- مارگریٹا روڈریگیز
کیا خوشی کی تلاش زندگی کا مقصد ہے یا صرف ایک جال؟
ماہرِ نفسیات ایڈگر کباناس سے پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ خوشی بھی ایک کسی ’پراڈکٹ‘ یا ’کاروبار‘ کی طرح ’خود غرض‘ تصور بن چکا ہے۔
کباناس ماہرِ عمرانیات ایوا ایلوژے کے ساتھ ایک کتاب ’ہیپی کریسی: ہاؤ سائنس اینڈ ہیپی نیس انڈسٹری کنٹرول اوور لائیوز‘ کے مشترکہ مصنف ہیں۔
مصنفین نے اُن کئی تصورات کو چیلنج کیا ہے جنھیں کروڑوں ڈالر کی ’خوشی کی صنعت‘ فروغ دیتی ہے۔ ان تصورات میں ایک یہ بھی ہے کہ خوشی صرف ایک انتخاب ہے.
اس کے بجائے اُن کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ یہ چاہتے ہیں، تو آپ اسے پا سکتے ہیں‘ جیسے نعرے کچھ لوگوں کو اس وقت احساسِ ندامت اور پریشانی میں مبتلا کر سکتے ہیں جب چیزیں اُن کی خواہش کے مطابق نہ ہو رہی ہوں۔
بی بی سی کی ہسپانوی سروس بی بی سی مُنڈو سے بات کرتے ہوئے سپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں کیمیلو ہوزے سیلا یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو ایڈگر کباناس نے ’مثبت نفسیات‘ کہلانے والی چیز کی سائنسی حقیقت پر سوال اٹھایا۔
اُن کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی انفرادی خوشی کے پیچھے بھاگتے رہنا چھوڑ کر اجتماعی خوشی کے لیے کام کرنا چاہیے۔
ذیل میں اُن کا انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: آپ نے ایک ٹیڈ ایکس ٹاک میں کہا تھا کہ خوشی کے تصور سے ہٹ جانا ممکن ہے مگر آپ اسے ’خوش خبری‘ کیوں کہتے ہیں؟
جواب: خوشی کے متعلق عام بیانیے کے ساتھ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ جنون بن چکا ہے، گروؤں، اپنی مدد آپ کی کتابوں وغیرہ کا ایک اچھی زندگی، ایک زیادہ بھرپور زندگی، ایک زیادہ ترقی یافتہ زندگی کا وعدہ ایک نشہ بن چکا ہے۔
یہ ایک پیچیدہ وعدہ ہے کیونکہ وہ خوشی واقعتاً کبھی نہیں آتی۔ یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہو پاتا کیونکہ یہ نہ ختم ہونے والا مرحلہ ہے۔ ہم اس پھندے میں پھنس جاتے ہیں اور ان پراڈکٹس کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر کوئی شخص اپنے آپ کو سمجھنے یا خوشی حاصل کرنے کے لیے اپنی مدد آپ کی کتاب خریدتا ہے مگر صرف ایک نہیں، بلکہ اگلی اور پھر اس کے بعد اگلی کتاب خریدتا ہے۔
پر اگر ان کتابوں میں ان کے کتابوں کے دعوے کے مطابق واقعی خوشی کی چابی ہوتی تو ان میں سے صرف ایک کو ہی پڑھنا لوگوں کو خوش بنانے کے لیے کافی ہوتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔
ہمیں اس چکر سے باہر نکلنا ہو گا، ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ یہ پھندا ہے۔
سوال: آپ کے مطابق یہ تصور کہ ہماری خوشی ہمارے ہی قابو میں ہے، اُن لوگوں کو احساسِ ندامت میں مبتلا کر سکتی ہے جو خوش نہیں ہے۔ اس سے ہماری ذہنی صحت کیسے متاثر ہو سکتی ہے؟
جواب: بہت منفی اثر پڑتا ہے۔ ہم جب یہ سنتے ہیں کہ خوشی کا دارومدار صرف ہم پر ہے، یہ کہ ہمیں خوش اور بھرپور زندگی گزارنے کے لیے صرف اپنی ضرورت ہے، تو یہ ایک پرکشش خیال لگتا ہے مگر ایسا حقیقت میں ہے نہیں۔
خوشی کے متعلق عصرِ حاضر کے تصور میں ہمارے حالات کا کردار اگر مکمل طور پر خارج نہیں کیا جاتا تو پھر بھی کم ضرور بیان کیا جاتا ہے۔ ایک مشہورِ عام مفروضہ یہ ہے کہ خوشی کا 50 فیصد تعلق ہمارے جینز، 40 فیصد ہماری مرضی اور صرف 10 فیصد تعلق ہمارے حالات سے ہے، بھلے ہی اس مفروضے کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔
دوسرے لفظوں میں کہیں تو ہماری 90 فیصد خوشی کا دارومدار صرف ہماری ذات پر ہے، نہ کہ ان تمام چیزوں پر جو ہمارے حالات کی وجہ سے ہیں، مثلاً ہماری آمدنی، سماجی رتبہ، ثقافتی روایات، ہمارے خاندان، ہمیں حاصل سہارا وغیرہ۔ یہ عجیب ہے کہ اس سب کو ہماری خوشی کا صرف 10 فیصد قرار دیا جاتا ہے۔
سوال: بطور فرد اور معاشرہ پر خوشی کا جنون کب سوار ہوا؟
جواب: نسبتاً ماضی قریب میں۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں امریکہ میں اپنی مدد آپ کی کتابیں اور خوشی کی تربیت دینے والے افراد ابھرنے شروع ہوئے اور یہ کلچر نشونما پاتا رہا ہے۔ امریکہ کے باہر یہ سنہ 2000 کے بعد سے زیادہ عام ہوا ہے جب سے ’مثبت نفسیات‘ کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد ان میں سے کچھ تصورات کو سائنسی پیکجنگ دینا تھا۔
اور یہ مارکیٹ کسی بھی بحران سے متاثر نہیں ہوا ہے۔ سنہ 2008 کا معاشی بحران اس کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا اور سوشل میڈیا، ذرائع ابلاغ اور ہیلتھ میگزینز سے خبروں اور مشوروں کی صورت میں بمباری اب پہلے سے کہیں زیادہ باقاعدہ ہو گئی ہے۔
سوال: خوشی کی ہماری تلاش میں شاید درد اور اداسی کا خوف بھی ہمارا ساتھی ہوتا ہے اسی لیے ہم پر خوشی کا جنون طاری ہو جاتا ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟
جواب: جی ایسا ہی ہے، اور ہم خوشی کو اپنی زندگی کا اہم ترین جزو جتنا زیادہ تصور کریں گے، ایسا اور بھی زیادہ ہوتا جائے گا۔ ہم اس بات پر بحث کر سکتے ہیں کہ کیا خوشی زندگی کی سب سے اہم چیز ہے یا نہیں مگر ہمیں اس سے پہلے جاننا پڑے گا کہ یہ کیا چیز ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ خوشی کی تعریف کیا ہے۔
اگر خوشی کا دار و مدار مکمل طور پر ہم پر ہے تو کسی گرو کو کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ کو خوش رہنے کے لیے کس چیز کی ضرورت ہے؟ اور اگر یہ اتنی انفرادی چیز نہیں ہے تو پھر یہ اس بیانیے کے خلاف ہے جس کا سارا زور اس بات پر ہے کہ خوشی کا تعلق خود فرد سے ہے۔
اس سب کے پیچھے ’منفی‘ جذبات کہلائے جانے والے جذبوں کی بڑھتی ہوئی بدنامی ہے۔ یہ صرف ایک برا لیبل ہے۔ جذبات کبھی بھی مثبت یا منفی نہیں ہوتے، بلکہ ان کا مثبت ہونا یا منفی ہونا صورتحال پر اور اس لمحے میں اُن کے کردار پر منحصر ہے۔
مثال کے طور پر ہم اینگزائٹی محسوس کر سکتے ہیں اور یہ تکلیف دہ ہو سکتی ہے، مگر کچھ اینگزائٹی اچھی بھی ہو سکتی ہے، مثلاً کسی دوڑ یا امتحان سے قبل اس کا کردار مثبت ہوتا ہے۔
غصے کو ایک منفی جذبہ کہا جاتا ہے۔ غصہ ایک ردِ عمل ہے جو واقعی کافی منفی ہو سکتا ہے اگر یہ پرتشدد اقدامات اور استحصال کی طرف لے جائے، پر اگر یہ ہمیں ظلم و ناانصافی سے لڑنے یا غلط چیزوں کو تبدیل کرنے پر ابھارے تو یہ مثبت چیز ہے۔
شاید آپ یہ سوچیں کہ زندگی کو مثبت نگاہ سے دیکھنا ہمیشہ ایک اچھی چیز ہے مگر ایسا ضروری نہیں ہے۔ کبھی کبھی پرامید ہونا ہمیں کسی حد تک توقع قائم کرنے اور کچھ چیزیں کرنے کے لیے تحرک فراہم کرتا ہے مگر کبھی کبھی یہ ہمیں ہماری صلاحیتوں کے بارے میں گمراہ بھی کر سکتا ہے اور پھر ہم وہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں جس کے لیے ہم نکل پڑے تھے۔ ہم غلط حساب لگاتے ہیں اور اپنے امکانات کو غلط طرح پرکھتے ہیں۔
اداسی خوشگوار نہیں ہوتی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کسی چیز کے لیے ہمارا نارمل ردِ عمل نہیں ہے۔ آپ کسی نقصان کے وقت کیسے اداس نہیں ہو سکتے؟ جو چیز صحت مند نہیں ہے، وہ یہ کہ اداس ہونے کے ساتھ آپ کو برا بھی لگنے لگے، کیونکہ یہ دہری پریشانی ہو گی۔ جذبات کو بدنام نہیں کیا جانا چاہیے۔
سوال: آپ اُن لوگوں کی بات کرتے ہیں جو اچھا محسوس کرنے کے باوجود یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اُنھیں زیادہ خوش ہونا چاہیے، سو وہ خوشی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
جواب: یہی بات اُن لوگوں کا بنیادی طرزِ فکر ہے جنھیں ہم اپنی کتاب میں ہیپی کونڈریئکس کہتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کا ماننا ہے کہ اُن کے ساتھ ہمیشہ کچھ نہ کچھ غلط ہے اور وہ بیمار ہیں بھلے ہی ایسا نہ ہو۔
اُنھیں لگتا ہے کہ وہ چونکہ خوش نہیں ہیں اس لیے اُن کے ساتھ ہی کچھ مسئلہ ہے۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح استعمال نہیں کیا ہے۔ اُنھیں برا محسوس کرنے کا جنون ہوتا ہے بھلے ہی وہ ٹھیک ہوں۔
اس بیانیے کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ یپ آپ کو اچھا محسوس کرنے کے لیے صرف تبھی مدد کی پیشکش نہیں کرتا جب آپ برا محسوس کر رہے ہوں، بلکہ تب بھی جب آپ پہلے سے ہی ٹھیک ٹھاک ہوں۔ تو ’بہتری‘ کی یہ تلاش کبھی ختم نہیں ہوتی۔
ہم خوش کب ہوتے ہیں؟ یہ وہ چیز ہے جو ہمیں کبھی نہیں بتائی جاتی۔ کوئی ہم سے یہ نہیں کہتا کہ ’تم پہلے ہی خوش ہو، اب بس کر دو۔‘
اس کے بجائے ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کبھی بھی مکمل طور پر خوش نہیں ہو سکتے، اور اگر آپ خوش بھی ہوں تو آپ کو ہمیشہ خبردار رہنا چاہیے کیونکہ اگر آپ نے خود کو آرام دیا تو آپ تمام خوشی کھو دیں گے۔
یہ وہی منطق ہے جو کنزیومر مصنوعات کے پیچھے کار فرما ہے: اگر آپ کوئی سافٹ ویئر یا موبائل فون خریدیں گے تو آپ کبھی بھی سب سے بہتر ورژن حاصل نہیں کر پائیں گے کیونکہ اس سے بہتر ورژن بھی جلد ہی آنے والا ہو گا۔
سوال: ہمارے معاشرے میں کون سی خلیج ہے جو خوشی کا گر سکھانے والے گرو بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
جواب: اس کے پیچھے کئی ثقافتی اور معاشی تبدیلیوں کا امتزاج ہے جن میں بڑھتی ہوئی انفرادیت، زندگی کے تمام شعبوں میں آزاد مارکیٹ کا فروغ اور جعلی سائنس کا یہ نظریہ کہ خوشی کی تلاش کا کوئی سائنسی، ثابت شدہ اور معروضی طریقہ موجود ہے۔
اپنی کتاب میں ہم اس تصور کو ہی چیلنج کرتے ہیں کہ خوشی جیسی کسی چیز کو سائنسی اعتبار سے پرکھا جا سکتا ہے۔
میرے خیال میں ہم نے یہ پایا ہے کہ کئی دہائیوں تک سماجی اور اقتصادی مشکلات موجود اور بڑھتی رہی ہیں۔ چنانچہ ہم اپنے گرد موجود چیزوں کو بدلنے میں ناکامی پر جتنا غور کرتے ہیں اتنا ہی بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں۔ پھر آپ اپنے حالات تبدیل کرنے کے بجائے اپنے آپ کو تبدیل کرنے پر غور کرنے لگتے ہیں کیونکہ آپ سوچتے ہیں کہ حالات تو بدل نہیں سکتے۔
نہ صرف یہ کہ انفرادیت کا احساس بڑھ رہا ہے، بلکہ یہ احساس بھی فروغ پا رہا ہے کہ دنیا میں بڑی تبدیلی لانے کے امکانات کم ہی ہیں۔
سوال: اور اس سب میں سماج کا تصور نظر انداز ہو رہا ہے، کیا ایسا ہی ہے؟
جواب: مجھے لگتا ہے کہ ایسا ہے۔ اب جب ہم فلاح و بہبود کے بارے میں بات کرتے ہیں تو درحقیقت یہ ذاتی فلاح و بہبود ہی ہے۔ اپنا خیال رکھو، کوئی تمھیں بچانے نہیں آئے گا، وہ کرو جو تمھارے لیے بہتر ہے، اپنی صحت کا خیال رکھو۔
یہ سب ناقص تصورات ہیں کیونکہ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ ذاتی صحت کا تصور معاشرے کی صحت جتنا اہم نہیں ہے۔ ہم نے کورونا وائرس کے ساتھ اسے دیکھ لیا ہے۔ آپ اپنا خیال جتنا چاہیں رکھ لیں، مگر جو چیز واقعی اہم ہے وہ یہ کہ دوسرے تمام لوگ بھی صحت مند ہوں کیونکہ دوسری صورت میں صرف اپنے بارے میں فکر کرتے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
کچھ ایسا ہی خوشی کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ آپ اپنے بارے میں فکر کر سکتے ہیں اور پھر احساس ہو گا کہ آپ کے ارد گرد چیزیں ٹھیک نہیں چل رہیں کیونکہ ہم سب سماج کا حصہ ہیں۔ پھر چاہے ہمیں یہ پسند آئے یا نہ آئے، مگر ہم دوسروں پر منحصر ہیں۔ اگر سماجی بہبود نہیں ہو گی تو فرد کی بہبود بھی نہیں ہو گی۔
ہم سماجی بہبود کے تصور کو انفرادی بہبود کے تصور سے بدل رہے ہیں اور میرا خیال ہے کہ یہ ایک غلطی ہے۔
سوال: کیا خوشی کی تلاش جاری رکھنے کا کوئی فائدہ ہے؟
جواب: وہ خوشی نہیں جس کا ہم سے آج کل وعدہ کیا جاتا ہے۔ خوشی کے اس تضاد کے بارے میں کئی نئے اور دلچسپ مطالعے سامنے آ رہے ہیں جن کے مطابق آپ خوش رہنے کی جتنی زیادہ کوشش کریں گے اپنی خوشی کو اتنا ہی زیادہ نقصان پہنچائیں گے۔
یہ ایسا ہی ہے کہ آپ یہ سوچ کر کسی پارٹی میں جانا چاہیں کہ وہاں آپ کا زبردست وقت گزرے گا اور پھر جب آپ پارٹی میں پہنچیں تو یہ ایک عام سی پارٹی ہو۔ آپ اتنا لطف نہیں اٹھا پاتے کیونکہ آپ نے سوچا تھا کہ یہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہو گی۔
ساری زندگی خوشی کی تبلیغ کرنے والے جان سٹورٹ مِل نے زندگی کے اختتام پر کہا کہ خوشی کو اپنی پوری زندگی کا بنیادی مقصد بنا لینا فائدہ مند نہیں ہے کیونکہ ہمیں نہ یہ معلوم ہے کہ خوشی کیا ہے اور نہ ہی یہ پتا ہے کہ یہ کہاں ملے گی۔ اور چونکہ ہم اس کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرتے ہیں تو اس کی تلاش میں اور زیادہ بے چین رہتے ہیں۔
ہمیں خوشی کی اس بحث سے باہر نکلنا ہو گا اور اس کے لیے ہمیں اس کے بارے میں جنون کی حد تک سوچنے اور کام کرنے سے رکنا پڑے گا۔
سوال: ہم میں سے کئی لوگ نئے سال کے لیے عزم کا تعین کرتے ہیں۔ آپ خوشی چاہنے والے یا خوشی کی تلاش میں مصروف لوگوں کے لیے کیا کہیں گے؟
جواب: اُنھیں ’میں زیادہ خوش رہوں گا‘ کہنے کے بجائے کہنا چاہیے کہ ’میں کسی کی خوشی کا باعث بنوں گا‘ جس کی توجہ ہم پر نہیں بلکہ دوسروں پر ہے۔ یہ خوشی کے اس گھن چکر سے بلند سوچ ہے اور میرا مشورہ یہی ہو گا۔
Search and you shall find.. its recognizing that you have “found” that one misses…
lovely thought provoking article..