ہسٹیریا، اختناق الرِحم (Conversion Reaction or Hysteria) کے متعلق میڈیکل لٹریچر اور نفسیاتی تجزیہ کاروں کی سوچوں میں بہت اختلاف پایا جاتا رہا ہے۔ قدیم زمانے سے یہ خیال چلا آتا ہے کہ ہسٹریا کا مسئلہ رِحم یعنی بچہ دانی کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اِسی مناسبت سے عربی میں اِس مرض کو اِختناق الرِحم یعنی بچہ دانی کی بندش اور انگریزی میں ہسٹریا کہتے ہیں۔ ہسٹریا، دراصل یونانی زبان میں بچہ دانی ہی کو کہتے ہیں۔
جدید میڈیکل ریسرچ اِس نظریہ سے مکمل اتفاق نہیں رکھتی۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف خواتین ہی ہسٹیریا میں مبتلا نہیں ہوتیں بلکہ مردوں میں بھی اِس عارضہ کی شکایت پائی گئی ہے۔ یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ کئی ایسی خواتین میں ہسٹیریا کی تکلیف ملی کہ جن کی بچہ دانی میں کوئی نقص نہیں تھا یا جن میں بچہ دانی تھی ہی نہیں۔ اِس سے یہ معاملہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہسٹیریا صرف خواتین میں پایا جانے والا مرض نہیں۔
دراصل سنِ بلوغت کے نزدیک جا کر یا اس میں داخل ہو کر لڑکیاں (زیادہ لڑکے کم) اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس مرض کی علامات اتنی عجیب ہوتی ہیں کہ جن بھوت یا آسیب کا شبہ کیا یقین ہونے لگتا ہے۔ ایک طبقہ فکر ہسٹیریا کو جھوٹ اور مکر سمجھتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ کوئی بیماری نہیں بلکہ فریب اور بہانہ ہے۔ مریضہ / مریض اپنی طرف توجہ مبذول کروانے یا کوئی فائدہ حاصل کرنے کے لئے یہ کیفیت اپنے اوپر طاری کر لیتی / لیتا ہے۔ اِس کی تاریخ اور توضیح بیان کرنا ہمارے پیشِ نظر نہیں سو ہم پہلے علامات اور پھر ہومیوپیتھک علاج اور دواؤں کی بات کرتے ہیں۔
ہسٹریا مختلف شکلیں اور عجیب قسم کے اظہار کے طریقے اختیار کرتا ہے۔ کبھی مریض کا گلا بیٹھ جاتا اور آواز بالکل بھی نہیں نکلتی۔ مریض کو اکثر بے ہوشی کے دورے پڑتے ہیں۔ لڑکی ہو تو بے ہوشی کے بعد کبھی ہنستی ہے؛ کبھی روتی ہے اور کبھی غصہ میں آ جاتی ہے۔ بہت زیادہ شور مچانے، چیخیں مارنے، لڑکھڑانے اور ہوش و حواس کھو کر زمین پر گرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ عام لوگ اِسے مرگی کا دورہ سمجھنے لگ جاتے ہیں لیکن ہسٹیریا کے مریض کی بے ہوشی اور مرگی (epilepsy) کی کیفیت میں واضح فرق ہوتا ہے۔ اِس میں مریضہ پوری طرح بے ہوش نہیں ہوتی اور گرتی بھی اس طرح ہے کہ اُسے چوٹ نہیں لگتی اور نہ اُس کا چہرہ بگڑتا ہے جیسے مرگی کے مریض کا۔ یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ بالعموم سوتے میں یا تنہائی میں ہسٹریا کا دورہ نہیں پڑتا۔
بے ہوشی میں مریضہ کے اندر اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ اس کے ہاتھ میں کوئی چیز آ جائے تو اس کو دو مرد بھی نہیں چھڑا سکتے۔ باتیں عجیب و غریب کرتی ہے؛ بعض مستقبل کی باتیں تو بالکل درست بھی ثابت ہو جاتی ہیں۔ ایسا کیوں اور کیسے ہوتا ہے؛ یہ اگرچہ بہت دلچسپ اور اہمیت کی حامل بحث ہے لیکن اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ (جن خواتین و حضرات کو دلچسپی ہو وہ فرائیڈ، یُنگ، ایڈلر، جیمز اور فرام کی تحقیقات ملاحظہ فرمائیں۔ ہمارے دَور کے عظیم ہومیوپیتھک ڈاکٹر اور میرے گُرو جارج وتھالکس (George Vithoulkas) کی (Imagination) پر تحریر اور تقریر بھی فکر کی نئی جہتیں وَا کرتی ہے)۔
ہسٹیریا کے مریضوں کی ہومیوپیتھی دوائیں اور علاج
مندرجہ ذیل دواؤں کو، ہومیوپیتھک لٹریچر میں، ہسٹیریا کے مریضوں کے لئے مفید بتایا گیا ہے۔ عام طور پر انہی میں سے کوئی دوا مریض کے مسائل کا احاطہ کر لیتی ہے۔ ہومیوپیتھک ڈاکٹر مریض کے تمام پہلوؤں، علامات، مزاجی اور موروثی مسائل کو پیشِ نظر رکھ کر ایک دوا، اُس کی طاقت اور خوراک کا تعین کرتا ہے۔
نکس موسکاٹا (Nux Moschata)۔ نکس وامیکا (Nux Vomica) ۔ اگنیشیا (Ignatia Amara)۔ ایسا فوٹیڈا (Asafoetida)۔ پلیٹینم (Platinum Metallicum)۔ سٹیفی سیگریا (Staphsagria)۔ کالی فاس (Kalium Phosphoricum)۔ نیٹرم میور (Natrum Muriaticum)۔ ماسکس (Moschus)۔ سمسی فیوگا (Cimicifuga Racemosa)۔ ٹیرینٹولا ہسپانیکا (Tarentula Hispanica)
ایک بات خصوصی توجہ کی حامل ہے اور وہ یہ کہ برطانیہ، یورپ، امریکہ اور دیگر آزاد معاشروں کے مریضوں میں ہسٹریا کی تکالیف، علامات اور علاج مختلف ہوتا ہے کیونکہ وہاں کے معروضی حالات، خوراک، تعلیم و تربیت اور زندگی کے تقاضے مختلف ہیں۔ وہاں کے ڈاکٹرز میں پلاٹینم (Platinum Metallicum)، نکس وامیکا (Nux Vomica)، سمی سی فیوگا (Cimicifuga Racemosa) اور ٹیرینٹلا ہسپانیکا (Tarentula Hispanica) کے استعمال کا رجحان زیادہ دیکھا ہے۔ ریسرچ اور تجربات چونکہ بالعموم وہیں سے شائع ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں اُس کو اردو میں ڈھال کر عام کیا جاتا ہے سو پاکستان کے ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کے ہاں انہی ادویات کا چرچا رہتا ہے۔ ایسے ڈاکٹرز بہت کامیاب رہتے ہیں جو مرض کی دوا دینے کے بجائے مریض کا علاج کرنے کے لئے پورا کیس لیتے ہیں اور ہر پہلو سے غور کے بعد دوا کا انتخاب کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہسٹیریا کے مریضوں کی کامیاب ترین دوا اگنیشیا (Ignatia Amara) ہے۔ البتہ بے ہوشی کے دورے اگر تشنج کے ساتھ ہوں یعنی جن سے اعضاء میں شدید اکڑاؤ اور تشنج پیدا ہوتا ہو تو ٹیرنٹولا (Tarentula Hispanica) مفید دوا ہے۔ بے ہوشی کے دورے کے دوران ہوش میں لانے کے لئے کیمفر (Camphora) استعمال کی جاتی ہے۔ میں نے موسکس (Moschus) کو بہت مفید پایا ہے بلکہ اس نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ موسکس (Moschus) مدر ٹنکچر سونگھانے سے بھی مریض ہوش میں آ جاتا ہے۔
(حسین قیصرانی – سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ – لاہور پاکستان۔ فون 03002000210)۔