فوڈ الرجی، سٹریس، ٹینشن اور ڈیپریشن دور زندگی بھرپور – ہومیوپیتھک علاج کے بعد فیڈبیک – حسین قیصرانی

 

میری کوشش زندگی کے مسائل اور رکاوٹوں کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے اور حل کر کے آگے بڑھنے کی ہوا کرتی ہے۔ مسائل کا رونا روتے رہنا مجھے کبھی بھی پسند نہیں رہا۔ سسرال میں “کاسمیٹک سرجری” اور”ڈنگ ٹپاؤ“ پالیسی پر زور تھا۔ میرے جیسی حقیقت پسند اور پریکٹیکل اپروچ رکھنے والی لڑکی سسرال کے سسٹم کے لیۓ تو خطرہ تھی ہی؛ مگر اس پریکٹیکل اپروچ نے مجھے بھی بہت overburden کر دیا تھا۔ گھر، بچوں اور فیملی کی ساری ذمہ داری نبھانے کی توقع آج بھی مجھ سے ہی رکھی جاتی ہے۔ مدد اور سپورٹ کرنے کا رجحان سسرال میں نہیں ہے۔ اگر کبھی تعاون اور مدد کا معاملہ درپیش ہو تو وہ صرف دکھاوے اور احسان جتانے کی حد تک کی جاتی ہے۔

اس بھاگ دوڑ اور افراتفری کے ماحول میں، میری صحت بری طرح متاثر ہو رہی تھی لیکن مجھے اس بات کا احساس نہیں ہو سکا کہ میرے ذہن میں موجود ہر وقت کی ٹینشن، سٹریس اور کشمکش کی وجہ سے مَیں اندر ہی اندر ذہنی، جذباتی، نفسیاتی اور جسمانی طور پر کمزور پڑتی جا رہی ہوں۔ بیمار ہونے پر بھی مجھے خود سمجھ میں نہ آ سکا کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے۔ کافی علاج معالجے کے باوجود صحت کے حوالے سے کچھ خاص بہتری پیدا نہ ہو سکی تو پریشانی بڑھنے لگی تھی۔ باوجود ہر ممکن کوشش کے کہ کچھ ڈسٹرب نہ ہو مگر پھر بھی شوہر، بچے اور گھر نظرانداز ہونے لگے تھے۔ ان حالات سے تنگ آ کر اپنے آپ کو خود ہی سنبھالنے کی کوشش کی۔ اپنی ذہنی تربیت، مزاج اور رویوں کی درستگی کے لیۓ شعوری کوششوں کا آغاز کر دیا۔ رشتوں اور مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر ڈیل کرنے کی سوچ اپنائی۔ اس سے صحت میں کچھ بہتری پیدا ہوئی کیونکہ مسائل سے توجہ وقتی طور پر ہٹ گئی تھی اور نتیجتاً ٹینشن بھی کم ہو گئی تھی۔ مگر معدہ کی خرابی اور ہاضمہ کے مسائل جوں کے توں تھے جس کی وجہ سے صحت بہتر نہیں ہو پا رہی تھی۔

لائف سٹائل میں تبدیلی اور خوراک کے اصولوں پر عمل کرنے سے بھی کچھ افاقہ ہو گیا۔ اب تک ہونے والے علاج اور کوششوں سے بیماری کی کچھ علامات میں تو بہتری ہو رہی تھی مگر یہ بات واضح تھی کہ اصل مسائل کے حل ہونے میں کافی محنت، کوشش اور وقت درکار ہو گا۔ دراصل یہ سب کچھ یعنی اپروچ کی تبدیلی، خوراک میں توازن اور بہتری مزید بیمار ہونے سے تو شاید بچا سکتی ہے یا علاج کے دوران ایک سپورٹ فراہم کر سکتی ہے مگر دوائی کا کام نہیں کر سکتی تھی۔

ایلوپیتھک ادویات کے استعمال سے تکلیف نا قابلِ برداشت ہونے لگتی تھی۔لہٰذا مجھے کسی اچھے ہومیوپیتھی ڈاکٹر کی تلاش تھی جو کہ ہر ممکن کوشش کے باوجود مل نہیں پا رہا تھا۔ میں اپنے اوپر مزید تجربات کروانا نہیں چاہتی تھی۔ اس لیۓ علاج معالجے کا سلسلہ کچھ عرصہ سے رکا ہوا تھا۔

خوش قسمتی سے کسی نے ہومیوپیتھک ڈاکٹر حسین قیصرانی کا تعارف کروایا۔ اِن سے پہلی طویل نشست میں بہت تفصیل سے باتیں ہوئیں۔ دورانِ انٹرویو ہی میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے جس ڈاکٹر کی تلاش تھی وہ مل گیا ہے۔ کوئی گھنٹہ بھر انٹرویو اور میرے مسائل کا بھرپور تجزیہ کرنے کے بعد کہنے لگے کہ آپ کا کیس ابھی پوری طرح کلیئر نہیں ہو سکا ہے سو ایک نشست مزید ہونی چاہئے۔ میرے لئے کسی ڈاکٹر کا یہ کہنا بالکل حیران کن تھا۔ بہرحال دوسری تفصیلی گفتگو فون پر ہوئی اور، شکر ہے، میرا علاج شروع ہو گیا۔

پہلے ہی ہفتہ کے دوران، مجھے اپنے اندر بہت تیزی سے واضح تبدیلی اور بہتری کا احساس ہوا۔ ڈاکٹر قیصرانی نے علاج پر خاصی توجہ رکھی اور مسلسل رابطے میں رہے جس کی وجہ سے مجھے کافی motivation ملی۔اس طرح میری پریشانی بہت حد تک ختم ہو گئی اور پورا یقین ہو چکا تھا کہ اب میرے مسائل واقعی حل ہو جائیں گے۔

دو ماہ کے علاج کے بعد میرے کافی مسئلے حل ہو چکے ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ باقی میں بھی بہتری جاری ہے۔ تفصیل کچھ یوں ہے:

اندرونی بے چینی، گھبراہٹ اور شدید اضطراب کی کیفیت بغیر کسی ذاتی یا شعوری محنت کے ختم ہو چکی ہے۔ صرف ٹانگوں میں کبھی کبھار ہلکی کپکپاہٹ کی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔

نیند اب بہترین ہو گئی ہے۔ خوراک سے ہونے والی الرجی (Food Allergy) مکمل طور پر ٹھیک ہو گئی ہے۔ کافی عرصہ بعد، اب پھر سے، تقریباً ہر چیز خوراک میں شامل کر چکی ہوں۔ الرجی کی بجائے اب مسئلہ صرف گیس ٹربل تک محدود رہ گیا ہے۔ سر کا گھٹنا، ڈپریشن (Depression)، انگزائٹی (Anxiety) یا پینک اٹیک (Panic Attacks) کی کیفیت کے پیدا ہو جانے سے جان چھوٹ چکی ہے۔ لاہور میں سموگ اور وائرل انفیکشن کا خطرہ موجود ہونے کے باوجود میں ہر طرح کی خوراک کھا رہی ہوں اور الرجی (Allergy)، نزلہ زکام سے بھی محفوظ ہوں۔ گریپ فروٹ، بھنڈی اور کئی دالوں سے الرجی (Pulses Allergy) کی وجہ سے کافی سالوں سے پرہیز چل رہا تھا؛ اب دوبارہ شروع کرنے پر کوئی الرجی نہیں ہو رہی۔
موسم کی تبدیلی کے ساتھ بھی فلُو کا کوئی اندیشہ تک محسوس نہیں ہوا۔
ذہنی بے چینی اور الجھن (Confusion) کافی کم ہو چکی ہے۔
جسم میں تھکاوٹ اور پٹھوں میں درد کم ہو چکا ہے۔ بس کچھ کھلیاں اور کندھوں میں تھکاوٹ کا احساس ابھی بھی ہوتا ہے۔
کمر میں درد اور لیکوریا کا مسئلہ ابھی جاری برقرار اور جاری ہے۔
بھولنے کا مسئلہ بھی ابھی باقی ہے مگر شدت پہلے سے بہت کم ہو چکی ہے۔
بدہضمی کی علامات موجود ہیں مگر اتنی نہیں کہ ٹینشن کا باعث بنیں۔

جہاں اتنے مسائل صرف دو ماہ کے علاج سے حل ہو چکے ہیں؛ وہاں باقی کے حل ہونے کی بھی پوری امید اور توقع ہے۔ ویسے بھی جلد بازی کی جو عادت تھی وہ اب کنٹرول ہو چکی ہے۔ اس کی جگہ جسم میں چستی اور پھرتی پیدا ہو رہی ہے۔

سالہا سال سے دبی بلکہ دبائی ہوئی خواہشات اور ادھورے منصوبوں پر کام کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

اب میں اپنی قابلیت کو مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کے لیۓ استعمال کرنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہوں۔ پہلے تو جذبہ اور خواہش رکھنے کے باوجود مجھے اپنے اندر کوئی بڑا کام کرنے کی ہمت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ کئی سالوں کے ادھورے چھوڑے ہوۓ کام مکمل کرنے شروع کر دیے ہیں۔ کچھ نۓ کورسز کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہوں کہ جس کی بنیاد پر پریکٹیکل لائف شروع کر سکوں کیونکہ اب بچوں کی تربیت اور تعلیم کے مراحل سے فارغ ہونے کے بعد میرے پاس کافی اضافی ٹائم نکل سکے گا۔ ابھی سے اس کے لیۓ پلاننگ شروع کر دی ہے۔ اپنی یونیورسٹی کی ڈگری کے حصول اور کئی ادھورے ڈاکومینٹ مکمل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اب پوری امید ہے کہ اپنی ادھوری خواہشات اور ambitions کو پورا کر سکوں گی جو میرے لیۓ مزی ذہنی اور جذباتی تسکین کا باعث رہے گا۔

میں اب یہ محسوس کر رہی ہوں کہ اینگزائٹی (Anxiety) ختم ہوتی جا رہی ہے اور اس کی جگہ real emotional reactions لے رہے ہیں۔ جیسے پہلے بھوک کا احساس ہونے کی بجاۓ انگزائٹی ہونے لگتی تھی۔ اب کبھی کبھار بھوک کا اصل احساس ہونے لگتا ہے۔

مستقبل کا خوف، ذمہ داریوں کا بوجھ اور اکیلے بوجھ اٹھانے کا احساس اب رویے میں چڑچڑاپن اور کمزوری پیدا نہیں کرتا بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے کا جذبہ مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے۔ مقاصد کا حصول مشکل ہونے کے باوجود ناممکن نظر نہیں آتا۔ مسائل کو حل کرنے اور نئے راستے نکالنا اب مشکل نہیں۔ روٹین کاموں سے تھکنے کی بجاۓ اب صحیح معنوں میں لطف اندوز ہونا شروع ہو گئی ہوں۔

اتنی واضح تبدیلی اور وہ بھی صرف دو ماہ کے ہومیوپیتھک علاج میں؟ میں خود بھی بے یقینی کی حالت میں ہوں کیونکہ ہمیشہ یہ سنتے آئے تھے کہ ہومیوپیتھی علاج بہت دیر سے اثر کرتا ہے۔ حقیقت کو بالکل ہی برعکس پایا۔

———————————————-

حسین قیصرانی – سائکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ – لاہور پاکستان – فون 03002000210۔

0 0 votes
Article Rating
Picture of kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter