فی زمانہ بنی نوعِ انسان انواع و اقسام کی بیماریوں سے جتنی پریشان آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ عجیب و غریب ناموں سے طرح طرح کی خوفناک بیماریاں سامنے آ رہی ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق جینز کی خرابی سے جوڑ دیا جاتا ہے اور ان پر لا علاج کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ یا کچھ حد تک سرجری کی مدد لی جاتی ہے۔ تاہم طبِ ایلوپیتھی ایسی لا علاج اور آٹو امیون بیماریوں کا حتمی حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ لوگ تشخیص تو بہت اچھی کر لیتے ہیں لیکن اس کے بعد ان کی کارکردگی کے آگے بہت بڑا سوالیہ نشان موجود ہے جو آئے دن اور بڑا ہوتا جا رہا ہے۔
یہاں ہم ہومیوپیتھی طریقِ علاج کے بارے میں کچھ بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
ہماری سوچ اور معلومات کی مطابق مذکورہ بیماریوں میں ہومیوپیتھی نہایت مثبت رول ادا کر سکتی ہے بشرطیکہ اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک نہ کیا جائے اور اسے سوسائٹی میں جائز مقام دیا جائے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ بدقسمتی سے دوسرے طبقہ نے اسے ہمیشہ حقیر جانااور اس میں کیڑے نکالنے کی کوشش کی۔ اور تمام ہومیوپیتھس کو کم علم اور ناتجربہ کار مشہور کر دیا۔ بدقسمتی سے اس کے مفروضی منفی پہلووں کو اجا گر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور آئے دن ایسا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے جس سے متاثر ہو کر عوام یہ سمجھ بیٹھتی ہے کہ (خدا نخواستہ) نہ صرف سارے ہومیوپیتھس نکمے بلکہ ہومیوپیتھی ہی بے کار ہے۔ جب کے حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ معدودے چند لوگوں کے گناہ کی سزا ساری کمیونٹی کو دینا نا انصافی ہے۔ سوشل میڈیا پر طعن و تشنیع کی اس دوڑ میں ہومیوپیتھی کے نادان دوست بھی شامل ہو جاتے اور اپنی ہی برادری کو جاہل کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری کمیونٹی سوشل میڈیا پر عوام کو نہ تو ہومیوپیتھی کا اصل چہرہ دکھا سکی، نہ مطمئن کر سکی۔ میں نے کراچی میں منعقدہ دو پروگرامز میں جو سوشل میڈیا پر نشر کیے گئے، عوام کو ہومیوپیتھی کے اصل چہرہ سے روشناس کرنے کی کوشش کی (اور میرا یہ مشن اکیس سالوں سے جاری ہے)۔ آپ (فیس بک) ولمار شوابے پاکستان کے پیج پر میرے ویڈیو لیکچرز دیکھ سکتے ہیں۔
ہماری رائے میں ایسے حقیرانہ رویے سے عوام کو نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہو گا۔ میری اربابِ بست و کشاد سے اپیل ہے کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہمیں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اسی میں سب کی بہتری ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بیشتر لا علاج بیماریوں کا تعلق موروثیت سے ہے۔ اسے چاہے آپ جینز کی خرابی کا نام دیں یا کچھ اور اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس کے علاوہ ہماری منفی سوچ، حسد، تنگ نظری، عدم برداشت، لالچ اور خود غرضی ہمیں لاعلاج کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔
ہومیوپیتھی ایسے تمام عناصر کو بخوبی ایڈریس کرتی اور ان پر قابو پانے کے لیے رہنمائی کرتی ہے۔ یہ ایسا طریقہِ علاج ہے جہاں رحمِ مادر میں بچے کو موروثی بیماریوں سے بچانے کے لیے علاج کیا جاتا ہے۔ ہمارا لٹریچر ایسے ہزارہا کامیاب کیسوں سے بھرا پڑا ہے۔ اور ہر تجربہ کار ہومیوپیتھ اپنی ذاتی پریکٹس میں اس کی تائید کرے گا۔
ہومیوپیتھی میں موروثی بیماریوں کے علاج میں کچھ نوسوڈز اہم کردار ادا کرتے ہیں جیسے کارسی نوسن، میڈورینم، سفلینم، سورینیم اور ٹیوبرکلینم۔ اور ان کے ساتھ تھوجا بھی۔ اور کچھ بڑی دوائیں جنہیں مزاجی دوائیں بھی کہا جاتا ہے جملہ بیماریوں سے نجات میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
ہم طبِ ایلوپیتھی کو نہ صرف تسلیم کرتے بلکہ اس کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ہم صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ ہومیوپیتھی کی مشکیں کسنے کی بجائے اسے بھی عوامی صحت میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے کیونکہ یہ علاج نہ صرف سستا بلکہ پائیدار بھی ہے۔
ڈاکٹر بنارس خان اعوان، واہ کینٹ