بچوں میں شدید غصہ، چیزیں پھینکنا، نوچنا، اعتماد کی کمی، معمولی بات پر رونا اور چیخنا چلانا – کامیاب کیس، دوا اور علاج – حسین قیصرانی

مارچ کے ابتدائی دنوں میں ایک فیملی اپنے ڈھائی سالہ بیٹے کے مسائل ڈسکس کرنے تشریف لائی۔ اُن کی نظر اور خیال میں بیٹے کی تکالیف یہ تھیں:
1۔ رات کے دوسرے پہر بچے کو بخار ہو جاتا تھا اور بچہ ٹانگوں / ہڈیوں کے درد کی شکایت بھی کرتا تھا۔ یہ بخار اور ٹانگوں کا درد بغیر کوئی دوائی دیے سورج نکلتے ہی بالکل ٹھیک بھی ہو جاتا تھا۔
2۔ منہ میں متواتر چھالے اور السر (Ulcers) بن رہے تھے یعنی منہ پک جاتا تھا۔
3۔ بچے کو سانس کی تکلیف تھی جس سے دودھ وغیرہ پینا مشکل ہو رہا تھا۔ شاید گلا (Throat) بھی خراب تھا۔
4۔ ناک بند ہونے (Nose Blockage) کی شکایت تھی۔
5۔ شدید غصہ، چیزیں اُٹھا اٹھا کر پھینکنے اور نوچنے کی عادت بہت ہی خطرناک صورت حال اختیار کر گئی تھی۔ مستقل بے چینی (Restlessness) اور بے قراری تھی ۔
6۔ بال بہت زیادہ گر (Hair fall) رہے تھے۔ پلکوں تک کے بال بھی کمزور ہونے کے وجہ سے ختم ہوتے جا رہے تھے۔
7۔ رات کو بہت زیادہ دانت پیستا (Teeth Grinding) ہے۔ دانت اتنا زیادہ اور زور لگا پر رگڑتا ہے کہ لگتا ہے کہ دانت ٹوٹ جائیں گے۔ اس کیفیت سے احساس ہوتا ہے کہ اسے رات کو سوتے ہی کچھ اندرونی تکلیف یا مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔
8۔ بچے کے سارے مسائل رات کو کچھ زیادہ ہی ڈسٹرب کرتے ہیں۔ سوتے ہوئے بھی آرام سکون نام کی کوئی چیز نہیں۔ تھوڑا سی کوئی تبدیلی ہوئی نہیں تو یہ جاگا نہیں۔ دروازہ کھولنے یا بند کرنے میں جتنی بھی احتیاط کر لی جائے، یہ فوراً اٹھ جاتا ہے۔
بچے کا تفصیلی کیس لیا گیا تو کہانی کچھ یوں بنی۔
اِسے کبھی بھی کسی قسم کی کوئی دوائی نہیں دی گئی تھی۔ والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ما شاء اللہ سے خوش حال بھی۔ خود والدہ بھی علاج معالجہ سے متعلق رہی ہیں۔ ایک ہیلتھ کانفرنس میں میرا اور میرے علاج کے طریقہ کار کا ذکر کسی ڈاکٹر صاحبہ سے سنا اور اُن کی ایک دوست نے بھی میرے کام کی تعریف کی تو سوچا کہ چیک اپ کروا لیا جائے۔یہ فیملی لاہور کے مضافات میں اپنے فارم ہاؤس پر رہائش پذیر تھی۔ یوں تو تھوڑے بہت مسئلے بچے کے ساتھ پہلے بھی تھے لیکن کراچی کے بھرے پُرے ماحول سے لاہور آنے پر بچہ کچھ زیادہ حساس ہو گیا۔ وہ ایک نفیس بچہ تھا جس سے کسی سلجھے ہوئے بڑے بچے کی طرح ڈیل کیا جاتا رہا تھا۔ کبھی کبھار بہت زیادہ غصہ میں بھی آ جاتا تھا۔
گھر کافی کھلا ہے سو باغات اور درخت موجود ہیں جن میں خوب دوڑ بھاگ کرتا ہے۔ کیچڑ مٹی میں کھیل کر بہت ہی خوش ہوتا ہے۔ دن میں پانچ چھ بار خود ہی لیموں (Lemon) توڑ توڑ کر کھاتا رہتا ہے۔ یہی کیفیت کینو فروٹر (Oranges / Citrus Fruits) کے معاملہ میں بھی ہے۔ جب بھی موقع ملے سٹرس فروٹ (Citrus) کھا رہا ہے یا لیموں (Lemon)۔لاہور آنے کے بعد یعنی ماحول، موسم اور فضا تبدیل ہوتے ہی بہت زیادہ حساس اور بزدل ہو گیا ہے۔ والد صاحب نے اگر کسی بات سے ٹوک دیا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہو جائیں گے، خوب رونا دھونا جاری ہو جائے گا اور ماں کے پاس پہنچ کر سسکیاں بھرنا شروع ہو جائے گا۔ ہر وقت ڈرا ڈرا اور سہما سہما سا رہنے لگا۔ پہلے جہاں بھی آنا جانا ہوتا تھا وہاں ملنا ملانا اور آزادی سے اپنی دلچسپی شروع کر دیتا تھا۔ اب ایسے لگتا ہے کہ اِس کے اندر جیسے ڈر سا بیٹھ گیا ہے۔ پہلے یہ اپنی ہر بات وضاحت سے کر لیتا تھا مگر اب ایسے لگتا ہے کہ جیسے اِسے اپنے جذبات کو بیان کرنے میں کوئی مشکل ہے۔ واش روم جانے سے بھی کترانے اور بچنے لگا ہے۔ بار بار کہنا پڑتا ہے تو ہی جاتا ہے ورنہ پہلے واش روم ٹریننگ جاری تھی تو سب کچھ نارمل اور مناسب تھا۔ اُلٹا سوتا ہے۔ جانور ہمیشہ سے پسند ہیں۔ اونچی آواز سے ڈر اور چونک سا جاتا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس (Deep Sense of Insecurity) اِس کے اندر کہیں گہرا موجود ہے اِس لئے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ لگ کر بیٹھے یا سوئے۔ غصہ آئے تو چیزیں اُٹھا کر پھینکنا شروع کر دیتا ہے۔

علاج اور ہومیوپیتھک دوائیں
ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور ہومیوپیتھی سٹوڈنٹس کے لئے:
بچے کو ایک ہفتہ کے لئے ہومیوپیتھک دوا مرک سال 30 (Mercurius Solubilis) دی گئی۔ پہلے تین دن تو طبیعت میں اُتار چڑھاؤ ہی رہا لیکن چوتھے دن سے واضح تبدیلیاں آنا شروع ہو گئیں۔ لیموں اور سٹرس کے کھانے میں واضح کمی آ گئی، رات کا بخار، منہ کے اندر چھالے دانے اور مستقل بے قراری و بے چینی بھی کافی کم ہو گئی۔ سستی اور کمزوری میں البتہ یکدم اضافہ ہو گیا اور بھوک تو جیسے اچاٹ ہی ہو گئی۔ کھانا پینا تقریباً بالکل ختم ہو گیا۔ یہ تین دن والدین کے لئے خاصے مشکل تھے۔ ان کو سمجھایا گیا کہ یہ سب مسائل عارضی ہیں کیونکہ بچے کے اندرونی نظام میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں تاکہ ہر معاملے – جسمانی، ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی – میں توازن پیدا کیا جا سکے۔

پروردگار کے کرم اور ماں باپ کے تعاون کی بدولت بچے میں جلد ہی ہر معاملہ میں بہتری واضح ہونا شروع ہو گئی۔ کھانا پینا معمول پر آ گیا۔ غصہ کی جگہ اب معصوم شرارتوں نے لے لی۔ چیزیں پھینکنا، نوچنا اور رونا دھونا بالکل ہی ختم ہو چکا ہے۔ دانت پیسنے میں بھی کمی ہوئی۔ لیموں اور سٹرس وغیرہ میں کوئی دلچسپی اب نہیں رہی۔

دو ہفتہ بعد فالو اَپ سیشن کے لئے تشریف لائے تو بچے کی کیفیت ہی بدلی ہوئی تھی۔ اُس نے آتے ہی مکمل اعتماد کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ اُس کے چہرے سے خوشی اور مسرت کے فوارے پُھوٹ رہے تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی اپنے والدین کو چھوڑ چھاڑ کر آفس میں موجود کھلونوں سے کھیلنے میں مصروف رہا۔ ایک دو بار والد نے ٹوکا بھی مگر اُس نے کوئی خاص پروا نہیں کی۔ بس میری طرف دیکھا اور اجازت ملنے پر دوبارہ کھیلنے میں مصروف ہو گیا۔ کھیل کے دوران اُسے کسی بات اور چیز کی کوئی فکر نہیں تھی۔ جب فارغ ہوئے تو والدہ نے چلنے کا کہا تو کھلونے سمیٹنے میں بھی مدد کی اور خوشی اور خوش دلی سے روانہ ہوا۔ والدین کے بقول بچے کے ہر معاملے میں واضح بہتری آ چکی ہے۔

جسمانی کمزوری کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کلکیریا فاس 6 ایکس (Calcarea Phosphorica 6X) دی گئی ہے۔ بچے کی والدہ کا فیڈبیک ملاحظہ فرمائیں۔

حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter