معدہ خرابی تیزابیت، الرجی، ہارٹ اٹیک موت کا خوف ۔ کامیاب کیس، دوائیں اور علاج ۔ حسین قیصرانی

کیس پریزنٹیشن اور کمپوزنگ: مہر النسا

 آج  آپ کے ساتھ ایک منفرد نوعیت کا کیس ڈسکس کریں گے۔ یہ کیس ہے ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا کی ایک معروف شخصیت علامہ صاحب کا۔ آپ حافظ ِقران ہیں، خطیب ہیں، قاری بھی ہیں اور معلم کے فرائض بھی سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ کا تعلق ایک مشہور علمی خانوادے سے ہےاور وسیع حلقۂ ارادت رکھتے ہیں۔

چند ماہ قبل علامہ صاحب نے واٹس ایپ پر رابطہ کیا۔ وہ فیس بک پر مختلف کیسز کا مطالعہ کر چکے تھے اور اپنے پیچیدہ مسائل کے بارے میں بات کر نا چاہتے تھے۔ علامہ صاحب کے مسائل پریشان کن تھے جس کی وجہ سے ان کی روزمرہ زندگی کے معمولات خاصے ڈسٹرب تھے۔ کئی طرح کے ڈر، خوف، فوبیاز، خاص طور پر موت بلکہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سےموت کا خوف حواس پر دن رات طاری رہتا تھا۔ منتشر دماغ، منفی خیالات ، شدید سر درد، پرسکون نیند کی عدم موجودگی، منہ کے دانے چھالےالسر، گلے میں ریشہ کیرا گرنا، چھینکیں، فوڈ الرجی (Food Allergy)، تیزابیت، معدے کے مسائل ، ڈپریشن ، انگزائٹی، پینک اٹیک اور اس جیسے کئی مسائل نے انھیں گھیر رکھا تھا۔ ڈسٹ الرجی بہت زیادہ تھی۔ شدید بلکہ دائمی نزلہ زکام الرجی کوئی بھی کام خوش اسلوبی سے کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنا رہتا تھا۔ بہت ساری ادویات زیرِ استعمال رہتی تھیں۔

میری درخواست پر علامہ صاحب نے اپنی ساری تفصیلات ایک تحریر میں سمو دیں جو ذیل میں پیشِ خدمت ہے۔

“السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

حضرت قبلہ ڈاکٹر صاحب! اس وقت میری عمر 36 سال ہے۔ جب میری عمر 9 سال تھی حفظ کے لیے مجھے مدرسے میں گھر سے دور بھیج دیا گیا ۔ زمانۂ حفظ بڑی مشقت میں گزرا ۔ صبح چار بجے اٹھ کر سبق سنانا۔  اس کا رات سے فکر سوار رہتا اور کبھی سبق یاد نہ ہو تو مار کا ڈر۔  خیر! تین سال اسی کیفیت میں گزرے۔ پھر درجہ عالمیت میں بھی کچھ یہی کیفیت 9 سال تک رہی۔ ۔

۔ ۲۰ سال  کی عمر میں فراغت ہوئی۔ ۲۱ سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے درس و تدریس اور امامت کے لیے قبول فرما لیا۔اب تو کسی قسم کا کوئی خوف نہ تھا۔۔23 سال کی عمر میں شادی ہوئی۔زندگی بہت بہترین گزرنے لگی۔

ایک دن محلہ میں کسی کا انتقال ہوگیا۔ خبر سنتے ہی اچانک بے چینی شروع ہوئی ۔ دل تیز دھڑکنے لگا۔ یوں لگا بس مرنے والا ہوں۔  اُس موقع پر فیملی ڈاکٹر اور حکیم کو دکھایا انہوں نے یہی کہا آپ کو معدے کا مسئلہ ہے اور کچھ نہیں۔ دوائی سے افاقہ ہو گیا مگر یہ کیفیت برقرار رہی (کسی کی موت خصوصاً اچانک کی موت کی خبر سن کر بے چینی ہونا، جیسے اب مر جاؤں گا دل کا دورہ پڑے گا) کبھی کم کبھی زیادہ مگر برداشت کرتا  رہا۔ 

پھر کئی سال تک طبیعیت بالکل نارمل ہوگئی سارے خوف ختم ہوگئے۔

جوائنٹ فیملی میں رہتا ہوں۔ بھائیوں میں بڑا ہوں گھر میں کسی قسم کا پریشر نہیں ہے۔ جوائنٹ فیملی میں کچھ نہ کچھ اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے مگر وہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے برداشت کرتا رہتا ہوں۔

کھانے میں ہر چیز پسند ہے سبزیاں، ہر قسم کے گوشت، پھل فروٹ ۔ میٹھا زیادہ پسند نہیں، مرچ مسالہ مرغن غذائیں زیادہ پسند نہیں (یہ خوف بیٹھا ہوا ہے مرغن غذائیں میٹھا کھانے سے بیماریاں ہوتی ہیں)۔  دال چاول خوب پسند ہے۔

ٹھنڈی غذاؤں سے پرہیز کرتا ہوں کہ نزلہ زکام فوراً ہوجاتا ہے۔

موسم میں سردی اور بارش زیادہ پسند ہے۔باغات، جھرنے، آبشار زیادہ پسند ہیں کہ اس سے طبیعت میں خوشگواری آتی ہے۔

صفائی ستھرائی نظم و نسق میں بہت اہتمام رہتا ہے اس میں اگر کوئی تبدیلی کرے تو غصہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔طبیعیت میں چڑچڑاپن غصہ بہت ہے۔ غصے پر کنٹرول بھی کرتا ہوں مگر پھر بھی غصہ آ جاتا ہے۔

ابھی تقریباً چار سال سے پھر یہ کیفیت جاری ہے موت کا ڈر بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا اچانک موت یا ہارٹ اٹیک کا بے حد ڈر۔ کہیں کوئی خبر ہارٹ اٹیک سے مرنے کی سنی پڑھی تو دل بیٹھ سا جاتا ہے۔ دل کے دورے کا لفظ کہنے، سننے، پڑھنے اور بولنے سے جسم، دل، اور دماغ کی عجیب کیفیت ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب! آپ نے بجا فرمایا ہے کہ  جتنا اس لفظ سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں  اتنا ہی زیادہ ہارٹ اٹیک یا دل کی بیماری کا ذکر سامنے آ جاتا ہے۔

طبیعت میں مایوسی غالب رہتی ہے۔ ہر وقت یہ ٹینشن کہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟ کہیں دل کا کوئی مرض تو نہیں؟ دل کی دھڑکن تیز رہتی ہے جب خوف گھبراہٹ ہو، منفی سوچیں بہت زیادہ زور شور سے آتی ہیں۔  ہر ممکن کوشش کے باوجود کنٹرول نہیں ہوتا۔

بھوک برابر نہیں تھوڑا سا کھاتے ہی پیٹ بھرجاتا ہے ۔ گیس کی تکلیف بھی رہتی ہے مگر بہت زیادہ نہیں۔

نزلہ زکام بہت زیادہ رہتا ہے۔ گرد و غبار ، تبدیلی موسم اور سرد غذاؤں کے استعمال سے ناک سے پانی اس قدر بہتا ہے جیسے نل کھول دیا گیا ہو اور ساتھ ساتھ چھینکیں۔ یہ تکلیف کئی سالوں سے ہے اورہر پانچویں دن یہی کیفیت پھر کوئی الرجی کی گولی لی جائے تب وقتی  آرام۔ تقریباً ایک سال سے ناک سے پانی بہنے والی کیفیت زیادہ نہیں مگر اب ناک ہمیشہ بالکل بند رہتی ہے ۔سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے ۔بلغم ناک میں جما ہوا رہتا ہے ۔کوشش کے باوجود نہیں نکلتا اور بلغم گلے میں گرتا ہے۔ چکر سا محسوس ہوتا رہتا ہے۔ گلے میں خراش رہتی ہے۔ آواز بھاری ہو جاتی ہے۔ منہ میں چھالے بن جاتے ہیں اور کھانا پینا مشکل ہو جاتا ہے۔

بچپن سے ہی تہجد، قرآن شریف کی تلاوت کا دائمی معمول ہے مگر طبیعیت کی بے کیفی کی وجہ سے کہیں دل نہیں لگتا ۔دعائیں بھی بہت کرتا ہوں اللہ تعالیٰ مجھے اس دلدل سے جلد از جلد عافیت کے ساتھ نکال دے۔ آمین

یہ میں نے اپنی مکمل کیفیت بیان کردی ہے

مزید معلومات درکار ہیں تو مطلع فرمائیں۔ “

 

علامہ صاحب سے مزید گفتگو کے نتیجے میں کچھ اور حقائق بھی سامنےآئے۔

ڈر،خوف اور فوبیاز :ـ

اچانک ہارٹ اٹیک کا ڈر heart Attack phobia ، بجلی کی گرج چمک کا ڈر،اندھیرے کا خوف fear of darkness  گھر میں اکیلے نہیں رہ سکتے اور اگر رہنا پڑے تو ساری رات نیند نہیں آتی۔

 

فیملی ہسٹری:ـ

فیملی ہسڑی میں شوگر، بلڈ پریشر اور سانس کی تکالیف کے شواہد ملے۔

 

تجزیہ:ـکیس کا تجزیہ اور ہومیوپیتھی دوائیں (ہومیوپیتھک سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز کے لئے)۔

علامہ صاحب ایک علمی شخصیت کے مالک ہیں۔ خطابت ، تدریس، ذکر و اذکار اور اس شعبے سے متعلق مختلف ذمہ داریاں بہت خوش اسلوبی سے نبھا رہے تھے۔ ذمہ داری کا ا حساس بہت زیادہ تھا۔ ہر بیان اور خطبہ کے لیے بہترین کارکردگی کی کوشش کرتے تھے۔ اپنے اندر ایک ڈر محسوس کرتے تھے جس کی وجہ سے ذہنی دباؤ رہتا تھا۔ ہر وقت پریشان رہتے تھے کہ کہیں مجھے کچھ ہو نہ جائے۔ خاص طور پر ہارٹ اٹیک کا خوف بے پناہ زیادہ تھا۔ صحت کے معاملات کنٹرول کرنے کی متواتر کوشش کرتے رہتے تھے۔ مایوسانہ خیالات سوتےجاگتے حواس پر طاری رہتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے دماغ جکڑا ہوا تھا۔ کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے جیسے سانس بند ہو گئی ہے اور پھر لمبے لمبے سانس لینے پر سانس کچھ بحال ہو پاتی۔ پینک ڈس آرڈر کی کیفیت پیدا ہو جایا کرتی۔ نزلہ زکام اور ریشہ کیرا گرنا بہت زیادہ رہتا تھا اور اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے مسلسل انٹی بائیوٹک یا دیسی ا دویات لیتے رہتے تھے۔ ان کے مقتدیوں اور نیازمندوں میں ڈاکٹر ز اور حکماء بھی شامل تھے اس لیے باقاعدہ  علاج معالجےکے بجائے کبھی اس مسئلہ کی دوا تو کبھی اُس تکلیف کی دوا کا سلسلہ چلتا ہی رہتا تھا۔

علاج کی تفصیل یا ہومیوپیتھک دواوں کی تفصیل اور توضیح بیان کرنے سے پہلے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہومیوپیتھک علاج صرف دوائیں کھانے کا نام نہیں ہے۔ ہومیوپیتھی طریقہ علاج کی اپنی فلاسفی ہے اور طریقہ کار ہے۔ علاج کے تقاضوں کو  اگر مدِنظر نہیں رکھا جائے گا  تو وہ ہومیوپیتھک علاج ہو گا ہی نہیں اور محض دوائی کھانے کا عملاً کوئی فائدہ نہیں ہو سکے گا۔ہومیوپیتھی میں ڈاکٹر جے سی برنٹ کا نام اور مقام بہت  ہی اعلیٰ درجے پر سمجھا جاتا ہے۔ وہ برطانیہ کے مشہور ایلوپیتھک ڈاکٹر تھے مگر جب ہومیوپیتھک فلاسفی اور علاج کو سمجھا تو پھر کبھی ایلوپیتھی کی طرف واپس نہیں گئے۔

ڈاکٹر برنٹ فرماتے ہیں کہ

مشکل، پرانے اور پیچیدہ کیس حل کرنے کے لئے آپ کو ایک دو نہیں بلکہ دواوں کی ایک سیریز ضرورت پڑتی ہے۔ اُن میں سے کوئی ایک شفا نہیں دے سکتی بلکہ ہر دوائی شفا اور صحت کی طرف لے چلتی ہے۔ اِس سب دواوں کے مجموعی اثر یا نتیجہ  سے ہی شفا کا حصول ممکن ہے۔

In difficult, chronic, complicated cases of disease you require not one remedy but a ladder (series) of remedies, not one of which can of itself effect the cure, but each of which works cure-wards, their cumulative action eventuating in a cure — J. C. BURNETT.

 

معدے کے مسائل بھی سالوں سے تھے۔ بھوک نہیں لگتی تھی اور  خوراک کی نالی میں جلن، تیزابیت گیس جیسے مسائل درپیش رہتے تھے۔ ذہنی سکون نہیں تھا۔ اپنے کام اور معاملات میں پرفیکشن مزاج کا حصہ تھا۔ چڑچڑاپن اور ذہنی بے قراری عروج پر پائی گئی۔ اِن معاملات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے علاج کا آغاز ہومیوپیتھک دوا نکس وامیکا سے کیا گیا۔ اس سے کچھ بہتری آئی ، سکون محسوس ہوا مگر یہ سب بہت وقتی ثابت ہوا۔

کشمکش بہت زیادہ تھی۔ کھانے پینے میں بھی کنفیوژن (Confusion) رہتی تھی۔ دل کہتا تھا ” کھانا چاہیے” اور دماغ کہتا تھا ” کھاؤ گے تو بیمار ہو جاؤ گے۔ چھوٹی سے چھوٹی بات اور بڑے سے بڑے مسئلے کے لیےلاشعور میں دو متضاد خواہشات کا تصادم چلتا رہتا تھا۔ الجھن ہر وقت دماغ پر طاری رہتی تھی۔ ہر معاملے میں ڈبل مائنڈڈ رہتے تھے۔ عجیب و غریب قسم کے واہمے، وسوسے اور منفی سوچیں ستاتے رہتے تھے۔کوئی مضمون لکھنا ہوتا تو ذہن اسی میں الجھا رہتا۔ دماغ میں مسلسل ایک مشین سی چلتی رہتی۔ ذہن کسی وقت بھی فوکس یا یکسو نہیں ہوتا تھا ۔ ہر وقت گھبراہٹ ، بے چینی اور اداسی چھائی رہتی تھی۔ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کھانے کی طلب رہتی تھی ۔ منہ میں کوئی ذائقہ ہمہ وقت درکار تھا ورنہ تیزابیت ہونے لگتی تھی۔ کشمکش، تذبذب، مخمصے، منفی سوچوں کی بھرمار، شدید غصہ، ہرلمحہ اپنی صحت کے بارے میں پریشان رہنا ، گوگل کرتے رہنا اور موت کا ڈر بہت واضح علامات تھیں جن کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہومیوپیتھک دوا  اناکارڈیم  تجویز کی گئی ۔ اس دوا نے بے پناہ فائدہ دیا۔ طبیعت میں سکون اور ٹھہراؤ  پیدا ہونے لگا۔ دل کی بے چینی کی جگہ طمانیت اور سکون نے لے لی۔ ذہنی یکسوئی میسر آئی۔

حسبِ ضرورت شدید خوف، ہارٹ اٹیک فوبیا کےاور موت کے ڈر کے لیے ایکونائٹ (Aconite) دی جاتی رہی۔

اس کے علاوہ سر میں دردرہتا ۔ ایسا لگتا ہے جیسے سر میں کوئی سوئی چبھ رہی ہے۔ منہ کے چھالےالسر  بہت تکلیف دیتے تھے۔ کھانا ،پینا اور بولنا بھی دوبھر ہوجاتا تھا۔ ایسی صورت حال نے جب شدت اختیار کی تو چند دن  مرک سال استعمال کروائی گئی اور اس نے واضح فائدہ دیا۔

اگرچہ علامہ صاحب نے جو تفصیلات دیں ان کے مطابق ان کو میٹھا پسند نہیں تھا حالانکہ وہ شہد اور کھجور باقاعدگی سے استعمال کرتے تھے لیکن زیادہ میٹھا کھانے سے طبیعت خراب ہو جاتی تھی۔ تیزابیت بنتی تھی۔ اچانک ہارٹ اٹیک کا خوف شدید تھا۔ کوئی بھی کام جو اچانک ہوتا انھیں بہت ڈسٹرب کرتا تھا۔ خاص طور پر اچانک کسی کی موت کی اطلاع ملتے ہی شدید انگزائٹی ہونے لگتی تھی۔ اچانک کوئی مہمان آجائے تو گھبراہٹ شروع ہو جاتی تھی۔ اچانک پینک اٹیک ہوتا اور طبیعت خراب ہونے لگتی۔ باہر جانا ، واک کرنا پسند کرتے تھے۔ ہر وقت طبیعت میں ایک عجلت رہتی تھی جیسے کوئی ٹرین چھوٹ رہی ہے۔ اگر کل کسی پروگرام میں جانا ہے تو آج شام سے ہی بے چینی شروع ہو جاتی تھی۔ مسلسل یہی سوچتے رہتے تھےکہ کہیں لیٹ نہ ہو جاؤں۔ اسی پریشانی میں رات کو نیند نہیں آتی تھی۔ انزائٹی اتنی بڑھ جاتی تھی کہ بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی تھی۔ اں حالات میں رجنٹم نائٹریکم وہ دوا تھی جس نے کیس کو نیا موڑ دیا۔

گلے کی تکلیف، آواز کی خرابی، خاص طور پر تراویح پڑھانے کے دوران آواز کا بیٹھ جانا  اہم ترین مسئلہ بن کر سامنے آیا۔ اللہ کے کرم سے ارجنٹم مٹیلیکم  سے بہت افاقہ ہوا۔

نزلہ زکام زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔ جب ناک سے پانی بہتا تو ناک سرخ ہو جاتی تھی۔ ناک میں جلن محسوس ہوتی اور چھینکوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ۔ دواؤں کے استعمال سے بلغم جم جاتی اور ناک بند ہو جاتی۔ یہ صورتِ حال مزید تکلیف دہ ہو جاتی تھی۔ نزلہ زکام الرجی کی شدت اور تسلسل کی وجہ سے ہر وقت بخار سا رہتا تھا ۔نزلہ زکام ، الرجی کی کیفیات ،مسلسل بلغم گرتے رہنا اور بخار جیسے مسائل کے لیے چند بار  ٹیوبر کولائنم  بھی دی جاتی رہی۔

اچھی نیند ، نارمل خوراک اور ڈر خوف فوبیا سے پاک زندگی نے ان کی صحت پر واضح مثبت اثرات مرتب کیے۔ یقیناً ان تمام مسائل کے ساتھ علامہ صاحب کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا بےحد دشوار رہا  مگر  اللہ کے کرم سے علامہ صاحب نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئے ہیں۔


 کامیاب علاج کے بعد علامہ صاحب کا فیڈ بیک، خود اُن کے الفاظ میں  ملاحظہ فرمانے کے لئے یہاں یا نیچے کے سکرین شارٹس پر کلک کریں ۔

 

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter