سانس کی شدید تنگی، دم گھٹنا، نیند کے مسائل اور مستقل غصہ ۔ کامیاب علاج اور دوائیں ۔ حسین قیصرانی

تیس سالہ مسز ایچ نے ناٹنگھم برطانیہ سے کال کی۔ محترمہ تین بچوں کی والدہ ہیں اور پچھلے دس سال سے برطانیہ میں مقیم ہے۔  ان کا تعلق اسلام آباد (پاکستان) کے اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے ہے۔ اپنی ایک فیملی فرینڈ کے پر زور اصرار پر مجھ سے رابطہ کیا۔ ان کے مسائل برطانیہ کے ڈاکٹرز کے لیے نا قابلِ فہم بھی تھے اور نا قابلِ علاج بھی۔
وہ اچانک سانس کی شدید تکلیف میں مبتلا ہو گئی تھیں۔ حالاں کہ صرف چند ماہ پہلے تک وہ بہت اچھی صحت کی حامل تھیں۔ سالوں سے انہیں کسی ڈاکٹر یا باقاعدہ دوائی لینے کی ضرورت محسوس ہی نہ ہوئی تھی لیکن جس تکلیف نے ان کی روزمرّہ زندگی کو مشکل بنا دیا وہ سانس لینے میں رکاوٹ کا شدید احساس تھا۔ یہ مسئلہ اس قدر شدت اختیار کر رہا تھا کہ ان کے لیے کھانا اور بات کرنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ کیس دیتے وقت بھی اُن کو سانس بُری طرح رک رہی تھی۔ اس لیے محترمہ نے نیشنل ہیلتھ سروس  سے چیک اپ کروانے کا فیصلہ کیا۔ کئی لیبارٹری ٹیسٹ  ہوئے مگر جب کچھ واضح نہ ہو سکا تو ڈاکٹرز کا خیال تھا کہ سانس کی اس قدر تنگی دل کے عارضے کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ ای سی جی  کی گئی۔ رپورٹ نارمل نہیں تھی لیکن واضح بھی نہیں تھی کہ واقعی کوئی مسئلہ ہے۔
تفصیلی چیک اپ کے لیے محترمہ کو ہسپتال داخل کر لیا گیا۔ اگلے دن وقفے وقفے سے چار بار ای سی جی  کی گئی۔ ہر بار رپورٹ مختلف تھی لیکن کوئی تشویش ناک بات نہیں تھی۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ سانس کی تکلیف کا دل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب اگلا ٹیسٹ پھیپھڑوں کا تھا کیوں کہ امکان تھا کہ سانس کی تنگی پھیپھڑوں  میں کسی نقص کی وجہ سے ہو۔
اگلے دن ایم آر آئی  کیا گیا اور الحمد للہ اس کی رپورٹ بھی نارمل تھی۔ ڈاکٹرز کی رائے تھی کہ ان کے سانس کے مسئلے کا تعلق کسی بھی جسمانی عارضے سے نہیں ہے۔ اس کی وجہ ذہنی دباؤ  اور پریشانی  ہے۔ اس لیے کوئی دوائی تجویز نہیں کی گئی۔ اس سارے معاملے میں جہاں یہ بات مثبت تھی کہ سارے ٹیسٹ نارمل ہیں وہاں یہ پریشانی بھی تھی کہ اس سانس کی تکلیف، پینک اٹیک ڈس آرڈر  اور دل کی گھبراہٹ سے چھٹکارا کیسے پایا جائے۔ یہی وہ وقت تھا جب محترمہ نے مجھ سے رجوع کیا۔
تفصیلی ٹیلی فونک گفتگو کے بعد جو مسائل سامنے آئے وہ درج ذیل ہیں۔
سب سے زیادہ جس تکلیف نے محترمہ کو متاثر کیا تھا وہ تنگی تنفس تھی۔ ان کا سانس پھولا رہتا تھا۔ کھانا کھانے کے دوران ایسا لگتا تھا جیسے سانس حلق میں اٹک رہا ہے اور سکون سے کھانا بھی نہیں کھایا جاتا تھا۔ بات کرتے کرتے سانس بے قابو ہو جاتا۔ تھوڑی دیر بات کرنا مشکل اور طویل گفتگو تو خیر تھی ہے نا ممکن۔  سانس کا ہر وقت پھولا رہنا یا متواتر دم گھٹنا ان کے روزمرّہ معاملات جیسے سیڑھیاں چڑھنا، چلنا پھرنا، فیملی کے ساتھ وقت گزارنا، غرض ہر معاملے پر گہرا اثر انداز ہو رہا تھا۔
یہ مسئلہ اتنی شدت اختیار کر گیا تھا کہ محترمہ کے فارغ اوقات میں بھی سانس کی آمدورفت آسودگی سے جاری نہیں رہتی تھی۔ محترمہ کو شدید غصہ  آتا تھا۔ چڑچڑاپن  روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ جذباتی دباؤ   اتنا بڑھ گیا تھا کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتعل ہو جاتی تھیں۔ اپنے بچوں کی بھاگ دوڑ اور کھیل کود بھی ان کو ڈسٹرب کرتی تھی اور اس اضطراب کا نتیجہ بچوں کی پٹائی کی صورت میں نکلتا تھا۔ محترمہ کی نیند بالکل ہی ختم  ہو گئی تھی۔ وہ چاہنے اور ہر ممکن کوشش کے باوجود سو نہیں پاتی تھیں۔ چوبیس گھنٹوں میں کوئی بھی ایسا وقت نہیں ہوتا تھا جب وہ سکون سے گہری نیند سو جائیں۔ اگرچہ آنکھیں بند کئے بستر پر پڑی رہتی تھیں لیکن ان کا دماغ مستقل جاگتا رہتا تھا۔ نیند اتنی کچی تھی کہ وہ اپنے ارد گرد ہونے والی تمام سرگرمیوں سے آگاہ رہتی تھیں۔ بے خوابی اتنی شدید تھی کہ ہلکی سے ہلکی آہٹ یعنی شوہر کا کروٹ بدلنا تک بھی محسوس اور سنائی دیتی تھی۔
ہر وقت ان باتوں کے بارے میں سوچتی رہتی تھیں جنھوں نے انھیں ڈسٹرب کیا تھا۔ ان باتوں کے بارے میں نہ سوچنا ان کے بس میں نہیں رہا تھا۔ وہ ساری باتیں ان کے حواس پر طاری رہتی تھیں اور مسلسل اپنے خیالوں اور سوچوں میں ان باتوں کو دہراتی، ان کی تصحیح کرتی اور تمام معاملات کو حل کرتی تھیں۔ سوچنے کا یہ عمل سوتے، جاگتے، کھاتے، پیتے غرض ہر وقت رواں دواں رہتا تھا۔ 
کسی بھی کام کو توجہ سے نہ کر پاتی تھیں۔ ان کا دھیان کچھ باتوں میں اتنا الجھا رہتا کہ یکسوئی بالکل ہی میسر نہ ہوتی۔ مایوسی اتنی چھائی ہوئی تھی کہ وہ کسی بھی سرگرمی پر اپنا ذہن مرکوز کرنے کی کوشش کرتیں تو خیالات کی یلغار ان کے دماغ کو واپس پریشان خیال کی طرف واپس بھٹکا دیتی۔ وہ ہر وقت روتی رہتی تھیں۔ انھیں خود اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کیوں رو رہی ہیں لیکن وہ بس روئے جاتی تھیں۔ رونا کنٹرول کرنا ان کے بس میں نہ تھا۔ کوئی بھی چھوٹی بات ان کو رلا دیتی یا پھر وہ بات کرتے کرتے رونے لگتی تھیں۔ بیٹھے بیٹھے کچھ سوچتے ہوئے رونے لگنا اب معمول بن گیا تھا۔
تنہائی پسند ہو گئی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کوئی ان سے بات نہ کرے۔ وہ صرف اپنے مسائل کے بارے میں سوچتی رہیں، روتی رہیں اور کوئی مداخلت نہ کرے۔  حساسیت بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ ذرا ذرا سی بات کو دل پر لے لیتی اور پھر اس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتی رہتی تھیں کہ فلاں نے ایسا کیوں کہا، اب میں کیا کروں، میں نے ایسا تو نہیں کہا تھا، اب سب میرے بارے میں کیا سوچیں گے، میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا ۔۔۔۔۔
محترمہ اپنی ساکھ کو لے کر بے پناہ حساس تھیں۔ خود کو خالی الذہن محسوس کرنے لگی تھیں۔ کسی چیز کی طرف دیکھتے ہوئے اس کو مسلسل گھورنے لگتی تھیں۔ کبھی لان میں کافی دیر تک ایک درخت پر ٹکٹکی باندھے رکھتی اور ارد گرد سے بے خبر ہو جاتی تھیں ۔ گھر والے اُن کی اس حالت کو دیکھ کر بہت پریشان ہو جاتے۔ جن لوگوں کی باتوں کی وجہ سے محترمہ ڈسٹرب ہوئی تھیں، ان سے شدید تکلیف کا احساس ہوتا تھا۔ ان سے ملنا تو درکنار ان لوگوں کی تصویر اور تصور بھی تکلیف بڑھا دیتا تھا۔ تصویر تو کیا صرف نام سنتیں یا کبھی کسی طرح ذکر آ جاتا تو سانس بالکل بند ہونے لگتا اور وہ گھنٹوں ڈسٹرب رہتیں۔
کھانے میں پسند نا پسند
محترمہ کو آئس کریم جنون کی حد تک پسند تھی اور نمک بھی زیادہ لینے کا رجحان تھا۔
کیس کا تجزیہ اور علاج
انٹرویو کے بعد ان کی شخصیت کا جو سب سے نمایاں پہلو سامنے آیا وہ ان کی زندگی کے ہر معاملے میں پرفیکشن کی شدید خواہش تھی۔ نزاکت پسندی، صفائی پسندی، حساسیت، تنظیم اور ترتیب ان کی ذات کے واضح اوصاف تھے۔ اور ان خصوصیات کی جھلک ان کے روزمرّہ معاملات، گھر، فیملی اور خاندانی تعلقات میں نظر آتی تھی۔ محترمہ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ اپنے بچوں کو ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کر کے اُن کو پراپر جوتے کپڑے پہننے پر ڈانٹتی رہتی تھیں۔ اپنے گھر، شوہر اور بچوں کو ہر معاملہ میں بہتر سے بہترین رکھنے کا جنون دل و دماغ پر طاری رہتا۔ بچوں کی بہترین پڑھائی، عالی شان تربیت اور اپنے خاوند کا ہر طرح سے خیال اُن کی زندگی کا مقصد و محور تھا۔ طبیعت کی خرابی کا سب سے بڑا مسئلہ اُن کی نظر میں یہ تھا کہ میرے گھر، بچے اور شوہر کے معاملات ڈسٹرب ہو جائیں گے۔
ترتیب، نظم و ضبط اور ہر معاملہ میں عالی شان رہنا اُن کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اپنے لباس اور وضع قطع کا بے حد خیال رکھتی تھیں۔ ما شاء اللہ بے حد خوبصورت ہیں اور اپنی خوبصورتی کا بجا طور احساس بھی تھا۔ اپنے ذاتی وقار اور عزت کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی تھیں۔ اگر کہیں معاملہ عزت، انا اور احترام کو ٹھیس لگنے کا ہوتا تو کسی سے ٹکرانے کے لئے ہر دم تیار رہتی تھیں۔ اس حوالہ سے وہ کسی سے نہ ڈرتی تھیں اور نہ ہی کبھی رکتی تھیں۔
کوئی گھنٹہ بھر کی گفتگو کے بعد معاملہ کھلنا شروع ہوا۔ پچھلے سال پاکستان میں گزارے گئے دن ان کے لیے مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ ان کی بھابھی کے رویے اور بے جا تنقید نے ان کی شخصیت پر گہرے ناخوشگوار اثرات مرتب کئے۔ واپس انگلینڈ جانے کے بعد بھابھی کی طرف سے بہت سی ایسی باتیں ان سے غلط منسوب کی گئیں جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں اور نہ ہی محترمہ نے کبھی کسی سے ایسی کوئی بات کی تھی۔ اُن کو اس سے شدید ذہنی دھچکا اور صدمہ لگا کیوں کہ ان تمام باتوں نے نہ صرف ان کی عزت نفس کو مجروح کیا بلکہ فیملی میں ان کی ساکھ  بھی متاثر ہوئی۔ اور یہ بات ان کے لیے کسی بھی حوالے سے ناقابلِ برداشت تھی۔
وہ چاہتی تھیں کہ ساری غلط فہمیاں دور ہوں، ان پر لگائے گئے تمام الزامات کا ازالہ ہو اور ان کی نیک نامی پہلے کی طرح بحال ہو۔ ان کی خواہش تھی کہ سب جان جائیں کہ ان سے منسوب تمام باتیں جھوٹ ہیں۔ سب کو پتہ چلے کہ وہ ایسی باتوں سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے جو ان کو بتائی جا چکی تھیں۔ سارے معاملے کو ان کی نظر سے دیکھا جائے اور سب کے سامنے ان کا نقطہ نظر عیاں ہوں۔ وہ اپنی ساکھ پر لگائی گئی اس کاری ضرب کی متحمل نہ ہو سکیں۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ واپس پاکستان جائیں اور سب فیملی ممبران کو اکٹھا کر کے اپنی پوزیشن کلئر کریں۔
چوں کہ وہ ابھی پاکستان سے واپس آئے تھے، آنے جانے کا خرچ اور یہاں کے کام کا حرج کم و بیش بارہ پندرہ لاکھ روپے کا نسخہ تھا۔ علاوہ ازیں بچوں کی تعلیم کے مسائل بھی تھے سو یہ عملاً ممکن ہی نہ تھا۔ مگر اُن کے دل و دماغ پر یہی سوار تھا کہ کیسے اپنی ساکھ بحال ہوتے خود دیکھوں۔
جب معاملات حسب آرزو نہ نپٹ سکے تو شدید بے بسی نے ذہنی کرب کی صورت اختیار کر لی۔ اس ساری صورت حال نے انھیں ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے دوچار کیا۔ وہ چاہتے ہوئے بھی ان ساری باتوں کو نظر انداز نہ کر پا رہی تھیں اور یہ جذباتی اضطراب دھیرے دھیرے جسمانی مسائل کی صورت میں سامنے آنے لگا۔ نتیجتاً بہت سے مسائل کا شکار ہوگئیں۔ دراصل دماغ کی مستقل بے آرامی اور ہر وقت کی پریشان کن سوچوں کا نتیجہ سانس کی شدید بے ترتیبی کے روپ میں ظاہر ہوا۔
دن رات میں کوئی ایسا لمحہ نہ آتا جب سانس بغیر کوشش جاری رہے۔ وہ کھڑکیاں کھولتیں یا باہر گارڈن میں چلی جاتیں تاکہ گھبراہٹ کم ہو اور سانس بحال ہو۔ انہیں تازہ ہوا کی شدید طلب محسوس ہوتی۔ کیفیت دمہ  کی طرح ہوتی جا رہی تھی۔ دل و دماغ اور مدافعتی نظام ہر وقت اپنی معتبریت ثابت کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا جس کی وجہ سے دن کا سکون اور رات کی نیند تباہ ہو کر رہ گئی۔ یہ اندرونی انزائٹی، اضطراب، چڑچڑاپن بن کر نمودار ہوا اور رفتہ رفتہ ذہنی یکسوئی کو مکمل نگل گیا۔ وہ فارغ نہیں بیٹھ سکتی تھیں سو ہر وقت گھر کی صفائی ستھرائی اور کام کاج میں اپنے آپ کو مصروف رکھتیں۔
جہاں انسان کی زندگی میں رکھ رکھاؤ، وضع داری، عزت، وقار اور عظمت، نخرہ بنیادی اہمیت رکھتے ہوں وہاں کوئی بھی خلافِ منصب بات شخصیت کی دھجیاں بکھیر دیتی ہے۔ یہی سب محترمہ کے ساتھ ہوا۔ بھابھی نے اُن کے متعلق نا مناسب تاثرات کا اظہار کیا اور کچھ الٹی سیدھی باتیں کیں، اگرچہ ان میں سچائی نہ تھی لیکن محترمہ کو لگا جیسے یہ ان کی عزتِ نفس پر وار ہے۔ انہوں نے ساری زندگی خاندان اور اپنی عزت کو اہمیت دی اور اب اُن کے متعلق ایسی باتیں کی جا رہی ہیں۔
وہ ساری باتیں اُن کے دماغ پر ہتھوڑوں کی طرح لگتیں اور دل کی زخمی کر رہی تھیں۔ ایسے حالات میں دل، دماغ اور پھیپھڑوں کے فنکشن بہت ڈسٹرب ہو گئے تھے۔ محترمہ کے لیے ان کی اپنی ذات بھی آئیڈیل تھی اور اپنی ذات پر ہونے والی کوئی بھی بات خواہ چھوٹی ہو یا بڑی ان کی برداشت سے باہر ہے۔ واضح الفاظ میں اور بار بار کہا کہ لوگوں کو تو دوسروں سے عشق محبت ہوتی ہے مگر مجھے اپنے آپ سے عشق ہے۔
وہ چاہتی تھیں کہ پاکستان جائیں، بے شک بارہ پندرہ لاکھ خرچ کرنا پڑے اور بھابھی کو سامنے بٹھا کر ساری بات واضح کریں کہ کسی نے ان کے بارے میں بات کرنے کی جرآت کیسے کی لیکن اس وقت یہ ممکن نہ تھا۔
محترمہ ہر وقت کڑھتی رہتی تھیں کہ وہ کس طرح فوراً پاکستان جائیں اور اپنی بے عزتی اور اہانت کا مؤثر انداز میں جواب دیں۔ زندگی میں پہلی بار کسی نے اُن کے رتبے پرسنالٹی کا خیال رکھے بغیر، جو زبان پر آیا کہہ بول دیا۔ بے بسی کی انتہا تھی۔ اور ان کا یہ رویہ ہی انجانے میں انہی کو نقصان پہنچا رہا تھا لیکن ان کا خود پر اختیار نہیں تھا۔
ہومیوپیتھک دوائیں اور علاج (ہومیوپیتھی سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز کے لئے)۔
میری ایک اَور مریضہ حال ہی میں پاکستان سے ناٹنگھم پہنچی تھیں جن کے پاس کافی تعداد میں ہومیوپیتھک دوائیاں موجود تھیں۔ وہ اگرچہ شہر کے بالکل دوسرے کنارے پر تھیں مگر انہوں نے خصوصی طور پر خدمتِ خلق کے جذبہ کے تحت فوراً دو دوائیاں محترمہ کے گھر پہنچا دیں۔ پروردگار اُن کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

کاربوویج (Carbo Veg):  اگر سانس کی تکلیف بہت شدت سے ہو اور پنکھا چلانے، کھڑکی کھولنے یا باہر جانے کی شدید خواہش ہو ورنہ دم گھٹ جائے گا یا سانس بند ہو جائے گا۔ یہ صرف ایمرجینسی میں لی جائے۔

پلاٹینا (Platina)۔ ایک گولی روزانہ تجویز کی گئی۔ پہلے ہی دن سے طبیعت میں ٹھہراو آ گیا۔ الحمدللہ۔ بعد ازاں پلاٹینا ہی میجر دوا رہی جو کہ کبھی کبھار اور حسبِ ضرورت مختلف پوٹینسی میں دی جاتی رہی۔

لیکیسس (Lechasis):  کیس کی مزید تہییں یا لئیرز کھلیں اور کچھ بہت ہی ذاتی معاملات اور رجحانات سامنے آئے (جن کو کیس میں درج کرنے کی محترمہ نے اجازت نہیں دی)۔ اُن کی بنیاد پر اولاً لیکیسس (Lachesis) اور بعد ازاں  آرسنیک البم (Arsenic Album) کی بھی چند خوراکیں دی گئیں۔

علاج کا سلسلہ تقریباً چار ماہ چلا اگرچہ دوائیں باقاعدگی سے نہیں دی گئیں۔ اس کے بعد وہ مکمل طور پر میڈیسن فری ہو  گئیں۔

 

کامیاب علاج کے بعد مسز ایچ کے خیالات فیڈبیک!
میں نے ایک فیملی فرینڈ کے کہنے پر ڈاکٹر حسین قیصرانی سے رابطہ کیا۔ میری طبیعت بہت خراب تھی۔ سانس کی تکلیف اتنی بڑھ چکی تھی کہ میرے لیے ڈاکٹر صاحب سے بات کرنا بھی مشکل تھا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب سے بات کرنے کے دوران مجھے اپنی طبیعت میں بہتری محسوس ہوئی۔ مجھے لگا کہ وہ میری بات کو میرے نقطہ نظر کے مطابق سمجھ رہے ہیں۔ بات کرنے کے دوران میری سانس پھول رہی تھی لیکن ڈاکٹر صاحب نے بیزاری کا کوئی تاثر نہیں دیا۔ انہوں نے میری بات نہایت توجہ اور شفقت سے سنی۔ میں نے اپنی کیفیات کو تفصیل سے بیان کیا۔ اور اس طرح میرا علاج شروع ہوا۔

دوائی کے ساتھ میری سائیکوتھراپی بھی جاری رہی میں نے انھیں علاج کے سلسلے میں بہت فرض شناس پایا۔ انگلینڈ  اور پاکستان کی ٹائمنگ میں بہت فرق ہے لیکن ٹائمنگ کا فرق بھی ڈاکٹر صاحب سے رابطہ پر کبھی اثر انداز نہیں ہوا۔ دن ہو یا رات مجھے جب بھی ضرورت محسوس ہوئی، ڈاکٹر صاحب کو میسر پایا۔ ان کا طریقہ علاج بے حد قابلِ تعریف ہے۔ میرے بہت ہی الجھے ہوئے مسائل کو بہت ٹیکنیکل انداز میں حل کیا۔

میری سانس کی تکلیف اب %90 بہتر ہے۔ میں آرام سے بات چیت کر لیتی ہوں۔ پہلے تو سانس اتنا پھولا رہتا تھا کہ کچھ کھانا بھی مشکل ہو جاتا لیکن اب میں سہولت سے کھانا کھاتی ہوں۔ میری نیند بالکل ختم ہو چکی تھی۔ میں آنکھیں بند کیے نیند کا انتظار کرتی تھی مگر میرا دماغ ہر وقت سوچوں میں میں گھرا رہتا تھا۔ اس لیے میرے لیے سکون سے سونا بھی ایک خواب ہو گیا تھا۔ مگر اب میں پہلے سے بہتر اور سکون والی نیند لیتی ہوں۔ میں بہت زیادہ انگزائٹی میں اور بے چین تھی۔ ہر وقت اپنے مسائل کے بارے میں سوچتی رہتی تھی جس کی وجہ سے کوئی بھی کام بھرپور توجہ سے نہیں کر پاتی تھی۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب میں اپنے کام دل سے کرنے لگی ہوں۔ اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے لگی ہوں۔

پہلے غصہ بہت آتا تھا۔ شور برداشت نہیں ہوتا تھا۔ مگر اب میں مطمئن رہتی ہوں۔ میری حساسیت میں بہت بہتری آئی ہے۔ میں چھوٹی چھوٹی بات پہ پریشان ہو جاتی اور اسے انا کا مسئلہ بنا لیتی تھی مگر اب مجھ میں غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کرنے کی قابلیت پیدا ہو گئی ہے۔ میں خود کو پہلے سے زیادہ مضبوط محسوس کرتی ہوں۔ سٹریس، ذہنی ٹینشن اور ڈپریشن ختم ہو چکا ہے۔

جن لوگوں کی وجہ سے میں نے ٹینشن لی اور میری صحت بے حد خراب ہو گئی اب میں اُن باتوں کو ایشو نہیں بناتی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اب میں پاکستان جا کر ان کے ساتھ اچھا وقت گزار سکتی ہوں۔ ان سے باتیں کر سکتی ہوں اور اپنی گاڑی بھی شئیر کر سکتی ہوں۔

میں ڈاکٹر حسین قیصرانی کی بے حد شکر گزار ہوں جن کی بھر پور محنت، توجہ اور لگن سے میں ایک بھرپور زندگی کی طرف لوٹ آئی۔

===================
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔
===================

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Shazia Khalid
Shazia Khalid
2 years ago

I m 49yesrd old , facing same problem , shortness of breath, fear of heart attack, how could I contact you

Sign up for our Newsletter