz I always afraid of having such things that can affect my throat.

WOA, This makes me so happy to know. Alhamdo Lillah! You are back to life now.
You deserve a happy and healthy life.
Thank you for sharing

Thanks for making this happen for me. Yes ALHAMDOLILLA, ALLAH has blessed me with such wonderful people n blessings around n now I would make best out of all these IA.

I have much more to share that IA soon I would.

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter