مریضوں کے ساتھ پہلے سیشن میں؛ میں انھیں سادہ، معیاری مگر پسند کی خوراک کھانے پینے کا مشورہ دیتا ہوں۔ جب کوئی پرہیز کے لئے پوچھتا ہے تو میرا جواب یہ ہوتا ہے
جو دل کرے کھائیں پئیں اور جو دماغ کہے غذا خوراک کے معاملہ میں اُس کی بالکل نہ مانیں۔
دو یا تین ہفتوں کے بعد وہ دوبارہ رابطہ کرتے ہیں تو اکثر اوقات وہ یہی بتاتے ہیں کہ وہ بہتر محسوس کر رہے ہیں لیکن کچھ دن پہلے انھیں زکام نزلہ ،کھانسی ، پیٹ کی خرابی وغیرہ جیسے مسائل ہوئے تھے۔ علامات سے متعلق پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ بلغم خارج ہوتی رہی یا پیٹ خراب ہو گیا یا سکن پر کچھ خارش دانہ وغیرہ کا مسئلہ درپیش رہا۔
علاج کے دوران ہونے والے یہ چھوٹے چھوٹے مسائل دراصل ہمارے امیون سسٹم یعنی مدافعتی نظام کی جانب سے صحت کی بحالی کی عملی کوششیں ہوتی ہیں اور مریض بیماری سے تندرستی کی طرف سفرکرتے ہوئے ان کا سامنا کرتے ہیں۔
قدرت کی طرف سے ہر انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی ایک مدافعتی نظام رکھ دیا گیا ہے جسے ہم قوتِ مدافعت ،قوتِ ارادی ، دفاعی نظام یا وائٹل فورس جیسے ناموں سے جانتے ہیں۔ یہ قدرتی نظام، حالات کے مطابق ہمارے جسم کے لیے بہترین اور بر وقت فیصلے کرتا ہےاور درپیش مسائل کو مناسب ترین انداز میں حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نظام ہمیں تصویر کاوہ رخ دکھاتا ہے جو روایتی طریقہ علاج کے بالکل الٹ ہے۔ ایلوپیتھک طریقہ میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس انسان میں بیماری کی کوئی علامت نہ ہو وہ صحت مند ہےاور ایلوپیتھی ادویات کا مقصد بھی بیماری کو ختم کرنا نہیں بلکہ ایسی تمام علامات کو ختم کرنا ہوتا ہے جو کسی بیماری کی نشان دہی کر رہی ہوتی ہیں۔ ۔۔
دور حاضر میں زیادہ تر ادویات بھی اسی طرح استعمال کروائی جاتی ہیں جن میں عام طور پر کم یا زیادہ مقدار میں نقصان دہ مواد موجود ہوتا ہے جو بیماری یا بیمار کا علاج کرنے کی بجائے مرض کو دبا دیتا ہے اور بظاہر وقتی طور پر علامات ختم ہو جاتی ہیں۔ زیادہ تر مریض بھی یہی چاہتے ہیں اور ان کا یقین اسی بات پر ہوتا ہے کہ اگر بیماری کی علامت ختم ہو گئی ہے تو وہ ٹھیک ہو چکے ہیں۔
ہومیوپیتھک علاج کا مقصد اس سے ذرا مختلف اور منفرد ہے۔ قدیم طریقہ علاج کی طرح ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں صحت سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ وقتی طور پر مریض میں بیماری کی کوئی علامات نہ ہوں بلکہ صحت کا مطلب ہے کہ انسان جسمانی، جذباتی، نفسیاتی اور ذہنی طور پر اتنا مضبوط ہو کہ اسے کوئی بیماری لاحق ہی نہ ہو — اگر وہ وقتی طور پر بیمار ہو تو بغیر علاج دوا یا دوا کی بہت کم مقدار سے صحت مند ہو جایا کرے۔
قدرتی ماحول میں رہنے والے جنگلی جانور اسی طرح کی صحت کے حامل ہوتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی قدرتی ماحول میں رہنے والےکسی جنگلی جانور کو علاج کرواتے دیکھا؟
اگر ہمیں اسی طرح کی صحت چاہیے تو اس کےلیے محنت کرنی ہو گی۔ ہمیں شعوری طور پر اپنی زندگی سے صحت پر اثرانداز ہونے والے منفی اثرات کو کم سے کم کرنا ہو گا اور ان کی جگہ زیادہ سے زیادہ مثبت طرزِ زندگی کو اپنانا ہو گا۔
جس طرح سے شدید بیماری کے دوران انسان مسلسل مزید خرابی کا شکار ہوتے ہوئے موت تک چلا جاتا ہے اسی طرح بہتر صحت کے لیے بھی ہمارے راستے میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ صحت کی خرابی کا راستہ ایسے ہے جیسے بلندی سے نیچے کی طرف جانا اور بہتر صحت کی طرف جانے والا راستہ اوپر کی طرف جاتا ہے۔نیچے کی طرف آنا آسان ہے، ہمیں زیادہ کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا۔۔۔ ہم اُترائی کے ساتھ اترے چلے جاتے ہیں۔۔۔
لیکن اوپر جانے کے لیے اور بہتر صحت پانے کے لیے تسلسل سے محنت کرنی پڑتی ہے۔ لمبے عرصہ کی بیماری پستی کی طرف جانے والے راستے کی طرح ہے اس کے برعکس بلندی کی طرف جاتے ہوئے تیز اور چھوٹے قدم اٹھانے ہوتے ہیں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
صحت مند زندگی حاصل کرنے کے لیے یہی رکاوٹیں کہلاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں جسم قدرتی نظام کے تحت اپنے اندر سے زہریلے مادوں کو باہر نکالتا ہے۔ اس دوران انسان کو چھوٹی چھوٹی رکاوٹوں یعنی وقت تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے —بخار، نزلہ، اسہال، نیند کی کمی، سر درد، متلی، اعصابی کھچاؤ وغیرہ۔ لیکن یہ سب وقتی اور بہت عارضی ہوتا ہے۔ ان وقتی مسائل کی شدت، نوعیت اور دورانیے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ انسان اندر سے کتنا بیمار ہے اور اس کے مسائل کتنے پرانے ہیں۔ قدرتی نظام جس طرح بہتر سمجھتا ہے، فیصلہ کرتا ہے کہ کب اور کس وقت کسی بیماری کو کس طرح سے باہر نکال پھینکنا ہے۔
جسم مسلسل اپنی صحت کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ ہمارا طرزِ زندگی اس کو اپنا کام مناسب انداز میں نہیں کرنے دیتا۔ بےدریغ سخت دواؤں کا استعمال اس نظام کو ڈسٹرب کرتا ہے۔ بظاہر دوا کھانے سے بیماری کی ظاہری علامات ختم ہو جاتی ہیں لیکن درحقیقت ہم ان مسائل کو دبا دیتے ہیں اور نتیجتاً یہ مسائل جسمانی سطح سے ہٹ کر ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی سطح پر بگاڑ پیدا کرنے لگتے ہیں۔ اگر ہم اپنے قدرتی مدافعتی نظام کو کام کرنے دیں اور مسائل کا ہمت سے سامنا کریں تو ہر رکاوٹ دور کرنے کے بعد ہم صحت کی اوپر والی سطح پر پہنچ جاتے ہیں جو اس تبدیلی سے پہلے ہوتی ہے یعنی شفایابی کے عمل کے دوران تمام مسائل ہماری صحت میں بہتری لاتے ہیں۔
ہومیوپیتھی طریقہ علاج کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ بہتر صحت کا حصول صرف دوائیاں کھا لینے سے ممکن نہیں بلکہ یہ ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہی ہو سکتا ہے۔ اس پراسیس، پروسیجر اور أصول کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
تمام علاج اندر سے باہر کی طرف، سر سے نیچے کی طرف شروع ہوتے ہیں اور جس ترتیب سے علامات ظاہر ہوئی ہوتی ہیں؛ علاج اس سے الٹی ترتیب میں ہوتا ہے۔ یعنی ہومیوپیتھی علاج کے دوران پرانے دبے ہوئے امراض کی علامات دوبارہ ظاہر ہو سکتی ہیں لیکن ان کی شدت اور دورانیہ پہلے جیسا نہیں ہوتا۔ علامات کا دوبارہ ظاہر ہونا دراصل کامیاب علاج کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر اس دوران علاج کو روکا نہ جائے اور مثبت سوچ رکھتے ہوئے آرام کیا جائے۔ ساتھ ساتھ اپنے معالج کو رونما ہونے والی تمام تبدیلیوں سے آگاہ بھی رکھا جائے تو نہ صرف وہ بیماری جڑ سے ختم ہو سکتی ہے بلکہ ہمارا جسمانی نظام اتنی قوتِ مدافعت حاصل کر لیتا ہے کہ بیماری کے دوبارہ حملے کی صورت میں اس سے بھرپور مقابلہ کر سکتا ہے۔
ہر بیماری، حادثے یا مسئلہ کے پیچھے ایک مضبوط جذباتی عنصر ہوتا ہے اور ہومیوپیتھی علاج کے دوران اس کا دوبارہ تجربہ ضروری ہوتا ہے ورنہ شفایابی کا عمل نامکمل رہتا ہے اور بعد میں دوبارہ علاج کے دوران مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہوتا ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہی ہمارا جسم اس بات پر غور کرتا ہے کہ وہ کون سی خاص جگہ ہے جس کو شفایاب کرنے اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اہلیت بھی۔ پھر وہ اپنے لئے اس وقت کی مناسب ترین تکلیف کا انتخاب کرتا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جسم خود اپنی صحت کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے آنے والے روزمرہ کے معاملات میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شفایابی کے راستے پر اندرونی ذہانت رہنمائی کرتی ہے جو ہماری سب سے بڑی خیر خواہ ہے۔
شروع میں صحت کا حصول زیادہ تر جسمانی سطح پر ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے نفسیاتی اور جذباتی گرہیں کھلتی ہیں اور شعوری سطح پر تبدیلیاں آتی ہیں تو یہ عمل ہمیں بہت گہری سطح پر زیادہ بہتر کام کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔
ہومیو پیتھی طریقہ علاج کی ترتیب
ہومیوپیتھی علاج میں خودکار طریقے سے ہماری صحت کی خرابی کی ترتیب کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پرانی طویل بھولی بسری بیماری کی علامات صحت یابی کے عمل میں دوبارہ ظاہر ہو سکتی ہیں۔ یہ بیماری کی نوعیت کے مطابق ہوتا ہے۔
شفایابی کے پراسیس میں ہمارا جسم خود کو اتنا مضبوط محسوس کرتا ہے کہ کسی بیمار عضو کی صحت یابی کے لیے جنگ شروع کر دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عضو پر سوزش یا جلن ہو جاتی ہے۔ یہ سوزش شدید ہو سکتی ہے مگر اس کا دورانیہ لمبا نہیں ہوتا۔
اگر مریض اپنے جسم کو آرام، بہترین منتخب ہومیوپیتھک دوا اور مناسب غذا مہیا کرے تو آہستہ آہستہ وہ عضو خراب ہونے سے پہلے والی بہتر حالت میں آ جاتا ہے تاہم اگر سوزش کو دبانے کے لیے دوائیوں کا استعمال کیا جائے توعضو اپنی پچھلی خراب حالت میں واپس چلا جائے گا اور اپنی شفا یابی کے لیے کسی اَور موقع کا انتظار کرے گا۔
جلد کے مسائل
شفایابی کےسفر میں خاص طور پر جسم کے کسی کمزور حصے مثلاً کولہے یا کندھے پرسوزش یا کوئی اور جِلدی مسئلہ ہوتا ہے سکن کا یہ ردِعمل اس بات کی علامت ہوتا ہے اس جگہ پر توانائی پٹھے کے کھچاؤ، سختی یا غدود کی شکل میں اندر رکی ہوئی تھی اور اب سطح پر آ رہی ہے اور ختم ہو رہی ہے۔ اس عمل سے متاثرشدہ جوڑ یا پٹھہ پہلے سے زیادہ لچکدار اور مضبوط ہو گا۔ تاہم اگر خودکار نظام میں مداخلت کی جائے اور سخت دواؤں کے ذریعے اسے وقت سے پہلے ہی سپریس یا ختم کر دیا جائے تو وہ غدود جسم کے اسی حصے میں ہی رہیں گے۔ اس میں درد کا احساس جاری رہے گا اور کمزوری بڑھتی رہے گی۔
چنانچہ عام طور پر جلدی امراض اور علاج کے دوران ظاہر ہونے والی علامات میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ مسئلہ مزید گہرائی میں جا کر اندرونی اعضاء اور جسمانی ساخت کو متاثر کرے گا۔ معالجین نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ ورم شدہ جوڑ پر مصنوعی طور پر سوزش پیدا کرنے سے جوڑ میں بہتری آئی لیکن جب جب سوزش کو مصنوعی طریقے سے ختم کیا گیا تو جوڑ میں ورم کی علامتیں دوبارہ ظاہر ہوئیں۔
شفایابی کے عمل کو روکنے کے لیے بھاگ دوڑ کرنے کی بجائے آپ اس عمل کا صبر و تحمل سے مشاہدہ کر کے اپنے جسم، اپنی صحت کے مسائل اور اپنی جذباتی مدافعت کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ آپ کو کیا کرنا چاہئے؟
صحت مند طرز زندگی اپنائیں
جسم کو صاف رکھیں
دبی ہوئی (دوائیوں کے ذریعہ سپریس) یا اندروانی بیماریوں کو باہر آنے اور ختم ہونے میں مدد دیں اور اس سارے عمل کے بارے میں اچھا گمان رکھیں۔
علاج کے آغاز میں اکثر پھوڑے یا نزلہ زکام کھانسی وغیرہ ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی کبھی یہ علاج شروع کرنے کے ایک سے دو ہفتے بعد شروع ہوتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جسم کے اس حصے میں خون یا مواد جمع ہوا تھا جو خارج ہو رہا ہے۔ اس طرح کے شفایابی کے ردِعمل ہفتوں، مہینوں یا کبھی کبھی سالوں بعد ہمیں بہتر صحت کی منزل سے قریب کرنے کے لیے آتے ہیں۔
اپنے جسم کی پکار کو سنیں
صحت کی بحالی کےعمل میں بہت سے مسائل آ سکتے ہیں۔ ہومیوپیتھی علاج سے پہلے جسم عام طور پر سخت اور کیمیکل ادویات یا غیر صحت مند غذاؤں کا اتنا عادی ہو چکا ہوتا ہے کہ کوئی خرابی محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن ہومیوپیتھک علاج کے ساتھ وہی غذائیں کھانے سے جسم فوری اور شدید ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔ پیٹ خراب ہو جاتا ہے یا ہم کچھ دن کے لیے بیمار پڑ سکتے ہیں۔ اگر ہم ان چھوٹے چھوٹے مسائل کو دوائیوں کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش نہ کریں یہ زیادہ دیر تک نہیں رہتے اور خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا جسم آپ پر بھروسہ کرنے لگا ہے کہ آپ اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اگر آپ اس کی بات نہیں سنتے اور صحت مند طرز زندگی نہیں اپناتے تو وہ ناراض ہو جائے گا اور تمام معاملات دماغ کے حوالے کر دے گا۔ یہ آپ کے جسم کی موثر ترین زبان ہے۔
اس بات کو ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جب مرض کو دبا دیا جائے تو ظاہری علامات تو ختم ہو جائیں گی لیکن ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی علامات اور بیماریاں ظاہر ہونے لگیں گی۔ تاہم اگر ہم اپنے جسم کی پکار سننے کی کوشش کریں تو وہ بہت مناسب انداز میں اپنی ضروریات کے بارے میں بتائے گا۔ کبھی پیٹ میں گڑ گڑ ہو گی، کبھی ہلکی پھلکی خارش یا سوجن، معمولی سا اعصابی کھچاؤ یا پھر چھوٹی موٹی درد۔ جسم مختلف طریقوں سے ہم سے بات کرتا ہے اور ہر طریقہ مختلف علامات رکھتا ہے۔ اگر ہم اپنے جسم سے دوستی کرنے کے لیے سچے دل اور مستقل مزاجی سے کوشش کرتے رہیں تو آہستہ آہستہ ہمیں اس کی زبان سمجھ آنے لگے گی۔ ہمیں خود بخود اندازہ ہونے لگے گا کہ ہمارے جسم کو کیا چاہیے اور کیا چیز اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہماری ملاقات اپنے آپ سے ہو گی اور ہم خود کو سمجھنے لگیں گے۔
یہی وہ منزل ہے جس کے لیے ہمیں کوشش کرنی ہے۔ ہمیں غیر ضروری باتوں کو نظرانداز کرنا ہے اورسننا ہے کہ ہمارا جسم کیا کہتا ہے۔ ہمیں وہی کرنا ہے جو ہمارا جسم بتاتا ہے کہ ہمارے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ صرف کھانے پینے کی حد تک نہیں بلکہ روزمرہ معاملات میں بھی ہمیں اپنے اندر کی آواز سننی ہے اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔
عام طور پرتکلیف دہ بیماریوں سے آرام تو جلدی آ جاتا ہے لیکن ایک صحت مند اور مضبوط جسم کی بحالی کا عمل سست ہوتا ہے اور اس کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ ہر شخص کی صحت یابی کا عمل مختلف ہوتا ہے اور اس کے لیے اسے مختلف تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ عمل کئی مہینوں پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ اس دوران انسان کو ہمت اور ثابت قدمی سے صحت کے حصول کے لیے کوشاں رہنا ہوتا ہے۔ عام طور پر نئی یا سب سے آخر میں لاحق ہونے والی بیماریاں اور ان سے پیدا ہونے والی کمزوریاں سب سے پہلے ظاہر ہوتی ہیں اور جلد ٹھیک ہو جاتی ہیں۔ زیادہ پرانے اور بڑے یا دائمی امراض دیر سے ٹھیک ہوتے ہیں۔
صحت کی بحالی کے اس پورے عمل میں ایک خاص ترتیب نظر آتی ہے۔ یہ پورا عمل ایک بلند چوٹی سر کرنے جیسا ہے جس میں بہت سے اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ کبھی لگتا ہے ہم بالکل ٹھیک ہو گئے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم خود کو بیمار اور کمزور محسوس کرتے ہیں۔ تاہم یہ تمام تبدیلیاں صحت یابی کے عمل کا حصہ ہیں۔ ہمارا جسم ہمیشہ اپنی مرمت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سوجن اس کا سب سے اہم ہتھیار ہے۔ سوجن سے ہماری خون کی نالیوں کی دیواریں پھول جاتی ہیں۔ زہریلے مادوں کو خارج ہونے میں مدد ملتی ہے اور قوت مدافعت بڑھتی ہے۔ علاج کے دوران اس طرح کی سوجن وقتی ہوتی ہے۔ اگر ہم ذہنی طور پر مطمئن رہیں اور متوازن غذا لیتے رہیں تو یہ سوجن ہماری صحت کی بحالی میں بہت اہم کردار ادا کرے گی۔ اگر ہم دواؤں کے ذریعے اس سوجن کو ختم کر دیں گے تو یہ دوبارہ سے ایک تکلیف دہ اور دائمی بیماری کی شکل اختیار کر لے گی۔
یہی وجہ ہے کہ کسی بھی متاثرہ عضو پر اچانک ہونے والی سوزش کو فوری طور پر ختم کرنے کی کوشش کرنا، اس عضو کی صحت یابی کے عمل میں رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے۔ نہ صرف اینٹی بائیوٹک بلکہ مختلف قسم کی اینٹی ڈپریشن دوائیں، انٹی الرجی اور ملٹی وٹامن بھی صحت کی بحالی کے قدرتی عمل کو روک دیتی ہیں۔ کسی عضو کی بحالی کے لیے ہونے والی سوزش یا تکلیف کو برداشت کرنا وہ قیمت ہے جو ہمیں مکمل صحت یابی کے لیے ادا کرنی پڑتی ہے۔
تاہم شدید تکلیف کی صورت میں اندر کے سگنلز کو سمجھتے ہوئے ہم ایسی ادویات استعمال کر سکتے ہیں جو immune system کو کام کرنے میں مدد دیں اور سسٹم کے ساتھ مل کر بیماری کے خلاف جنگ کریں یہاں تک کہ ہمارا جسم صحت کی بحالی کے سفر میں آنے والی تکالیف کو برداشت کرنے کے قابل ہو جائے۔
اگر آپ نے یہ تفصیل پڑھ سمجھ لی ہے تو یقیناً جان چکے ہیں کہ بیماریوں سے نکل کر صحت کے دوبارہ حصول کا کوئی آسان اور سادہ راستہ نہیں ہے۔ ہمیں صرف یہ فیصلہ اور انتخاب کرنا ہے کہ ہم کس طرح سے برداشت کرنا چاہتے ہیں؟
اچھی صحت حاصل کرنے کے سفر میں وقتی مسائل اور قابلِ برداشت لیول کی تکلیفوں کو خوشی سے برداشت کر سکتے ہیں۔
یا پھر
بگڑتی ہوئی صحت اور بیماریوں کا بے لگام انداز سے مسلسل بڑھنا برداشت کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ فیصلہ آپ کا ہے !!! ۔۔۔