اے ڈی ایچ ڈی: وہ ذہنی بیماری جس میں 10 منٹ سے زیادہ بیٹھ کر کام نہیں ہوتا .. بی بی سی رپورٹ

’گانوں کے بول یاد رکھنا، سنگر،ایکٹرز یا فلم کا نام یاد رکھنا، گیمز کے رُولز، یہ وہ چیزیں ہیں جو بچوں کو عموماً ازبر ہوتی ہیں، لیکن یہ سب میں یاد نہیں رکھ پاتا تھا۔‘

’چاہے زندگی میں کوئی کتنا ہی ناکام انسان ہو مگر کسی کو نہیں پسند کہ کوئی ان چیزوں پر اسے جھوٹا سمجھے یا بےعزتی کرے جو دیکھنے میں بہت آسان لگتی ہیں، لیکن ایک اچھا بھلا دکھائی دینے والا شخص اسے کر نہیں پا رہا۔‘

آپ کی نظر سے بھی کئی ایسے افراد ضرور گزرے ہوں گے جو سمجھانے کے باوجود کام پر دھیان نہیں دے پاتے، بار بار چیزوں کو بھول جاتے ہیں، اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کر پاتے، ڈیڈ لائن مس کر دیتے ہیں، جلدی بیزار ہو جاتے ہیں اور اسی لیے والدین یا ٹیچرز سے انھیں سخت باتیں سننا پڑتی ہیں۔

عموماً نظر انداز ہو جانے والی یہ علامات ایک ایسی ذہنی کیفیت کی نشاندہی کرتی ہیں جنھیں طبی زبان میں ’اے ڈی ایچ ڈی‘ ( Attention Deficit hyperactivity disorder ) کے نام سے جانا جاتا ہے اور 35 سالہ عدیل بھی بچپن سے اس سے متاثر ہیں۔

عدیل نے اپنے بچپن کے حوالے سے ہمیں بتایا کہ وہ کبھی ایک جگہ ٹک کے یا سکون سے نہیں بیٹھتے تھے اور سوال بہت زیادہ کیا کرتے تھے مگر یاد رکھنا ایک مسئلہ تھا۔

’میرے ایک جگہ ٹک کے یا سکون سے نہ بیٹھنے، فوکس نہ کرنے اور بہت زیادہ سوال کرنے سے میری سب سے بڑی بہن کو شک ہوا کہ مجھے کچھ مسئلہ ہے۔ انھوں نے یہ بھی محسوس کیا تھا کہ گھر میں کچھ لڑائی یا بحث ہو تو میں بالکل زون آوٹ (گم صم) ہو جاتا ہوں۔‘

’10 منٹ سے زیادہ بیٹھ کر کام نہیں ہوتا‘

اے ڈی ایچ ڈی

عدیل کے مزید چیلینجز جاننے سے پہلے یہاں شامل کیے لیتے ہیں ان والدین کو درپیش مسائل جن کے بچوں میں ’اے ڈی ایچ ڈی‘ کی تشخیص ہوتی ہے۔

عشرت (فرضی نام) کی بیٹی کو چھ سال کی عمر میں اے ڈی ایچ ڈی کی تشخیص ہوئی۔

’میری بیٹی اس وقت تین سال کی تھی جب اس میں علامات نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ مجھے اندازہ تو تھا کہ یہ میرے دوسرے بچوں سے کچھ الگ ہے، پھر میں نے خود ریسرچ کی اور بعد میں ڈاکٹر نے اس کی تصدیق کی کہ میری بیٹی میں اے ڈی ایچ ڈی کی علامات ہیں۔‘

’پانچ سات منٹ، دس منٹ اس سے زیادہ ٹک کے بیٹھ کر اس سے کام نہیں ہوتا۔ ادھر ادھر گھومنا ہے، آنا جانا ہے، فکس ڈائٹ لینی ہے۔ نئی چیزیں ٹرائی نہیں کرنی۔‘

’لکھنے میں سپیلنگ کی غلطیاں، کسی اچانک صورتحال کا سامنا کرنے پر فرسٹریٹ (پریشان) ہو جانا، چلانا، شور مچانا، چھوٹے بڑے کا لحاظ ختم ہو جانا اور خود سے کہانیاں گھڑ لینا کہ جیسے میرے بیگ میں ٹائیگر ہے۔۔۔ تو اس سے مجھے اندازہ ہوا تھا کہ کچھ مسئلہ ہے۔‘

اے ڈی ایچ ڈی

’میرا بیٹی کے سکول سے رابطہ ہوا اور انھوں نے بھی کہا کہ اس کو کلاس کے دیگر بچوں کی نسبت کچھ مسائل پیش آ رہے ہیں، یہ بیٹھتی نہیں، توجہ نہیں دے پا رہی۔‘

عشرت کو ڈاکٹرز نے بتایا کہ اے ڈی ایچ ڈی سے متاثرہ بچوں کی ذہنی عمر ان کی طبعی عمر سے کم ہوتی ہے، یعنی اگر بچہ آٹھ سال کا ہے تو اس کی ذہنی عمر چھ سال ہو گی، اس لیے اس کو اسی طرح ڈیل کرنا ضروری ہے۔

’کبھی صاف کام کرتی ہے، کبھی بہت گندی کاپی کر دیتی ہے۔ فل سٹاپ نہیں لگائے گی، کامہ لگانا بھول جائے گی۔ اس عمر میں یہ چیزیں بچے سیکھ جاتے ہیں مگر اس کو یاد نہیں رہ پاتا تو یہ اس کنڈیشن کا حصہ ہے۔ ‘

’اے ڈی ایچ ڈی‘ کی علامات: عدم توجہی اور غلطیاں دہرانا

اے ڈی ایچ ڈی

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

اے ڈی ایچ ڈی کو سمجھنے کے لیے ہم نے ماہر نفسیات طاہرہ جاوید سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ اے ڈی ایچ ڈی ایک ’نیورو ڈویلیپمینٹل ایشو‘ (دماغ کے نیٹ ورک میں خاص تبدیلی) ہے جو بچوں میں بہت عام ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اے ڈی ایچ ڈی میں بچے پیدائشی طور سے عدم توجہی اور فوکس نہ کر پانے کے مسئلہ سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے بچے بہت زیادہ متحرک ہوتے ہیں، لاپروا ہوتے ہیں اور ایسی چیزیں کر جاتے ہیں جس میں انھیں اس کے خطرے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔‘

ڈاکٹرطاہرہ نے آسان الفاظ میں سمجھاتے ہوئے کہا کہ اے ڈی ایچ ڈی میں متاثرہ شخص کا دماغ ٹھیک ہوتا ہے تاہم اس میں سگنلز بھیجنے والا نیٹ ورک مختلف یا کچھ کمزور ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے پیغامات درست طریقے سے پہنچتے نہیں اور متاثرہ فرد کی کارکردگی متاثر ہونے لگتی ہے۔

’تین سے سات سال کی عمر میں اس کی علامات بہت واضح نظر آتی ہیں۔ خصوصا جب کبھی ان کے ماحول میں کوئی تبدیلی آئے جیسے بچہ جب سکول جانا شروع کرے یا مختلف ماحول سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملے۔‘

ان کے مطابق ’زیادہ تر اس کی تشخیص 12 سال سے کم عمر میں ہو جاتی ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اس عمر کے بعد جا کرتشخیص ہو۔ ان کی اپنے کام یا اردگرد کے ماحول پر توجہ دینے کی صلاحیت بہت متاثر ہوتی ہے۔‘

’ایسے افراد جتنا مصروف رہیں گے اتنا ہی پرسکون رہیں گے‘

اے ڈی ایچ ڈی

ماہر نفسیات طاہرہ جاوید کے مطابق متاثرہ افراد بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں میں غلطیاں کر جاتے ہیں:

  • ایسے بچوں کی توجہ ہر وقت بھٹکتی رہتی ہے، کسی ایک چیز پر فوکس نہیں کر پاتے۔
  • ایک ہی غلطی بار بار دہراتے رہتے ہیں
  • گفتگو کے دوران بار بار درمیان میں ٹوک دیتے ہیں
  • بہت زیادہ باتیں کرتے ہیں
  • ہر وقت ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرتے ہیں، کلاس میں بھی ایک جگہ ٹک کے نہیں بیٹھتے اور اگر بیٹھیں گے تو ہلتے جلتے رہیں گے
  • ایک دم سے غصہ کر جاتے ہیں
  • پریشان ہو کر جھگڑا یا مار پیٹ تک کرجاتے ہیں
  • سوچے سمجھے بغیر فیصلے کرتے ہیں اور جلدی بیزار بھی ہو جاتے ہیں
  • وقت پر کام کرنا ان کے لیے چیلینج ہوتا ہے۔ جو کام کسی نے ایک گھنٹے میں ختم کرنا ہے ان کو چار گھنٹے لگ سکتے ہیں

ماہر نفسیات طاہرہ جاوید نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جیسے آج کل بچوں کا سکرین ٹائم بہت زیادہ ہے جس میں وہ گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں تو اُن کے برعکس یہ بچے لگ کر نہیں بیٹھ سکتے۔‘

۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے

  • الزائمر مرض کیسے دریافت ہوا؟ ایک ڈاکٹر اور مریضہ کی ملاقات جس نے طب کی دنیا میں انقلاب برپا کیا
  • کچھ لوگوں کا جسم رات کو اچانک مفلوج کیوں ہو جاتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔

ماہر نفسیات طاہرہ جاوید کا کہنا ہے کہ ’اس ذہنی کیفیت میں دوا ایک حد تک ضرور کام کرتی ہے تاہم زیادہ تر ان میں تھیراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

ان کے مطابق متاثرہ افراد کے طرز زندگی میں کچھ تبدیلیاں لانا ضروری ہے: ’ایکسرسائز کروائیں، سپورٹس ایکٹیویٹی میں ڈالیں یا ان کے معمول کو مینیج کریں۔‘

طاہرہ جاوید کے مطابق ’ایسے افراد جتنا زیادہ مصروف رہیں گے اتنا ہی پرسکون رہیں گے۔‘

’ جس واقعے پر تکرار ہو تی ہے وہ تو مجھے یاد ہی نہیں‘

اے ڈی ایچ ڈی

اے ڈی ایچ ڈی سے متاثرہ عدیل اب شادی شدہ ہیں اور زندگی کومثبت بنانے کے لیے دوا اور تھیراپی دونوں سے مدد لیتے ہیں۔ تاہم ان کی مشکلات کو اکثر لوگ سمجھ نہیں پاتے۔

’شادی کے بعد جس طرح عام طور پر کسی بات میں میاں بیوی میں بحث ہو جاتی ہے اور جو عام حالات میں بات چیت میں ہی حل بھی ہو جاتے ہیں تو مجھے یہ پتہ چلا جس واقعے پر تکرار ہو رہی ہے تو مجھے تو یاد ہی نہیں رہتا۔‘

عدیل کے مطابق ’اور یہ اتنی بار ہوا کہ میں خود تنگ آ گیا کہ آخر میں کتنی بار غلط ہو سکتا ہوں یا کتنی بار بھول سکتا ہوں اور مجھے وہ واقعہ یا بات اس طرح سے کیوں نہیں یاد جس طرح دوسرے پارٹنر کو یاد ہے۔‘

یہی مشکلات عدیل اور ان ہی جیسے دوسرے متاثرہ افراد کو پیشہ ورانہ زندگی میں بھی درپیش رہتی ہیں۔

’آسان ترین چیزوں پر جتنا میں نے اپنے آپ کو کوسا ہے اور برا بھلا کہا ہے کہ میں اتنی آسان چیز کیوں نہیں کر پا رہا جو ایک بچہ بھی کر سکتا ہے تو یہ چیز توڑ دیتی ہے مجھے۔‘

’آس پاس کے لوگ جب کچھ سمجھاتے ہیں اور میں اپنے انداز میں جواب دینے یا سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ میرے جواب کو جھوٹ یا بہانہ سمجھیں تو میرا نہیں خیال کہ اس سے زیادہ کوئی چیز اندر سے توڑ سکتی ہے۔‘

عدیل کہتے ہیں کہ اگر انھیں دن میں چھ کام کرنے ہیں تو ان میں سب سے پہلا کام کون سا ہونا چاہیے، کب شروع کرنا چاہیے۔ وہ ترجیحات طے نہیں کر پاتے اور وقت کا خیال نہیں رہتا۔

’مجھے نہیں لگتا کہ میں کسی کو بھی سمجھا سکتا ہوں کہ مجھے کس طرح فوکس کرنا پڑتا ہے اور اگر میں فوکس نہیں کر پا رہا ہوں تو ایسا نہیں کہ میں نظر انداز کر رہا ہوں۔ اپنے اوپر سے یہ لیبل ہٹانا کہ میں سست نہیں ہوں بلکہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کام کیسے کرنا ہے اور کہاں سے شروع کرنا ہے۔‘

’بہتر تعلقات کے لیے پارٹنر کو سمجھنا چاہیے‘

طاہرہ جاوید ماہر نفسیات
،تصویر کا کیپشنطاہرہ جاوید نے بتایا کہ ’اے ڈی ایچ ڈی کے متاثرہ افراد کو سجھنے کے لیے پارٹنر کو بھی پوری طرح کی معلومات بھی ہونا چاہیے اور سمجھنا چاہئے کہ ان کو کب کیسے ڈیل کرنا ہے۔‘

تو شادی شدہ زندگی میں متاثرہ شخص کا پارٹنر کس بات کا خیال رکھے؟

اس کے جواب میں طاہرہ جاوید نے بتایا کہ اے ڈی ایچ ڈی میں مسئلہ یہی آتا ہے کہ وہ اپنے سماجی تعلقات میں بہت مشکلات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ ’ان لوگوں کو سجھنے کے لیے پارٹنر کو بھی پوری طرح کی معلومات بھی ہونا چاہیے اور سمجھنا چاہئے کہ ان کو کب کیسے ڈیل کرنا ہے۔‘

’ریلیشن شپ میں سب سے پہلے مسئلہ یہ آتا ہے کہ آپ کا پارٹنر آپ کی بات سن نہیں پاتا۔ وہ بار بار آپ کی بات کاٹ دیتا ہے۔ آپ کی بات درست طریقے سے سن نہیں پاتا۔ وہ بار بار بھول جاتا ہے کہ واقعات کیسے ہوئے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اپنے اس ڈس آرڈر کے باعث ایسے افراد جب دوسرے کی بات یا ہدایت پر توجہ نہیں دے پاتے تو ان کے ساتھ دیگر افراد یا پارٹنر کو ہر وقت ان کے لیے ایک ایکٹیو رول نبھانا ہوتا ہے۔

ان کے مطابق ’ جب اسے یاد ہی نہیں کہ اسے کب کیا بتایا گیا تھا تو شادی شدہ تعلقات یہاں سے متاثرہونا شروع ہو جاتے ہیں۔‘

’جتنا پڑھ سکتی ہے پڑھا دیتی ہوں باقی اللہ پر چھوڑ دیتی ہوں‘

اے ڈی ایچ ڈی

،تصویر کا ذریعہBBC

ایسا نہیں کہ اے ڈی ایچ ڈی سے متاثرہ بچے مہارت میں کسی سے کم ہوتے ہیں تاہم والدین اور گھر والوں کوانھیں احتیاط سے مینیج کرنا ہوتا ہے جس کی ایک مثال عشرت ہیں۔

عشرت کو اپنی بیٹی کی دماغی کیفیت کے باعث سکول سے کافی مدد ملی تاہم انھوں نے اپنی تحقیق کے بعد ایسے اقدامات اٹھائے جس سے ان کی بیٹی پرسکون رہ سکے۔

’میری گھر میں کافی شور رہتا ہے اور لوگ اونچی آواز میں بولتے ہیں تواس عادت کو میں نے ختم کروایا کیونکہ اس سے بچی پر دباؤ آتا تھا۔ ‘

عشرت نے بیٹی کی حالت کے پیش نظر سکول میں شروع میں اس کا نصاب 50 فیصد کم کروایا۔ بچی کو پڑھانا ان کے لیے بڑا چیلینج ہے۔

’اس کو پڑھاتے ہوئے مجھے بہت محنت کرنا ہوتی ہے کیونکہ جب میں باقی بچوں کو پڑھاتی ہوں تو ان کو پڑھاتے ہوئے ایک سمت ہے ، ٹائم ہے، طریقہ ہے مگر اس کا اپنا طریقہ ہے۔‘

’اگر اس کے دوسرے دن امتحان ہیں تو اس نے شام کو سو جانا ہے اس کو پروا نہیں ہوتی کہ میرے امتحان ہیں مجھے پڑھنا ہے۔ لیکن میں اس کو نہیں چھیڑتی بلکہ صبح جلدی اٹھا کر پڑھا دیتی ہوں اور جتنا پڑھ سکتی ہے پڑھا دیتی ہوں باقی اللہ پر چھوڑ دیتی ہوں۔‘

’جب وہ کسی چیز سے فرسٹریٹ ہو تی ہے تو پڑھائی چھوڑ دینی ہے۔ اور اگر وہ 80/90 پرسنٹ مارکس نہیں لیتی تو کوئی بات نہیں۔ اس کی کئی اچھی مہارتیں ہیں اور کئی بار واقعی اس نے مجھے سرپرائز بھی کیا ہے۔‘

’اپنی طرف سے ہم کوشش کر رہے ہیں لیکن اگر اس کا کسی چیز کا موڈ نہیں ہے تو ساری دنیا کر رہی ہو گی اس نے نہیں کرنی ہو گی چاہے آپ کچھ مرضی کر لیں۔ پھر خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہے یہ میرا تجربہ ہے۔‘

’اس دماغی کیفیت کے باوجود میری بیٹی سوشل ہے، لوگوں سے ملتی ملاتی ہے لیکن اگر اس کو غصہ آ جائے تو لحاظ نہیں کرتی۔ البتہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ اس نے کسی جگہ کبھی شرمندہ کیا ہو۔‘

دوسری جانب پختگی کی عمر میں اب عدیل اپنی دماغی کیفیت کو سنبھالنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ اے ڈی ایچ ڈی کو کیسے سمجھائیں گےتو انھوں نے اس کی مثال اس طرح دی۔

’اے ڈی ایچ ڈی کا احساس ایسا ہے کہ ایک بڑے سے کمرے میں چھت سمیت چاروں جانب بہت سے ٹی وی ’آن‘ ہوں اور سب پر مختلف چینل فل آواز سے لگے ہوں۔ تو جب میں نے یہ پڑھا تو مجھے لگا کہ میری سوچ کا انداز بھی ایسا ہی ہے۔‘

اورآخر میں اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے انھوں نے کہا ’مجھے یاد ہے کہ جب ڈاکٹر نے اے ڈی ایچ ڈی کی تصدیق کی تو میں نے دو باتیں سوچیں کہ ایک تو شکر ہے مجھے میرے کتنے ہی سوالوں کا جوابات مل گئے اور دوسرا یہ کہ نہ جانے کتنے ہی غیر تشخیص شدہ بچوں کو اپنے رویے کے باعث ماں باپ اور ٹیچرز سے ڈانٹ پڑتی رہتی ہے اوربچپن سے ہی بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

0 0 votes
Article Rating
Picture of kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter