جارج وتھالکس بنیادی طور پر سول انجینئر ہیں ۔ آپ یونان کے شہر ایتھنز میں 1932 ء میں پیدا ہوئے۔  1959 ء میں وہ حادثاتی یا اتفاقی طور پر ہومیوپیتھی سے متعارف ہوئے اور پھر اسی کے ہو کر رہ گئے۔ آپ نے 1966ء میں انڈین انسٹیٹیوٹ آف ہومیوپیتھی سے ڈپلوما حاصل کیا۔
آپ نے 1976 ء میں یونانی زبان میں جریدہ ’’ہومیوپیتھک میڈیسن‘‘ کا اجراء کیا۔
آپ بہت ساری کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں’’سائنس آف ہومیوپیتھی‘، میڈیسن آف نیو مین کا لاتعداد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ آپ کی کتاب میٹریا میڈیکا وائیوا کی گیارہ جلدیں مکمل ہو چکی ہیں جبکہ پانچ جلدوں پر ابھی کام جاری ہے۔
جارج وتھالکس کو 1996ء میں ۔ سویڈن کی حکومت کی طرف سے Right Livelihood Award دیا گیاجو دنیا ئے ہومیوپیتھی میں کسی کو ملنے والا سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔ اس ایوارڈ کو متبادل نوبل پرائز بھی کہا جاتا ہے۔
جرنلسٹ پیٹر کلوٹن اور سموسن فائیفر نے جارج وتھالکس کی سوانح حیات لکھی ہے۔ سموسن فائیفر جارج کی سٹوڈنٹ ہومیوپیتھ ہے۔
قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لئے آج کے دور کے ماسٹر ہومیوپیتھ کے افکار و نظریات کو پیش کیا جا رہا ہے جن کا اظہار موصوف نے مختلف انٹرویوز اور تحریروں میں کیا ہے۔

درج ذیل خیالات کا اظہار جارج وتھالکس نے نینسی کرسٹی کو دیئے گئے انٹرویو میں کیا۔

نینسی: جارج! آپ ایک طویل عرصے سے ہومیوپیتھی سے وابستہ ہیں؛ کیا آپ کی زندگی میں کبھی ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب آپ کو اپنے اس فیصلے پر تاسف ہوا ہو؟
جارج: اس وقت جب کہ میری عمر پچھتر سال ہے اور اس کے باوجود کہ بچپن میں میری صحت بہت کمزور تھی۔ میں نے آج تک کوئی رسمی یا رواجی دوا (Conventional Medicine ) استعمال نہیں کی
1/6
تاہم جو خوشی مجھے مزمن امراض میں مبتلا ان ہزارہا مریضوں کا علاج کر کے حاصل ہوئی ہے اس کا اس بات سے کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
نینسی: آپ کے بیان کے مطابق ہومیوپیتھی کا تعلق بے داغ اور خالص

(Pure) دوا سے ہے اور ایلوپیتھک دوائیں درست اور مثبت نتائج مرتب نہیں کرتیں۔کیا آپ واضح کریں گے کہ بے داغ اور خالص (Pure) دوا سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟
جارج: ایسے ڈاکٹر جو ہومیوپیتھک طریقہ اپناتے ہیں وہ آج کے دور میں وہ سارے تشخیصی طریقے اپناتے ہیں جو دوسرے ڈاکٹر اپناتے ہیں لیکن علاج کے حوالے سے ان کی اپروچ ہومیوپیتھی ہوتی ہے ایلوپیتھی نہیں۔اور اگر آپ کو دو ایسے علاجوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو کہ جس میں نہ سائیڈ ایفکٹس ہوں نہ مرض دب کر مریض میں خرابیاں پیدا کرے۔ تو آ پ یقیناًاس علاج کو ہی ترجیع دیں گے۔ تو کیا ایسے طریقہ علاج کو جوقدرتی ہے،بے ضرر اثرات سے مبرا ہے اسے بے داغ اور خالص نہیں کہنا چاہیے؟میری اس سے یہی مراد ہے۔
نینسی: کہا جا سکتا ہے کہ ہومیوپیتھی کے سب سے بڑے نقاد ایلوپیتھک ڈاکٹرز ہیں۔آپ کے خیال میں اگر یہ طبقہ ہومیوپیتھی کا قائل ہو جائے اور مل جل کر کام کرنے پر راضی ہو جائے تو اسے ہومیوپیتھی سے کیا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟
جارج: یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ لوگ نیک نیتی سے ہومیوپیتھی کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔کیونکہ ماضی میں جس کسی نے بھی ہومیوپیتھی کو سمجھنے کے لئے غیر متعصبانہ انداز میں اس پر تنقید کی وہ نہ صرف اس کا قائل ہو گیابلکہ اس نے ہومیوپیتھی کو اپنا لیا۔دنیائے طب اگر سنجیدگی سے ہومیوپیتھک طریقہ علاج کو سمجھنے اور اسے بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے کام میں لانا چاہے تو یہ کچھ کھونے کی بجائے کچھ حاصل کرے گی۔ہاں اگر خطرہ محسوس کرتی ہیں تو وہ فارما سیوٹیکل کمپنیاں ہیں یا ایسے افراد جن کے مفاد اس سے وابستہ ہیں۔
نینسی: آپ نے دونوں شعبہ ہائے طب میں باہم اتفاق سے کام کرنے کو کہا ہے۔ عملی طور پر یہ کیسے ممکن ہے؟مثلا شعبہ امراض دندان میں یہ کیسے ہو گا؟
جارج: آپ نے اس شعبہ کا ذکر کیا ہے تو میں آپکو بتاتا چلوں کہ ابھی حال ہی میں (یونان میں) ایک ماہر امراض دندان نے ارسطو لین یونیورسٹی میں امراض دندان پر اپنا مقالہ جمع کروایا ہے۔مقالہ کا موضوع ہے’’کھوپڑی اور جبڑوں کی ہڈیوں کی بیماریوں میں ہومیوپیتھی کا کردار‘‘۔اس مقالے کو ایگزامینیشن بورڈ نے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا ہے۔یہ ایک مثال ہے جو میں نے آپکو دی ہے۔
نینسی: آپ نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں فرمایا ہے کہ ہومیوپیتھک دواؤں کا ایکشن (بڑی حد تک) پلاسبو اثرات (Placebo effects) کا حامل ہے۔ کیا ایسا کہنا ہومیوپیتھی پر لگائے گئے ان الزامات کو تقویت نہیں دیتا جو کہتے ہیں کہ ہومیوپیتھی
2/6
(Auto Suggestive Therapy)خود ترغیبی علاج کے سوا کچھ نہیں؟
جارج: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض امراض یا شکایات ایسی ہوتی ہیں جو بغیر دواؤں کے ہی ٹھیک ہو جاتی ہیں۔انہیں (Self healing) کہاجاتاہے۔ یا کچھ لوگ محض اپنے عقیدے کی مضبوطی کی بنا پر یا خدا پر یقین رکھتے ہوئے یا کسی پیر فقیر کی خانقاہ پر جاکرجھاڑ پھونک سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔در اصل ایسے عمل ان کی خود حفاظتی نظام میں ارتعاش یا تحریک کا سبب بنتا ہے۔
اس سے ملتا جلتا تحریکی اثر ہومیوپیتھک دوائیں جسم کے دفاعی نظام میں پیدا کرتی ہیں۔(لیکن دونوں میں ایک خفیف فرق ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے) خود ترغیبی علاج میں یہ اثر صرف ان استسنائی حالتوں میں پیدا ہوتا ہے جہاں مریض اس علاج کا قائل ہوتا ہے۔ یا اس کے اندر اس بات کا مثبت احساس جنم لے چکا ہوتا ہے کہ وہ درست جگہ پر آگیا ہے اور اسے یہاں سے شفایابی ہو گی۔اور ایسی کیفیت کسی بھی موقع پر کسی شخص میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔اور وہ شفایاب ہو سکتا ہے۔میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ فرض کریں ایک ایسا شخص جو مدتوں سے بیمار ہو اور اچانک اپنی گمشدہ محبت پا لینے پر بیماریوں سے نجات حاصل کرلے۔لیکن جیسا کہ میں نے کہا ایسے کیس استسنائی ہوتے ہیں۔
اگر چہ ہومیوپیتھک دوائیں بھی اس سے مشابہ تحریک پیدا کرتی ہیں لیکن اس میں مریض کی مرضی یا رضا کا شامل ہونا ضروری نہیں۔ حقیقی دوا نامیاتی جسم (ORGANISM) پر جو ارتعاش لاتی ہے وہ اگر چہ پلاسبو اثر کے مشابہ ہوتا ہے لیکن اس سے نہ صرف کہیں گہرا اور شدید ہوتا ہے بلکہ یہ ارتعاش مریض کے ہومیوپیتھی طریقہ علاج پر یقین رکھنے یا نہ رکھنے سے بالا تر ہوتا ہے۔
پلاسبو وقوعے (Placebo Phenomenon) میں مریض کا طریقہ علاج پر متفق ہونا اور اسے قبول کرنا ضروری ہوتاہے۔اور اس طریقہ سے معمولی نوعیت کے عارضوں سے وقتی طور پر چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔(تاہم گہرے اور مزمن امراض کا علاج ناممکن ہے)جبکہ کثیر توانائی کی حامل ہومیوپیتھک دوائیں جب ایک ماہر ہومیوپیتھ کے زیر نگرانی تجویز کی جاتی ہیں تو وہ مرض کو تہہ سے ختم کر کے مکمل شفایابی عطا کرتی ہیں۔

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter