بچوں کے جذباتی، ذہنی اور نفسیاتی مسائل اور ہومیوپیتھک علاج

محترم ڈاکٹر بنارس خان اعوان نے دو کیس پیش کئے ہیں۔ ایسے کیس / بچے ہر دوسرے گھر میں موجود ہیں۔ والدین کو سمجھ نہیں آتی کہ ایک جیسی تربیت، ماحول اور خوراک کے باوجود اِن کے مزاجوں میں یہ بُعد المَشرقین کیوں اور کیسے؟ ہومیوپیتھی ایسے مسائل کا حل بڑی خوبی اور خوب صورتی سے کرتی ہے۔ باقاعدہ ہومیوپیتھک علاج سے ایسے بچوں کے مزاج میں توازن لایا جائے تو اِن کی شخصیت اور مستقبل کی زندگی کافی مسائل سے بچ جاتی ہے۔ اب آپ تفصیل ملاحظہ کیجئے! (حسین قیصرانی)

میرے دو بیٹے ہیں۔ میں آپ کے سامنے دونوں کا ناک نقشہ پیش کرتا ہوں۔ آپ نے دونوں کی ڈرگ پکچر بتانی ہے۔

بڑا بیٹا:

پڑھائی میں اگرچہ اچھا ہے لیکن تنقید ذرا برداشت نہیں کرتا۔ جب اس کی غلطیوں کی نشان دہی کی جائے تو چِڑ جاتا ہے۔ جھجک، غصے اور احساسِ کمتری کا مارا ہوا۔ باڈی اور جسامت کے حساب سے کمزور ہے، اور اس بات کو بہت محسوس کرتا ہے۔ اس نے جِم بھی جوائن کی ہوئی ہے اور جوڈو کراٹے بھی سیکھ رہا ہے۔ چھوٹے بہن بھائیوں کی پٹائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ہمارے (والدین کے) ساتھ آئے دن اس کی اَن بَن لگی رہتی ہے۔ لکھائی میں ہجوں کی بہت غلطیاں کرتا ہے۔ جب ٹیچر اس کی غلطیوں کی نشان دہی کرے تو بُرا مناتا ہے بلکہ اکثراوقات محض اس ڈر سے کہ غلطیاں پکڑی جائیں گی ہوم ورک ہی نہیں کرتا اور بہانے بازی پہ اُتر آتا ہے۔  رزلٹ کے دن قریب آتے ہیں تو اس کے سر پر فیل ہو جانے کا خوف سوار ہو جاتا ہے۔ کلاس میں دوسروں کو تقریر لکھ کر دے دیتا ہے لیکن خود نہیں کرسکتا۔

صبح اس کی والدہ اسے سَو سَو جَتن کر کے جگاتی ہے۔ اَدھ کھلی آنکھوں سے سوتا اور جاگتے ہی شہزادے کا مُوڈ آف ہوجاتا ہے۔ ایک بار چھوٹے بھائی نے اسے جگانے کی کوشش کی تو اس نے جاگتے ہی اُسے ایک تھپڑ جڑ دیا۔

محلے کے بچوں کی کرکٹ ٹیم کا خود ساختہ کیپٹن ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی ٹیم میں سب بچے اس سے کم عمر ہوں تاکہ انہیں اپنے رُعب تَلے رکھا جا سکے۔ موصوف نوابی شان رکھتے ہیں۔ گھر میں نہ اکیلے کمرے میں سوتا ہے نہ اندھیرے میں۔ بھوت پریت سے بھی خوب ڈرتا ہے۔ اگر پوچھیں کہ کیا تمہیں ڈر لگتا ہے؟ بولے گا، نہیں۔ نہ غلطی مانتا ہے نہ کوئی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ کہیں آنا جانا ہو تو خوب بَن ٹَھن کر تیاری کرتا ہے۔ امی! مَیں کیسا لگ رہا ہوں؟ اس کا اکثر سوال ہوتا ہے۔

اس کی انگھوٹھا چُوسنے کی عادت ہم نے بڑی مشکلوں سے چُھڑائی۔ اِسے ہم ماہرِ نفسیات کو بھی دکھا چکے ہیں، اُس کا کہنا تھا کہ اسے آپ کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، آپ کے ڈانٹنے اور لعن طعن سے یہ احساسِ کمتری کا شکار ہوتا ہے اور اس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ چھوٹے کی نسبت یہ ایک دم ہمت ہار جاتا ہے۔ ماہرِ نفسیات کی رائے میں ہم نے اپنے دونوں بچوں کو رُعب، دَبدبے اور جبر میں رکھا ہوا ہے۔ اور اِس کی یہ حالت اِسی وجہ سے ہے۔

سر درد اِسے اکثر رہتا ہے۔ خاص طور پر بھوک لگنے پر اگر کھانا نہ ملے تو سردرد آ موجود ہوتا ہے۔ میٹھا انڈا یا چینی پُراٹھا اس کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ ہم اس کی فرمائش پر زیتون کا اَچار اس کے لیے لاتے ہیں۔ گرما گرم جلیبیاں اور گلاب جامن دیکھ کر تو اس کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے۔ ہمارے اِصرار پر روزانہ دانتوں کو برش کرتا ہے پھر بھی اس کے دانت سفید نہیں ہوتے۔

 ENT ڈاکٹر کے پاس اسے اکثر لے جانا پڑتا ہے۔ ہمیں اس کے نزلے زکام سے بہت ڈر لگتا ہے کیونکہ نزلہ ہونے پر فوراً اس کی چھاتی پکڑی جاتی ہے اور پھر انٹی بائیوٹکس کے کئی کورس۔

یہ ڈاکٹر کے پاس جانے پر بھی گھبراتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے نیچے حلقے پڑ گئے ہیں۔ ایک بات اَور، ویسے تو اس کا پاخانہ ٹھیک رہتا ہے  لیکن جب بھی سفر پر کہیں آنا جانا ہو تو اسے قبض ہو جاتی ہے۔

 

چھوٹا بیٹا:

یہ نہایت ہی شریف، تابع فرمان اور کم گو بچہ ہے۔ ہماری آنکھ کے اِشارے سمجھ لیتا ہے۔ ضد کرے بھی تو سمجھانے پر مان بھی جاتا ہے۔ کاپی، کتابیں، بستہ سنبھال کر رکھتا ہے اور ٹیچر کو شکایت کا موقع نہیں دیتا۔ اس نے دانت تو وقت پر نکالے لیکن باتیں ذرا دیر سے شروع کیں۔ جسم کے میک اَپ، کپڑوں اور رَکھ رکھاؤ کا خوب خیال رکھتا ہے۔ اس کے ہر کام میں نفاست نظر آتی ہے۔

ایک بار اسے دوسری جماعت میں ٹیچر نے بِلا وجہ سزا دی۔ بچے سے یہ بے عزتی برداشت نہ ہو سکی اورسکول جانے سے انکار کردیا، ہزار منتوں کے باوجود نہ مانا اور ہمیں آخرکار سکول بدلنا پڑا۔

امتحان کے دنوں میں بڑا بیٹا تو نقل بھی لگا لیتا ہے لیکن ہمیں اِس کی ایسی شکایت کبھی نہیں ملی۔ تاہم وائیوا میں دونوں بچے جواب دیتے وقت نروس ہو جاتے ہیں۔ دونوں کو اس بات کا بہت خوف ہوتا ہے کہ ان کی غلطیوں کی نشان دہی ہونے پر ان کی سُبکی ہو گی۔

بڑے والے کے دوستوں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور آئے دن اس کے دوست بدلتے بھی رہتے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس چھوٹے کے کئی سالوں سے تین دوست ہی چلے آرہے ہیں۔ چھوٹا والا دوستیاں بناتا کم لیکن نبھاتا خوب ہے۔ خود کسی کو چھوڑتا نہیں لیکن جو چھوڑ جائے اس کے پیچھے بھی نہیں جاتا۔ جو وعدہ کیا پورا کیا۔ جب کہ بڑا والا ہر جھوٹا سچا وعدہ کرنے میں تیز ہے، سجی کھبی بھی دکھا جاتا ہے، موقع ملنے پر ہیرا پھیری سے بھی باز نہیں آتا۔ ہمیں اس کی باتوں پر ذرا اعتبار نہیں آتا، نوسَرباز ہے پورا۔

بڑا والا قدرے ڈھیٹ ہے لیکن چھوٹے کو ڈانٹ پلانے سے پہلے ہمیں سوچنا پڑتا ہے کیونکہ یہ ڈانٹ کھا کر پہروں کُڑھتا رہتا اور چُپ سادھ لیتا ہے اور پھر اس کی نیند اُڑ جاتی ہے۔ ہم نے نوٹ کیا ہے جب یہ ٹینشن میں ہوتا ہے تو اسے کھانسی لگ جاتی ہے۔ دونوں کتابی کیڑے ہیں۔ ٹیوبرکولینم بچوں کی مانند اسے بھی جانوروں سے پیار ہے۔

اندھیرے، تنگ جگہوں، بجلی کی گرج چمک، کیڑوں مکوڑوں سے خوف زدہ رہتا ہے۔ نیند میں بے چین رہتا اورباتیں کرتا ہے، کبھی کبھی نیند میں چلتا بھی ہے۔ دائیں کنپٹی میں اکثر سر درد کی شکایت کرتا ہے۔ جب سکول سے لَوٹتا ہے اس وقت درد زیادہ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نے اسے دھوپ میں چلنے پھرنے سے منع کیا ہے۔ ویسے بھی اسے گرمی اور پیاس بہت لگتی ہے، ٹھنڈے یخ پانی کی پیاس۔ سردرد کے دوران نظر دھندلا جاتی ہے۔ اس کی آنکھیں زیادہ لائٹ برداشت نہیں کرتیں، چُندھیا جاتی ہیں۔ نزلہ زکام بھی اسے اکثر رہتا ہے اور ناک سے پتلا شفاف پانی آتا ہے۔ دھوپ میں چھینکیں بڑھ جاتی ہیں۔ چہرے پر اور خصوصاً ماتھے پر دانے ہیں۔ ڈاکٹر نے بتایا ہے اسے خون کی کمی بھی ہے۔ چھوٹی سی عمر میں اِس قدر احساسِ ذمہ داری اور اِتنا رکھ رَکھاؤ؟ کبھی کبھی تو ہمیں حیران کر دیتا ہے۔

 


بڑے بیٹے کی علامات ہومیوپیتھک دوا لائیکوپوڈیم کی طرف راہنمائی کرتی ہیں جبکہ چھوٹے بیٹے کی دوا نیٹرم میور بنتی ہے۔

دوا کا صحیح انتخاب ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں نہایت ہی اہم ہے تاہم کسی دوا کی پوٹینسی کیا دی جائے اور دوا کا اِستعمال کتنی دفعہ اور کس طرح کروایا جائے، یہ معاملہ ایک ماہر ہومیوپیتھک ڈاکٹر اپنے تجربے اور مریض کی صورتِ حال کو مدِ نظر رکھ کر کرتا ہے۔

https://www.facebook.com/bahria.homeopathy/videos/1346968425410341/

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter