سانس میں شدید رکاوٹ، ہارٹ اٹیک کا وہم، سونے کے دوران موت کا ڈر، خوف اور فوبیا – کامیاب کیس، علاج اور ہومیوپیتھک دوائیں – حسین قیصرانی

یہ گذشتہ اگست کے پہلے ہفتہ کی بات ہے کہ جب مسز “ت” نے فون پر بتایا کہ وہ علاج کروانے کا حتمی فیصلہ کر چکی ہیں اور اپنا کیس ڈسکس کرنا چاہتی ہیں۔ اِس سے پہلے بھی دو تین مرتبہ انہوں نے رابطہ کیا اور یہی کہا تھا کہ وہ میری تحریریں باقاعدگی سے پڑھتی ہیں اور علاج کروانے میں سنجیدہ ہیں۔ اب کی بار انہوں نے اکاؤنٹ کی تفصیل معلوم کی اور کچھ دیر بعد رابطہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ فیس جمع کروا چکی ہیں۔ اپنا کیس آن لائن (Online Treatment) ڈسکس کرنے کی خواہش کا اظہار کیا کیونکہ وہ راولپنڈی سے تھیں۔

چار بچوں کی ماں، لمبا قد، وزن 70 کلوگرام اور عمر 38 سال۔ شوہر ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے کنٹری ہیڈ ہونے کی وجہ سے اکثر سفر پر رہتے تھے۔ ہر دوسرے مہینے ہفتہ دس دن کے لئے ملک سے باہر جانا اُن کی روٹین تھی۔ بچوں، گھربار اور خوشی غمی کو نبھانے کی مکمل ذمہ داری محترمہ پر تھی۔

اِن کا بچپن نانی کے ہاں گزرا؛ اِس لئے بھائی بہنوں اور والدین سے کبھی حقیقی تعلق استوار نہ ہو سکے اگرچہ احترام اور ایک دوسرے کے خیال اور توجہ میں کسی طرف سے کمی نہ آئی تھی۔ گھر میں ملازم بھی تھے اور زندگی کی ہر ممکنہ آسودگی اور سہولیات بھی۔ حساس (Sensitive) بہت ہی زیادہ تھیں سو چھوٹے چھوٹے مسائل پر گھنٹوں سوچنا اور انتہائی حد تک منفی سوچنا گویا اپنی ذمہ داری بنا لی تھی جس پر دن رات پوری طرح مصروفِ عمل تھیں۔ مثلاً دو تین بہت قریبی رشتہ دار بچیوں کی منگنی یا شادی میں رکاوٹ کا سنا تو یہ خیال دل و دماغ میں چلتا رہا کہ میرا شوہر اُن سے نہ شادی کر لے ہمدردی میں آ کر؛ اگرچہ اپنے شوہر پر اُن کو مکمل اعتماد تھا۔ کوئی جاننے والی اچانک بیوہ ہوئی تو اُن کے اور اپنے متعلق سوچے چلے جانا کہ میں مر جاؤں گی تو میرے خاوند اُس سے شادی کر لیں گے۔ بات یہاں تک نہیں رکتی تھی بلکہ اُٹھتے بیٹھتے اِن وہموں میں مبتلا رہنا کہ وہ میرے بچوں کے ساتھ کیسے ظلم کرے گی۔ میرے زیور بھی اُس کو چلے جائیں گے اور ہم نے جو اتنا اچھا گھر بنایا ہے؛ وہ بھی اُس نے لے لینا ہے اور اور اور ۔۔۔۔۔

اگرچہ بہت سلجھی ہوئی، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بے حد خوبصورت ہیں لیکن اپنے وزن، جسامت اور ڈھلتی عمر کا بہت وہم تھا۔ آئے دن ڈائیٹ پلان بناتی (Diet Plan) اور علاج کرواتی تھی مگر تھوڑے ہی عرصے میں سب کو ناکام ثابت کر دیتی تھیں۔ تھائیرائیڈ (ہائپوتھائرائیڈزم Hypothyroidism) کا مسئلہ بھی تھا جس کے لئے تھائراکسن (Thyroxine) کافی عرصہ لیتی رہیں۔ ملٹی وٹامنز (Multivitamins) اور فوڈ سپلیمنٹ (Food Supplements) تو چلتے ہی رہتے تھے۔ عدم اطمینان اپنے انتہا پر تھا اور کسی معاملہ کو ٹک کر کرنا بہت مشکل تھا۔ بعد میں میرے علاج کے دوران بھی کئی بار کسی اچھے ڈاکٹر کو چیک کروانے کا فیصلہ ہوا کہ اُن کے خیال میں فائدہ نہیں ہو رہا تھا حالانکہ چند ہی دن پہلے اپنے فیڈبیک میں واضح بہتری کا بتا چکی تھیں۔ نیٹ پر پڑھ لیا یا کسی دوست نے ذکر کیا تو حجامہ کروانے کا فیصلہ کر لیا۔ شک، وہم اور دوسروں کے متعلق یہ خیال کہ وہ میری جگہ لے لیں گے؛ اُن کے لئے بہت کربناک تھا۔ یہ ایسے معاملات تھے کہ جنہیں وہ خود بھی غلط سمجھتی تھیں لیکن دل و دماغ سے جتنا نکالنے کی کوشش کرتی تھیں؛ وہ اتنا ہی زیادہ اَور الجھا دیتے تھے۔ دوسری طرف یہ مسائل ایسے تھے کہ جن کا کسی سے ذکر کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ امی نے میرے لیے یہ نہیں کیا تھا وہ نہیں کیا تھا، اِس طرح کی بے مقصد اور سالہا سال پرانی باتیں بھی اُلجھائے رکھتی تھیں۔

موت کا ڈر، خوف اور فوبیا (Fear and Phobia of Death) اتنا زیادہ ہو گیا تھا کہ اکیلے باہر جانے کا تصور بھی موت سے کم نہ تھا۔ خالہ کی موت کینسر سے ہوئی تھی تو اِن کو بھی یہ دھڑکا لگ گیا کہ ہو نہ ہو، انہیں بھی کینسر ہے اور جلد ہی مر جائیں گی۔ کئی بار مختلف ٹیسٹ کروائے تو کچھ نہ نکلا اور ڈاکٹرز کوئی دوائی دے دیتے آرام، سکون اور نیند کی یا کہہ دیتے کہ سائکیٹریسٹ (Psychiatrist) کو چیک کروائیں۔ سائکاٹرسٹ کے پاس بھی کچھ نصیحتیں (کہ ٹینشن اور سٹریس نہ لیا کریں) اور ریلیکسنٹ (Relaxants) ہی اکثر مسئلوں کا علاج ٹھہرتا۔

بیٹھے بیٹھے ایسا وہم سا پیدا ہوتا اور بڑھتا جاتا ہے کہ جیسے سانس رک رہی ہے، جان نکل رہی ہے، ہاتھ پاؤں ٹھنڈے، پیلے اور پھر سفید ہونے لگے ہیں۔ کئی بار ایمرجنسی بھاگے، چیک اپ ہوا، ای سی جی (ECG) اور میڈیکل ٹیسٹ بھی مگر ہارٹ اٹیک (Heart Attack) وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب، مجھے اُس وقت ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میرا دل بند ہو رہا ہے اور میں مرنے لگی ہوں ابھی اور اِسی وقت۔ پہلے اکیلے کہیں جانے کا ڈر پیدا ہوا مگر اب گھر میں بھی اکیلی ہونے کا ذرا سا خیال آ جائے تو ہول اُٹھتے ہیں۔

کھانے پینے کو کچھ دل نہیں کرتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہیموگلوبن لیول (HB Level)، آئرن لیول کم رہنے لگا ہے۔ بائیں بازو کے مسلز (Muscles) میں درد اُٹھتا ہے تو پھر دائیں طرف جسم کے کمزور ہونے کا شدید احساس۔ گردن کے پیچھے درد اور کھچاؤ (Cervical Region pains and Stiffness) تو چلتا ہی رہتا ہے۔ انڈر آرم میں کوئی چھوٹی سی چیز یعنی رسولی وغیرہ ہے جس کا سوچ سوچ کر ڈرتی رہتی ہوں کہ کوئی بڑی بیماری یا کینسر (Cancer) نہ ہو۔ کانوں میں سیٹیاں بجتی ہیں۔ بال جڑوں سے نکل رہے ہیں اور بہت کم ہو گئے ہیں۔ پیریڈز (Menses) سے ایک ہفتہ پہلے خارش دینے والا لیکوریا ہو جاتا ہے۔ باتیں کرتے ہوئے زبان کے مسل کمزور ہو جاتے ہیں۔ مینسز (Periods / Menses) تین چار دن بہت زیادہ (Heavy Flow) ہوتے ہیں۔ ٹانگوں میں عام حالات میں بھی کمزوری ہوتی ہے لیکن حیض کے دوران اَور زیادہ ہو جاتی ہے۔ مستقل قبض رہتی ہے جس کی وجہ سے وزن کم نہیں ہو پاتا۔ اندھیرے سے گھبراہٹ ہوتی ہے اور دل کرتا ہے کہ تھوڑی ہی سہی مگر روشنی ہر وقت موجود ہو۔ چور ڈاکو وغیرہ کا احساس بھی دل میں رہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب! ایک بات تو بتائیں۔ آپ یہ سب کچھ پوچھتے اور سمجھتے ہیں تو کیا ان سب مسائل کا علاج بھی آپ ہی کریں گے؟۔

آنکھوں کے نیچے کچھ سوج سی بھی ہے۔ (Swelling)۔ راتوں کو ڈر کی وجہ سے اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ شاید کبھی کہیں سے پڑھ سن لیا ہوگا کہ جب موت آتی ہے تو پہلے ٹانگوں سے جان نکلتی ہے سو اب ٹانگوں میں کمزوری یا ٹھنڈک کا احساس میرے لئے موت کا پیغام ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب میں واقعی مرنے لگی ہوں۔
ہر وقت چہرے، دل اور دماغ پر ڈر اور خوف کی فضا رہتی ہے جو دوسروں کو بھی نظر آ جاتی ہے۔ نہانے میں بالکل بھی دلچسپی نہیں ہے (فالو اَپ سیشن میں معلوم ہوا کہ باتھ روم جانے اور دروازہ بند کرنے سے بھی موت کا فوبیا شروع ہو جاتا ہے)۔ بالوں کو شمپو کرنا اور صاف کرنا ایک عذاب سے کم نہیں۔ نہاتے ہوئے پانی، صابن یا شمپو جب چہرے پر آتا ہے تو سانس رکنے کی شدید کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ واش روم میں جاتے ہی یہ احساس بھی پریشان کر دیتا ہے کہ زلزلہ آ جائے گا اور میں مر جاؤں گی۔ پتہ نہیں کہاں پڑھ سُن لیا تھا مگر مجھے جمعہ والے دن تو مرنے کا پکا یقین ہوتا ہے اور رمضان شریف میں بھی۔ ویسے تو شاید ہی کوئی ڈر خوف اور فوبیا ایسا ہو گا جس کے اثرات مجھ میں نہ ملیں۔ آپ پہلے انسان یا ڈاکٹر ہیں جو میری ہر چھوٹی بڑی بات کو اتنی اہمیت دیتے ہیں ورنہ باقی تو طنزیہ مسکراتے یا کہہ دیتے تھے کہ کچھ نہیں ہے۔ مجھے سمندر، دریا اور پہاڑی علاقوں سے بہت خوف آتا ہے اگرچہ ایسی باتوں کو اب میں ظاہر نہیں ہونے دیتی کہ مذاق بنے گا۔ اونچائی سے وحشت ہوتی ہے اور ہر تنگ جگہ میں دم گھٹتا ہے۔ زیادہ بھیڑ بھاڑ، بازار اور شاپنگ مالز بھی میرے لئے اچھا تجربہ ثابت نہیں ہوتے۔ گردن کے گرد کپڑا یا کالر برداشت نہیں ہوتے۔ میں نے ڈرائیونگ تو کب کی مکمل چھوڑ دی ہے اور اب تو یہ عالم ہے کہ اگلی سیٹ پر بیٹھنا بھی زندگی اور موت کی کشمکش ہوتا ہے۔ آپ کو پہلے بتایا تھا نا کہ میں اپنی جگہ اور پوزیشن پر کسی کو دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی؛ اِس لئے اتنے ڈر اور خوف کے باوجود میں اپنے شوہر کے ساتھ یہ سارے امور نبھاتی ہوں اور اُن کو میری اِن کمزوریوں کا بالکل بھی نہیں پتہ۔ میں اپنے آپ کو بہادر اور ذمہ دار ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ ہمارا خاندان بڑا ہے اور مختلف شہروں میں بکھرا ہوا ہے اِس لئے ہمیں کافی سفر کرنا ہوتا ہے۔ گاڑی ٹکرانے اور ایکسیڈنٹ کا ڈر (Accident Phobia) دورانِ سفر میرے اعصاب پر مکمل سوار رہتا ہے۔ ہر سفر کے بعد میرے تین چار گھنٹے ایسے گزرتے ہیں کہ سر چکرا رہا ہوتا ہے اور جیسے زلزلہ آ رہا ہو۔

اب تو خیر ہم اکیلے رہتے ہیں لیکن ساس کی پرانی باتیں اکثر یاد آتی ہیں جو ظاہر ہے کہ خوشی والی نہیں ہیں۔ اگر دن میں یہ باتیں پریشان کرتی رہیں تو دوسرے دن اُٹھتے ہی کہانی وہیں سے شروع ہوتی ہے۔ میرے ساتھ زیادتیاں بھی تو بہت ہوئی ہیں نا۔ دن میں چھپ چھپ کر روتی رہتی ہوں۔ امی ابو کا جب خیال آتا ہے تو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ خیر سے ہوں۔ اِسی طرح اگر شوہر میرے فون یا میسیج کا رسپانس نہ دیں تو بہت ہی منفی سوچیں ذہن کو جکڑ لیتی ہیں۔ کوئی قریبی فرد بیمار ہو تو میں اُس کے متعلق آگے کی ساری تفصیل سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہوں۔ مثلاً بہن تھوڑی بیمار ہوئی ہے تو اُس کی موت، جنازہ، قل، حتیٰ کہ اُن کے شوہر کی دوبارہ شادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ بھی کیا کہیں گے کہ کس پاگل سے واسطہ پڑا ہے۔ ویسے ڈاکٹر صاحب! آپ نے کسی میرے جیسی کا پہلے کبھی علاج کیا ہے؛ نہیں نا؟

ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ میرے لئے کسی کو “نہ” کہنا یا کرنا بہت مشکل ہے۔ میں بہت سلیقہ شعار ہوں۔ اپنے گھر، بچوں اور شوہر کے معاملے میں حساس بھی ہوں۔ باتھ روم، کچن اور برتنوں کی صفائی وغیرہ تو پرفیکٹ ہونی چاہئے۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتی ہی رہتی ہوں چاہے ہمت نہ ہو تو بھی۔ نیٹ پر صحت کے متعلق پڑھنا بھی میرے کئی مسائل کو بڑھانے کی وجہ بنا ہو گا۔ باقی باتوں کا تو فائدہ نقصان معلوم نہیں لیکن آپ تک پہنچ بھی اِسی وجہ سے پائی ہوں۔

کیس کا تجزیہ، ہومیوپیتھک دوائیں اور علاج (ہومیوپیتھک سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز کے لئے)
محترمہ نے کیس کے آغاز میں صرف اپنے فزیکل (یعنی جسمانی) مسائل اور موت کے ڈر خوف کا ذکر کیا۔ وہ ہائپوتھائیرائڈزم (Hypothyroidism) کی وجہ سے تھائراکسن (Thyroxine) بڑی باقاعدگی سے لے رہی تھی مگر اُن کے بقول جذباتی مسائل بڑھتے ہی جا رہے تھے حالانکہ ڈاکٹرز نے ان مسائل کی وجہ تھائرائیڈ فنکشن (T3, T3RU, T4, and TSH) میں پرابلم یعنی عدم توازن بتایا تھا۔ وہ سال ہا سال سے کئی قسم کی دوائیاں لے رہی تھیں اور یہ سلسلہ جاری تھا۔ اب اُن کی بھرپور خواہش تھی کہ وہ آئے دن کے ڈاکٹرز کے چکروں سے بچ جائیں اور اُن کی دوائیاں کم ہو جائیں۔

کیس کی ابتدائی تفصیل میسر آنے تک میری توجہ ایکونائٹ اور آرسنیک البم تک رہی تاہم صورتِ حال کے مطابق مندرجہ ذیل ہومیوپیتھک دوائیں دورانِ علاج منتخب ہوئیں۔ وقتی (Acute) اور ایمرجنسی مسائل کے لئے کاربوویج، چائنا، برائی اونیا وغیرہ دینی پڑیں تاہم کیس کا انحصار ایکونائٹ، آرسنیک البم اور لیکیسس پر رہا۔ ملاحظہ فرمائیں کہ کیس کیسے حل ہوا اور آخر میں پیش کئے گئے محترمہ کے فیڈبیک سے اندازہ ہو سکے گا کہ ہومیوپیتھک علاج سے شفایاب انسان میں کس طرح کی خوشی، سرشاری اور امنگ پیدا ہوتی ہے۔

سب سے پہلے نکس وامیکا (Nux Vomica) تجویز کی گئی کیونکہ ایلوپیتھک دواؤں کا استعمال کافی ہو رہا تھا۔ اس سے نیند میں واضح بہتری، طبیعت میں ٹھہراؤ اور اطمینان کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ قبض کا مسئلہ واضح طور پر حل ہو گیا۔ انہوں نے باقی تمام دوائیاں چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ علاج شروع کرنے کے بعد انہوں نے پھر تجویز کردہ ہومیوپیتھک دوائی کے علاوہ کوئی اَور دوائی نہیں لی۔

اگلی دوا ایکونائٹ (Aconite) منتخب ہوئی۔ اُس کے ساتھ بائیوکیمک میں نیٹرم فاس (Natrum Phosphoricum) دی جاتی رہی۔ اللہ کے فضل سے محترمہ کے ڈر خوف میں کمی آئی اور وہ کافی عرصہ بعد اکیلی گھر سے باہر نکلی۔ گھر میں اکیلے رہنے کا مسئلہ بھی کافی بہتر ہو گیا۔ پینک اٹیک (Panic Attacks) کی صورتِ حال اگرچہ پیش آتی رہی تاہم، اللہ کے کرم سے، ہسپتال جانے یا کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کی نوبت پیش نہیں آئی۔ اِس سے اُن کا ہومیوپیتھی اور اپنے ڈاکٹر پر اعتماد پختہ ہو گیا۔
اگلے تین ماہ میں (Sac Lac) کے علاوہ حسبِ ضرورت و علامت مندرجہ ذیل ہومیوپیتھک دوائیاں دی گئیں۔
ہیلونیاس مدر ٹنکچر (Helonias Q)
کاربوویج (Carbo Veg) (پینک اٹیک کی صورت میں- علامات سمجھا دی گئیں)۔
برائی اونیا (Bryonia Alba) (سستی، کاہلی اور ڈپریشن کی صورت میں- علامات سمجھا دی گئیں)
چائنا (China)
نکس وامیکا (Nux Vomica)
آرسنیک البم (Arsenicum Album)
لیکیسس (Lachesis)

یہ لیکیسس (Lachesis) کا کیس تھا تاہم اوپر کی سطح اور مختلف قسم کی دوائیاں سال ہا سال تک استعمال کرنے اور شروع میں اپنی اصل علامات بیان نہ کر پانے کی وجہ سے اولاً ایکونائٹ (Aconite) اور پھر آرسنیک البم (Arsenicum Album) ظاہر ہو رہی تھیں۔ بلاشبہ ان دونوں دوائیوں نے بہت فائدہ دیا تاہم اصل اور واضح صحت مندی لیکسیس کے استعمال کے بعد ہی آ سکی۔ لیکیسس کی مندرجہ ذیل علامات مریضہ نے کافی دیر بعد شئیر کیں۔
نیند یعنی سوتے میں سانس بند ہو کر موت آ جانے کے ڈر سے نہ سو پانا، سانس کی تنگی، بیماری کے متعلق بالخصوص دل کی بیماری کی متعلق انگزائٹی (Anxiety)، حساسیت کہ اُس کی وجہ سے شوہر کو تکلیف نہ پہنچے، اِس لیے سفر میں اپنے ڈر اور فوبیا کو کنٹرول رکھنے کی کوشش، تکلیفوں کا بائیں سے دائیں طرف جانا، قبض کی مستقل شکایت، نہ چاہتے ہوئے بھی شک اور حسد کی شدید لپیٹ میں آ جانا کہ شوہر فلاں قریبی رشتہ دار سے شادی نہ کر لے۔ حیض کا زیادہ آنا، حیض سے پہلے لیکوریا کی تکلیف وغیرہ۔

کامیاب علاج کے بعد محترمہ کا فائنل فیڈبیک
میری خواہش ہے کہ میں اپنے علاج کا تجربہ ہر ایک کو بتاؤں۔ میں چاہوں گی کہ ایسے تمام لوگ اِسے پڑھیں کہ جو بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
یہ کوئی چار ماہ پہلے کی بات ہے کہ مختلف قسم کی جسمانی تکلیفوں کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب ڈر، خوف اور فوبیاز نے میری زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔ میں ہر لمحے اِس کربناک کیفیت میں مبتلا تھی کہ میں ابھی مرنے والی ہوں۔ مجھے کسی لمحے ہارٹ اٹیک ہو جائے گا اور میرا دل بند ہو جائے گا۔ بہت سارے اور مسائل تھے کہ جیسے اونچائی سے ڈر لگنا، نہاتے ہوئے خوف، مرنے کا مستقل فوبیا، سونے سے بھی ڈرنا کہ کچھ ہو نہ جائے یعنی مر نہ جاؤں، کھانے پینے کے مسائل اور بھی بہت کچھ کہ جنہوں نے سب سہولتیں اور نعمتیں ہونے کے باوجود میری زندگی جہنم بنائی ہوئی تھی۔
ڈاکٹر حسین قیصرانی واحد انسان ہیں (جی میں صحیح کہہ رہی ہوں۔ آپ کو ان جیسا ڈاکٹر مل ہی نہیں سکتا) جنہوں نے مجھے ان مصیبتوں سے آزاد کیا۔

مجھے لگتا تھا کہ میں اب صحت مند زندگی کی طرف کبھی بھی واپس نہیں آ سکوں گی لیکن حسین صاحب کے مسلسل تعاون اور بے حد محنت کے طفیل پروردگار نے مجھے ان تکلیفوں سے سو فیصد 100 ٪ آزاد کر دیا۔

مجھے ہمیشہ یہ احساس رہا کہ جتنا میں نے ان کو تنگ کیا؛ کسی اَور مریض نے نہیں کیا ہو گا۔ رات کے بارہ بجے ہوں یا ایک، میں نے جب جب ان کو فون کیا یا میسیج فوراً ہی مجھے جواب مل جاتا اور دوائی تجویز ہو جاتی۔ مریض سے اُس کے مسائل کو خوب توجہ سے سننا، سمجھنا اور پھر خود رابطہ کر کے طبیعت کا پوچھنا؛ مسئلہ کسی بھی قسم اور نوعیت کا ہو، اُس کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا — میں نے تو آج تک ایسا ڈاکٹر نہیں دیکھا یا سنا۔ میری دعا اور دلی تمنا ہے کہ پروردگار انہیں میری سوچوں سے بھی ہزاروں گنا زیادہ اپنی رحمتوں سے نوازے۔ آمین۔

میری بھرپور خواہش ہے کہ جس کو بھی ضرورت ہے وہ میری اِس تحریر کو پڑھے اور اِن سے اپنا علاج کروائے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اپنے جذبات اور احساسات کو پوری طرح بیان کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ بس میرا مقصد یہ ہے کہ جس کو صحت کے مسائل ہیں وہ ایک بار ان سے ضرور کر کے دیکھیں۔ اِس لئے کہ میں نے بھی سوچتے سوچتے بہت عرصہ تکلیف برداشت کی ہے۔

———————-

حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔

 

I would like to share my experience with people all over the world. I wish each and every ill person can read it.

Almost 4 month ago different types of phobias and physical issues were big problems for me. Every single moment of each day I felt that I m going to die. I felt my heart will stop beating anytime. Many issues height phobia, taking shower, death phobia, sleep difficulties that I will die, appetite issues and many other problems made my life miserable and hell. Dr. Hussain Kaiarani is only one person in the world (that’s not wrong, you just can’t find any doctor like him) who helped me in such a difficult situation. Mujhey lgta tha keh Mai kabhi bhi healthy life ki traf wapus nahin ja sakti. But with the kindness and great effort of Mr Hussain I am 100% fit and healthy, AlhamdoLillah.

I feel jitna mai ny in ko tang kia hai shaid hi kisi aur patient ny kia ho ga. rat ko 12 bjy 1 bjy b mai ny calls ki msg kiy or usi waqt reply kia jata aur medicine suggest ki jati. Patient se us ki details pochna us ki khairiat pochna hr problem solve krny ki try krna aysa to koi b doctor mai ny aj tk ni dekha suna. I wish Allah bless him alot thousand times more than my wishes. Ameen.

I also wish everyone in need can read my opinion and consult with him. I can’t express my feeling and thoughts as I want. but Mera maqsd sirf yai Hy k jis ko health issues woh aik br zror Dr sb se contact kar key dekhain. Is liey keh Main ney sochtey sochtey Bahut takleef bardasht ki.

0 0 votes
Article Rating
Picture of kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter