چوبیس سالہ نوجوان مسٹر چوہدری نےانٹرنیٹ پہ کامیاب گلوٹن الرجی کیس پڑھنے کے بعد گوجرانوالہ سے کال کی۔ وہ پچھلے تین سال سے شدید قسم کی فوڈ الرجی (celiac disease) کا شکار تھے۔ گندم اور دودھ سے شدید الرجی (Gluten allergy) تھی جس کی وجہ سے خوراک کے بے پناہ مسائل تھے۔ حساس طبیعت، معدے کے مستقل مسائل، پیٹ کی مسلسل خرابی، جادو ٹونے کا خوف، محبت میں ناکامی، شدید ذہنی دباؤ (extreme mental stress) اور پھر سب سے بڑھ کر گندم گلوٹن الرجی اور دودھ الرجی نے ان کی صحت کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔
تفصیلی کیس ڈسکشن کے بعد درج ذیل صورت حال سامنے آئی۔
1۔ گندم (wheat allergy) اور دودھ سے شدید الرجی (milk allergy) تھی۔ گندم اور دودھ سے بنی ہوئی کوئی بھی چیز کھاتے ہی طبیعت شدید خراب ہو جاتی تھی۔ کھانا ہضم نہیں (poor digestive system) ہوتا تھا۔ پیٹ خراب ہو جاتا تھا۔ بدبودار پاخانے (smelly, sticky stool) آنے لگتے تھے۔ جو کی روٹی کھاتے تھے اور قہوہ وغیرہ پیتے تھے۔
2۔ معدہ شدید خراب (stomach Disorder) رہتا تھا۔ بھوک (appetite) نہیں لگتی تھی۔ کچھ کھاتے ہی پیٹ میں گیس (Gastric issue) بھر جاتی تھی۔ پیٹ غبارے کی طرح محسوس ہوتا تھا۔ سر میں درد ہونے لگتا تھا۔ چکر آتے تھے۔ عجیب سے غبار کا احساس ہوتا تھا۔ کچھ بھی کھانے کے بعد کافی دیر چہل قدمی کرنی پڑتی تھی تاکہ کھانا کچھ ہضم ہو سکے۔
3۔ وزن تیزی سے کم (weight loss) ہو رہا تھا۔ نقاہت (fatigue) کا احساس بہت زیادہ تھا۔ جسم روز بروز لاغر ہو رہا تھا۔ کوئی کام کرنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ ذہن ہر وقت کنفیوز اور الجھا رہتا تھا۔ کسی کام پر توجہ (lack of concentration) مرکوز نہیں ہوتی تھی۔ پچکے گال اور کمزور دبلے پتلے جسم کی وجہ سے اگر کوئی دوست رشتہ دار کچھ کہہ دیتا تو پھر کئی کئی دن پریشان رہتے۔ لوگوں کی باتوں اور ریمارکس کے ڈر سے اشد ضروری کام کے لئے بھی گھر سے باہر جانے سے بچتے تھے۔
دوست احباب یہی پوچھتے کہ صحت کو کیا ہو گیا؟ کچھ کھایا پیا کرو۔ شدید احساس کمتری (inferiority complex) پیدا ہو گیا تھا۔ خود سے باتیں کرنے کی عادت (self talking) ہو گئی تھی۔ مایوسی (depression) طاری رہتی تھی۔
4۔ نیند نہیں آتی تھی (insomnia)۔ سو کر بھی تھکاوٹ رہتی تھی۔ نیند کے دوران دماغ جاگتا رہتا تھا۔ منفی سوچوں سے ذہن تبدیل کرنے کے لئے بہت دیر تک موبائل استعمال کرتے، گیمز کھیلتے اور فلمیں دیکھتے۔
5۔ شدید غصہ ( anger & irritation) آتا تھا۔ چڑچڑاپن مزاج میں رچ بس گیا تھا۔ غصے میں گھر والوں پر چیخنا چلانا شروع کر دیتے تھے۔ ہر وقت دماغ میں منفی خیالات چھائے رہتے تھے۔ خودکشی (suicidal) کرنے کو دل کرتا تھا۔ کسی کی بات برداشت نہیں ہوتی تھی۔ غصہ اترتے ہی افسوس اور دکھ ہوتا کہ ناجائز اتنا غصہ کیا۔
6۔ روزمرّہ کے کاموں کو بھی مناسب طریقے سے سرانجام (poor management) نہیں دے پاتا تھا۔ دماغ پہ ایک دھند سی چھائی رہتی تھی۔ ذہن جس بات پر اٹک جاتا پھر اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا تھا۔ سارا دن انٹرنیٹ گوگل پر اپنی صحت کے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ جتنا زیادہ گوگل پر سرچ کرتے؛ پریشانی اُتنی ہی زیادہ بڑھتی جاتی۔
7۔ طبیعت میں شدید بے قراری (restlessness) اور اضطراب (anxiety) تھا۔ ہر وقت اپنی صحت کی فکر کھائے جاتی تھی۔ ٹھہراؤ بالکل نہیں تھا۔ دواؤں کے بہت زیادہ استعمال کی وجہ سے قوت مدافعت (immune system) ڈسٹرب ہو گئی تھی۔ چہرے سے زندگی کی رمق ختم ہو گئی تھی۔ گھر والے بھی پریشان تھے کہ اکلوتا بیٹا کب ٹھیک ہو گا۔
منفی سوچیں، وسوسے، وہم، ڈر، خوف اور فوبیا : Fear & Phobias
1۔ جادو ٹونے کا شدید خوف تھا۔ بچپن سے ہی جادو ٹونے، نظر تعویذ وغیرہ کے حوالے سے گھر میں پریشانی چلتی رہتی تھی۔ مسٹر چوہدری کو لگتا تھا کہ اس پر تعویز کیے گئے ہیں اور رزق باندھ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ بیمار ہے اور نوکری بھی نہیں کر سکتا اور سارے مسائل کی جڑ جادو ہے۔
2۔ کسی بڑی بیماری کا شدید ڈر لاحق رہتا تھا۔ یہ وہم رہتا کہ وہ بوڑھا ہو رہا ہے اور جلد ہی مرنے والا (death phobia) ہے۔ دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تو لگتا دل کا مرض لاحق ہو گیا ہے اور ہارٹ اٹیک ہو جائے گا۔ ای سی جی (ECG) رپورٹ بالکل نارمل آتی۔ کبھی محسوس ہوتا کہ جگر خراب ہو گیا ہے لیکن ٹیسٹ کروانے پر پتا چلتا کہ کچھ بھی مرض نہیں ہے۔
3۔ فوڈ فوبیا (food phobia) بہت شدت سے حواس پر چھایا ہوا تھا۔ ہر وقت یہ سوچ رہتی کہ یہ کھاؤں گا تو یہ مسئلہ ہو جائے گا۔ وہ کھاؤں گا تو جانے مجھے کیا ہو جائے گا۔ کھانا پینا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا الغرض ہر چیز صحت کو سوچ کر کرتے تھے۔ کس وقت کیا کھانا پینا ہے اور کون کون سی چیز نہیں کھانی پینی۔ دن رات یہی سوچتے رہتے۔ اگرچہ ذہن بہت زیادہ الجھن کا شکار تھا مگر پھر بھی کھانے پینے کی ہر چیز کے متعلق اُن کی رائے حتمی اور فائنل تھی۔
4۔ رات کو انجانا سا ڈر (fear of unknown) محسوس ہوتا تھا۔ ڈر خوف سے آنکھ کھل جاتی تھی۔
فیملی ہسٹری :Family History
والدہ بہت زیادہ حساس ہونے کے ساتھ ساتھ گیسٹرو (gastro)، انگزائٹی (anxiety) اور ڈپریشن (Depression) کی مریضہ
ہیں۔ ہر چھوٹی بڑی بات کو وہ اپنے دل و دماغ پر سوار کر لیتی ہیں۔ والد صاحب جگر کے مریض تھے۔ خاندان میں جادو ٹونے کا وہم بھی بہت زیادہ تھا۔
کیس کا تجزیہ اور علاج:
فکرمندی کے ماحول میں پرورش پانے والا نوجوان مسٹر چوہدری کئی طرح کے جسمانی اور نفسیاتی عوارض کا شکار تھا۔ گھریلو الجھنیں، کاروباری پریشانیاں، ہمہ وقت جادو ٹونے کا وہم اور اس سے بچاؤ کی تدابیر کا شدید رحجان، کم عمری کی محبت اور اس میں ناکامی نے شخصیت سازی کے عمل کا خاصا متاثر کر رکھا تھا۔ چند سال پہلے ہونے والی ایک ٹیلی فونک دوستی نے کب ایک خام محبت کا روپ دھار لیا اسے پتہ ہی نہیں چلا۔ یہ یک طرفہ جذبہ (one sided love) غیر محسوس انداز میں پروان چڑھتا رہا۔ نہ گھر اور گھر والوں کا خیال رہا اور نہ ہی اپنی نیند، خوراک اور صحت کا۔ اس دوران جاب بھی عدم توجہ کا شکار رہی۔ ڈیوٹی سے واپس آ کر کئی کئی گھنٹے فون پر اپنی محبوبہ سے باتیں کرنا معمول بن گیا تھا۔
لڑکی کی شادی ہو گئی لیکن ٹیلیفونک رابطہ برقرار رہا اور ہر گزرتا دن چوہدری صاحب کو شدید ذہنی کرب میں مبتلا کرتا رہا۔ اگر کال نہ آتی تو یہ اذیت رہتی کہ کال نہیں کی۔ اور جب بات ہو جاتی تو شدید غصہ آتا کہ اس نے تو دھوکہ دیا ہے۔ کیا ضرورت تھی اس سے بات کرنے کی ۔۔۔۔ ! ذہن و دل کی یہ کشمکش بہت سے مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ فوکس اور ذہنی یکسوئی جیسے ختم ہو گئی تھی۔ شدید قسم کا احساس شکست تھا جو ریزہ ریزہ کر رہا تھا۔ ذہنی انتشار اتنا بڑھا کہ نوکری بھی چھوڑ دی۔
مختلف ڈاکٹروں سے علاج کروائے۔ حکیموں کے نسخے آزمائے اور ٹاپ ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کی دوائیاں بھی استعمال کیں۔ سائیکاٹرسٹ کے زیر علاج بھی رہے ۔۔۔ لیکن کسی علاج نے کوئی فائدہ نہ دیا۔ وہ بالکل مایوس ہو گئے۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ اُن کو کون سی بیماری ہے کہ جو کسی ٹیسٹ، ڈاکٹر اور حکیم کے کو سمجھ نہیں آ رہی۔ دوائی علاج اُن کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہا۔ اُن کو وسوسے پیدا ہوتے کہ ہو نہ ہو؛ اندر کوئی بڑی بیماری پل رہی ہے کہ جو اُن کو لے جائے گی۔ انہوں نے گوگل پر سرچ کرنا شروع کر دیا۔ پہلے دن رات لڑکی کے ساتھ مصروف رہتے تھے اور اب اُٹھتے بیٹھے سوتے جاگتے الغرض ہر وقت بیماری کو دماغ پر سوار کر لیا تھا۔
ہومیوپیتھک دوا اور علاج (ہومیوپیتھک سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز کے لئے)
مستقل کشمکش، مخمصے، دل و دماغ کی جنگ، معدہ کے شدید مسائل، منفی سوچوں کی ہر وقت یلغار، پاگل پن کی حد تک شدید غصہ اور پھر افسوس، کھانے پینے میں ہر وقت صحت کا سوچنا، گناہ ثواب کی سوچیں، بڑی بیماریوں اور موت کا ڈر اتنے نمایاں تھے کہ میرا اولین انتخاب ہومیوپیتھک دوا اناکارڈیم (Anacardium) تھی۔
اناکارڈیم سے کوئی خاص فائدہ تو نہ ہو سکا لیکن چند دن بعد اچانک چوہدری صاحب کی والدہ محترمہ کا فون آیا۔ وہ بہت پریشان تھیں اور روئے جا رہی تھیں کہ اس علاج اور ہومیوپیتھی دوا سے بیٹے نے غصہ میں گھر میں اودھم مچا رکھا ہے۔ بالکل پاگلوں کی طرح دیواروں پر سر مار کر اپنے آپ کو زخمی کر دیا ہے اور قابو میں نہیں آ رہے۔ اس دوران ہی وہ بلک بلک کر رونے لگ گئے کہ اُن سے غلطی ہو گئی۔ چوہدری صاحب اور گھر والوں کے لئے یہ بہت ہی مشکل دن تھا۔ اُن کو بتایا گیا کہ یہ محض وقتی تکلیف ہے اور واضح بہتری کے لئے ہوئی ہے۔
دوسرے دن سے طبیعت میں واضح بہتری آنا شروع ہو گئی۔ اُن کو مشورہ دیا گیا کہ گندم دودھ سمیت جو دل کرے کھانا پینا شروع کر دیں۔ اُن کا دل کرتا تھا کہ گندم کھائیں مگر دماغ کی سوئی ابھی منفی سوچوں پر اٹکی ہوئی تھی۔ دل دماغ کی کشمکش اُن کا مستقل مسئلہ تھا اور یہ ہر معاملہ میں تھا۔
تین ہفتے بعد انہوں نے اپنی خوراک میں گندم اور دودھ شامل کرنا شروع کر دیا۔ چند دن طبیعت پر بوجھل پن، درد رہا اور پیٹ بھی مزید خراب ہو گیا لیکن حسبِ علامات و ضرورت ہومیوپیتھک دوائیں نکس وامیکا (Nux Vomica)، ایلو (Aloe)، انٹی مونیم کروڈ (Antimonium Curdum) دی گئیں تو معاملات کنٹرول میں آ گئے۔
رات کو دیر تک دماغ ایکٹو رہتا اور صبح تھکے ہارے بستر پر پڑے رہتے۔ میڈورائنم (Medorrhinum) سے نیند میں مناسب بہتری آنے کے ساتھ ساتھ معدہ مزید بہتر ہو گیا اور طبیعت میں خاصا ٹھہراؤ بھی آ گیا۔ طبیعت میں کچھ فوکس ہوا، کنفیوژن واضح بہتر ہو گئی تو کیس کھل گیا۔
صبر اُن میں ہمیشہ سے نہیں تھا۔ بچپن ہی سے ذہن میں منفی سوچوں اور وسوسوں کی بھرمار رہتی تھی۔ پہلے میٹھا کھانے کا واضح رجحان تھا تاہم زیادہ میٹھا لینے سے طبیعت بوجھل ہو جایا کرتی۔ نمکین کھانے بھی بہت پسند ہوا کرتے تھے۔ تنگ جگہ، رش، ٹریفک بلاک، اور انتظار سے اُن کی جان جاتی تھی۔ روٹین سے ہٹ کر کچھ کرنا پڑتا تو سخت غصہ میں آ جاتے۔ کسی کے انڈر کام کرنا اُن کو برداشت نہیں ہوتا تھا۔ ہر ایک سے الجھتے، جھگڑتے اور بحث کرتے رہتے تھے۔ اس مزاج اور ان معاملات کو سمجھتے ہوئے ارجنٹم نیٹریکم (Argentum Nitricum) استعمال کروائی گئی جس سے طبیعت میں بہتری، مزاج میں شکرگزاری، بات چیت میں ٹھہراؤ اور زندگی میں سکون آ گیا۔
وقتی ضرورت کے تحت رہس ٹاکس (Rhus Tox)، برائی اونیا (Bryonia Alba)، آرسنیک البم (Arsenicum Album) وغیرہ بھی کبھی کبھار دی گئی۔
چار ماہ علاج جاری رہا اور مسٹر چوہدری نے اپنی زندگی کی روٹین میں واضح تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے گھر کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ لین دین کے معاملات میں لڑنے جھگڑنے کی بجائے معاملہ فہمی سے کامیابی حاصل کی جس سے اُن کا اعتماد بحال ہوا۔ نارمل خوراک، اچھی نیند اور سکون سے جسم، چہرے اور صحت میں واضح بہتری آئی اور انہوں نے ملنا ملانا جاری کر دیا۔ اپنی ہمت اور اللہ کریم کے تعاون سے وہ زندگی کی دوڑ میں نئے ولولے اور جذبے سے شامل ہو گئے تو مزید علاج کی انہیں ضرورت ہی نہ رہی۔