ہم آئے دن کلینک میں اپنے مریضوں سے یہ سنتے آئے ہیں، ڈاکٹر صاحب بس ایک دفعہ میرے مرض کی تشخیص ہو جائے پھر علاج کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
غور کرنا ہو گاکہ مریض کا تشخیص سے کیا مطلب ہے؟
تشخیص یعنی بیماری کا پتا چلانا بالعموم ایلوپیتھک پس منظر میں بولا جاتا ہے جب کہ ہومیوپیتھی میں اس کا مطلب مختلف ہے۔
ایلوپیتھی میں تشخیص کا مطلب اس وائرس، بکٹیریا، مائکروب وغیرہ کا کُھرا ڈھونڈنا ہو تا ہے جو (ان کے خیال میں) بیماری کا اصل سبب ہوتا ہے۔
اگر سراغ مل جائے تو اس کا توڑ کرنے والی انٹی بائیوٹک، انٹی وائرل یا انٹی الرجک دوا تجویز کی جاتی ہے۔اس مقصد کے لیے مختلف لیب ٹیسٹس، ایکس رے، سی ٹی سکین اور بے شمار ٹیسٹ اسی سلسلے کی کڑی ہیں اور اگر سراغ نہ ملے تو بیماری پر لاعلاج (یا الرجی) کا لیبیل لگا کر فائل بند کر دی جاتی ہے۔ یا مریض کو ساری عمر کے لیے کارٹی زون وغیرہ کے سہارے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ان ٹیسٹ کے حق میں بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا ہے اور یقیناً ان کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں، ہومیوپیتھی کو بھی نہیں۔
طبِ ایلوپیتھی نے تشخیص اور سرجری میں بہت زیادہ ترقی کر لی ہے۔ بات ٹشو اور خلیے سے نکل کر جینز، ڈی این اے اور آر این اے تک جا پہنچی ہے اور شاید یہاں بھی ختم نہیں ہو گی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آیا بیماریوں پر تسلی بخش حد تک قابو پایا جا چکا ہے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔
ہمیں غور کرنا ہو گا، ایسا کیوں ہے؟
اب ہم ہومیوپیتھی کی طرف آتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے علامہ اقبال کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے۔
گذر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
بدقسمتی سے طبِ ایلوپیتھی اب تک اس غلط فہمی سے باہر نہیں آ سکی۔
اس کا سارا زور عقل پر ہے۔ عقل کے بل بوتے پر اس نے اتنی ترقی کی ہے کہ ہمالیہ کی چوٹیاں بھی اس کے آگے ماند پڑ گئی ہیں لیکن وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں۔وہ سمجھنا نہین چاہتی کہ زندگی باطن میں ہے، ظاہر میں نہیں، مرض تہہ میں ہے سطح پر نہیں۔سطح پر تو محض اپنی موجودی کا اظہار کرتا ہے۔ جیسے زلزلہ تو سینکڑوں میلوں پر محسوس کیا جاتا ہے لیکن اس کا مرکز زمین کے نیچے کہیں اَور ہوتا ہے۔
جیسے آپ زندگی کو نہیں دیکھ پاتے ویسے ہی آپ کو مرض نظر نہیں آتا۔
وہ اپنی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے بیماری کی ایک ایک کارستانی کو دیکھ تو رہی ہے لیکن کچھ نہیں کر پا رہی۔ وہ مرض کو مدِ نظر رکھ رہی ہے لیکن مریض کونظرانداز کر رہی ہے۔
ہومیوپیتھی کا ایلو پیتھی سے بڑا اختلاف ہی یہی ہے کہ مریض کو کسی صورت نظرانداز نہیں کی جا سکتا۔ آپ مکان چاہے جتنا اچھا بنا لیں، لیکن اگر مکین مطمئن نہیں تو کیا فائدہ؟
آپ سب کو ایک ہی لاٹھی سے کیسے ہانک سکتے ہیں؟
کیا ساری دنیا میں سب لوگ ایک جیسے مکانوں میں رہتے ہیں؟
کیا ہمیں اکثر(اپنے ایلوپیتھک ڈاکٹرسے) یہ سننے کو نہیں ملتا؟
Tests are ok but patient is not ok
سارے مسئلے کا حل اسی بات میں پوشیدہ ہے ، مریض اہم ہے یا مرض؟
مریض پہلے ہے یا مرض؟
کیا محض لیب ٹیسٹ کی بنیاد پر کسی شخص کو شفایابی کی سند دی جا سکتی ہے؟ (چاہے مریض اپنے آپ کو بیمار سمجھتا ہو)
ہومیوپیتھی نظریہ علاج کے مطابق مریض اولین ترجیح ہے۔ ہومیوپیتھی اگرچہ ہر بکٹیریا، وائرس وغیرہ پر یقین رکھتی ہے لیکن انہیں کلی سبب نہیں گردانتی۔ اس کے نزدیک مریض کا مزاج، ماحول اور وہ کیفیات اور حالات بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنا بکٹیریا۔ ہومیوپیتھی گھر کو مضبوط بنانے کی قائل تو ہے لیکن مکینوں کی ضروریات اور تحفظ اس کی اولین ترجیح ہے۔
ہومیوپیتھی عقل کو چراغِ راہ جب کہ ایلوپیتھی منزل سمجھتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جس دن طبِ ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی کو ساتھ لے کر چلے گی اور اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ترک کر دے گی وہ دن انسانیت کی فلاح کا دن ہو گا اور صحیح معنوں میں طب کی دنیا میں انقلاب برپا ہو گا۔
نہ جانے ہم فاماسیوٹیکل انڈسٹری کے طلسمی شکنجے سے کب باہر آئیں گے؟ جس نے ساری دنیا کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔
ڈاکٹر بنارس خان اعوان