اکھاں وچ طغیانی گھٹ اے
تینوں بُھلاں تے لگدا اے
ساہ دی آنی جانی گھٹ اے
تیری صورت چار چفیرے
میری نظر نمانی، گھٹ اے
اک دن مڈھوں مک جاوے گی
اج کل تیری کہانی گھٹ اے !
دو بچوں کی والدہ 35 سالہ مسز ایس فیس بک پر کیس پڑھنے کے بعد ملنے کے لیے تشریف لائیں۔ ان کے مسائل بے پناہ تھے۔ کئی مرتبہ سرجری ہو چکی تھی۔ کھانا پینا نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ چلنا پھرنا تو تھا ہی دشوار۔ انفیکشنز کی ایک لمبی فہرست تھی جن میں کچھ کے متعلق تو مجھے بالکل بھی علم نہ تھا۔ صحت کے حوالے سے حالات کافی پیچیدہ تھے۔ معدہ، مثانہ، گلا، یوٹرس، ٹانسلز، بواسیر اور گائنی کے بے حد پیچیدہ مسائل تھے جن کا علاج وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکہ تک سے کروا چکی تھیں۔ صورت حال کو سمجھنے کے لیے طویل ڈسکشن درکار تھی۔ محترمہ کا کئی بار تفصیلی انٹرویو لیا گیا جس کا خلاصہ ذیل میں درج ہے۔
1۔ مسز ایس کی کلائی میں درد رہتا تھا۔ جو رفتہ رفتہ تمام جوڑوں (joint pains) تک پھیل گیا۔ سارا جسم درد کرتا تھا۔ ڈاکٹرز نے fibromyalgia فائبرومائلجیاتشخیص کیا۔ درد اتنا شدید ہوتا تھا کہ بہت ہائی پوٹینسی کی پین کلرز اور سٹیرائڈز لینے پڑتے تھے۔ اتنی سخت دوائیاں لینے کے بعد فرق کوئی خاص نہیں پڑتا تھا۔ سارا جسم سوج جاتا تھا۔ خاص طور پر صبح کے وقت بدن تڑا مڑا سا محسوس ہوتا تھا۔ شدید اکڑاؤ کی کیفیت (body stiffness) ہوتی اور معمولی حرکت کرنا بھی بہت اذیت ناک ہوتا تھا۔ چلنا پھرنا بہت مشکل تھا۔ بارش کے دنوں میں تکلیف بہت بڑھ جاتی تھی۔
۔2۔ مینسز سے فارغ ہونے کے فوراً بعد مثانے میں تکلیف (UTI) ہو جاتی تھی۔ پیشاب بہت زیادہ تکلیف، درد اور جلن کے ساتھ آتا تھا۔ گردے سے لے کر مثانے کے نچلے حصے تک درد ہوتا تھا۔ بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی تھی۔ رات کو بیس بیس ۲۰ مرتبہ بھی پیشاب آتا تھا۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ اگر اتنا پانی پیا نہیں تو نکل کیسے اور کہاں سے رہا ہے۔ اس کے لیے انٹی بائیوٹک کورس کرنا پڑتا تھا اور یہ تقریباً ہر ماہ ہوتا تھا۔
۔3۔ اکثر لیکوریا (leucorrhoea) کی شکایت رہتی تھی۔ سفید، چپکنے والا مواد (white, sticky discharge) خارج ہوتا تھا۔ خراب مچھلی (fishy smell) جیسی بدبو آتی تھی۔ بہت خارش (irritation) ہوتی اور مستقل چبھن کا احساس رہتا تھا۔ پیٹ کے نچلے حصے میں درد رہتا تھا۔ اس انفیکشن کے لیے ڈاکٹرز اینٹی بائیوٹک کے ساتھ ساتھ اندرونی استعمال کے لیے بھی ادویات دیتے تھے جن کا استعمال جاری رکھنا پڑتا تھا۔
۔4۔ گلے میں شدید تکلیف (throat infection) رہتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے گلا زخمی ہے۔ نگلنے میں تکلیف ہوتی تھی۔ دو یا تین دن بعد یہ کیفیت چیسٹ انفیکشن (chest infection) اور کبھی sinus infection میں بدل جاتی تھی۔ ناک بالکل بند ہو جاتی تھی۔ سانس لینے میں دشواری ہوتی تھی۔ ناک سے سبز جما ہوا سخت مواد نکلتا تھا۔ اس کی علیحدہ اینٹی بائیوٹک لینے سے کچھ افاقہ ہوتا تھا۔
۔5۔ بڑی آنت میں اکثر سوزش رہتی تھی۔ درد دائیں پسلی سے ہوتا ہوا اپینڈکس والی جگہ تک جاتا تھا۔ اپنڈکس کا آپریشن ہو چکا تھا۔ سرجری کے کٹ میں شدید تکلیف رہتی تھی۔
۔6۔ معدہ بہت خراب (GERD) رہتا تھا۔ جلن تیزابیت کا احساس گلے تک ہوتا تھا۔ کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا۔ معدے میں ایک بھاری پن کا احساس رہتا تھا۔ پیٹ کی حالت عجیب سی تھی۔ کسی دن قبض (constipation) رہتی تو کسی دن لوز موشن ۔۔۔ ٹھہراؤ نہیں آتا تھا۔
۔7۔ گیسٹرو (gastro issue) کا مسئلہ اکثر تنگ کرتا تھا۔ اچانک الٹی (vomiting) اور لوز موشن (diarrhea) کی شکایت ہو جاتی تھی۔ پیٹ میں بہت درد ہوتا تھا۔ ہسپتال جانا پڑتا تھا۔ پھر ڈرپ، انجیکشنز اور اینٹی بائیوٹک سے ہی صورت حال کچھ قابو میں آتی تھی۔
۔ 8۔ کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ طبیعت میں اکتاہٹ غالب تھی۔ کہیں جانا اچھا نہیں لگتا تھا۔ نیند نہیں آتی تھی کیونکہ ہر وقت دل پریشان ہوتا اور کوئی نہ کوئی انفیکشن درپیش ہوتا تھا۔ توانائی کا احساس تک بھی باقی نہیں رہا تھا۔ ہر لمحہ تھکاوٹ رہتی تھی۔ کوئی بھی کام توجہ (lack of concentration) سے نہیں کر پاتی تھیں۔
۔9۔ اگر بچے بیمار ہو جاتے تو شدید انگزائٹی (anxiety) ہونے لگتی تھی۔ بہت منفی خیالات (negative thoughts) آتے تھے۔ بچوں کی بیماری کو سر پر سوار کر لیتی اور بے حد فکر مند رہتی تھی۔ اور جب محترمہ خود بیمار ہوتیں تو یہ سوچتی کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میرے بچوں کا کیا ہو گا۔ یہ سوچ سوچ کر شدید ڈپریشن (depression) میں چلی جاتیں اور پسینے آنے لگتے تھے۔ پینک اٹیک کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔
ڈر/ خوف Fear & Phobias
۔1۔ اپنی صحت کے بارے میں بہت عدم تحفظ (insecure and Anxiety about health) کا شکار تھیں۔ ہروقت یہی دھڑکا لگا رہتا کہ مجھے کینسر یا کوئی بڑی بیماری ہو جائے گی۔
۔2۔ کسی بڑی بیماری سے موت واقع ہو جانے کا خوف (death phobia) سر پر سوار رہتا تھا۔
۔3۔ پانی سے ڈر لگتا تھا۔ شاور لیتے ہوئے بھی پر سکون نہیں ہوتی۔ کسی واٹر پول میں نہیں جا سکتی تھی۔ انھیں لگتا تھا کہ وہ ڈوب جائیں گی۔
کھانے پینے میں پسند نا پسند
۔1۔ ٹھنڈا میٹھا پسند ہے
۔2۔ آئس کریم، کولڈ ڈرنکس، چاکلیٹ بہت اچھی لگتی ہیں۔
فیملی ہسٹری۔
والد صاحب بڑی آنت کے کینسر میں مبتلا تھے۔ والدہ کو آنتوں کی ٹی بی تھی۔
کیس کا تجزیہ
مسز ایس کی پیچیدہ جسمانی تکالیف کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے۔ پیدائش کے فوراً بعد ان کی والدہ کی ڈیتھ ہو گئی اور والد بیرون ملک چلے گئے۔ بچپن ماں کی محبت اور باپ کی شفقت کے بغیر گزرا۔ چھوٹی سے عمر میں رشتہ داروں کے بدلتے رویے دیکھے۔ بہن بھائیوں کی نوک جھونک کی بجائے کزنز کے طنز برداشت کیے۔ شروع سے ہی ٹانسلز کا مسئلہ تھا اس لیے 12 سال کی عمر میں سرجری کروا دی گئی۔
ایک کزن سے عشق ہو گیا۔ یہ کوئی عام عشق محبت کا معاملہ نہ تھا بلکہ عشق ان کی رگ رگ میں لہو بن کر دوڑنے لگا۔ رشتہ داروں کے رویے پھر آڑے آئے اور انھوں نے ایسے کرم کیے کہ دشمنوں کی ضرورت ہی نہ رہی۔ بالآخر اس عشق نے ناکام محبت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ اس سے شادی نہ ہو سکی لیکن مسز ایس نے لاحاصل محبت کا طوق اپنے گلے میں پہن لیا۔ حقیقی زندگی میں وہ شخص ان سے جتنا دور رہا، تصورات میں اتنا ہی حواس پر چھایا رہا۔ شادی ہو گئی۔ بچے ہو گئے لیکن زندگی کے کسی بھی موڑ پر وہ اسے بھلا نہ پائیں۔ وہ انھیں اپنے چاروں جانب دکھائی دیتا تھا۔ یہ تخیل اتنا قوی تھا کہ وہ اپنی جاگتی آنکھوں سے اسے دیکھتی تھیں۔ ان آنکھوں میں پیاس ہوتی جسے بجھانے لیے سمندر بھی ناکافی تھے۔ اپنے خیالوں میں وہ اس سے باتیں کرتی تھیں لیکن اگر کبھی حقیقی زندگی میں کسی تقریب میں سامنا ہو جاتا تو بالکل پتھر ہو جاتی تھیں۔ انھیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کریں۔ بچپن سے لے کر اب تک وہ اس شخص کو پوجتی رہیں جسے اِن سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ مسز ایس کو لگتا تھا کہ اگر وہ اس شخص کو بھولنے کی کوشش کریں گی تو مر جائیں گی۔ انھوں نے صرف اس شخص سے نہیں اس کے تصور سے بھی محبت کی تھی۔ اس شخص کی یاد نے ان کی روح کو زخمی کیے رکھا اور یہ زخم مختلف بیماریوں کی شکل میں ان کے وجود سے پھوٹنے لگے۔ gallbladder پتہ پتھریوں سے بھر گیا۔ سرجری کے ذریعے پتے کی پتھریوں Gallstones کے ساتھ پتہ gallbladder ہی نکال دیا گیا۔ پھر اپینڈکس کی تکلیف شروع ہو گئی اور اس کا بھی آپریشن ہوا۔
ہر نیا دن ایک نیا انفیکشن لے کر آتا اور دواؤں کی بھرمار ہوتی۔ جسم کے سارے جوڑ دکھنے لگے۔ دل کے گھاؤ نے سارا جسم چھلنی کر کے رکھ دیا۔ شادی شدہ زندگی میں بھی ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ بہت زیادہ رہا۔ گھریلو معاملات اور بچوں کی تربیت کے سلسلے میں شوہر کی عدم دلچسپی نے ان کے کندھوں کو مزید بوجھل کر ڈالا۔ ماں باپ کی کمی نے ان میں عدم تحفظ پیدا کر دیا تھا۔ اس لیے وہ اپنی اور بچوں کی صحت کے حوالے سے شدید دباؤ کا شکار رہتی تھیں۔ روز بروز بگڑتی ہوئی صحت، بچوں کا مستقبل، گھریلو ذمہ داریاں اور ایک لاحاصل شخص کی محبت کے بوجھ نے انھیں زندگی سے بہت دور لا کھڑا کیا تھا لیکن ان میں سے کسی بھی چیز کو نظر انداز کرنا ان کے بس میں نہ تھا۔ ان کی درد آشنائی بہت پرانی تھی اور پرانی دوستی چھوٹ نہیں رہی تھی۔
سینکڑوں کامیاب اور بے شمار ناکام کیسز کے علاج کے بعد یہ اہم نکتہ واضح ہوا ہے اگر کسی انسان کو چالیس سال کی عمر سے پہلے مستقل یا لاعلاج بیماری لگ چکی ہو تو اُس کے پیچھے کوئی بہت بڑا جذباتی مسئلہ یعنی پریشانی، غم، دکھ یا دھوکہ ضرور ہوتا ہے۔ اس جذباتی مسئلہ کو پہلے حل کیا جا سکے تو انسان کی جسمانی تکلیف اور لاعلاج بیماری بھی ٹھیک یا بہتر ہو جاتی ہے — ورنہ
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
ہومیوپیتھک دوائیں اور علاج کی تفصیل (ہومیوپیتھی سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز کے لئے)۔
دکھ، دھوکے اور غم کو پیشِ نظر رکھ کر محترمہ کو اگنیشیا امارہ (Ignatia Amara) دینے پر غور ہوا۔ اس احتیاط کے پیشِ نظر کہ وہ بے شمار قسم کی ایلوپیتھک دوائیاں مسلسل اور مستقل لے رہی تھیں نکس وامیکا (Nux Vomica) پہلے ہفتہ دی گئیں۔ اُن کی طبیعت میں واضح بہتری آئی اور اُن کا اعتماد ہومیوپیتھی پر بڑھ گیا۔ انہوں نے اپنے ساتھ ساتھ بچوں کا علاج بھی جاری کر لیا۔
عشق کا غم بلکہ بھوت اُن کا ایسے لگتا تھا کہ جیسے یہ ابھی اور آج کا معاملہ ہو۔ اُن کا اس حوالہ سے وقت رک سا گیا تھا۔ اگناشیا امارہ (Ignatia Amara) ایک ہفتہ کے لئے دی گئی۔ علامات کے مطابق اگلے ایک ماہ کے اندر فاسفورک ایسڈ (Phosphoric Acid) اور نیٹرم میور (Natrum Mur) دینے کی ضرورت پڑی۔ بہت سارے مسائل حل ہو گئے تو فیملی ہسٹری اور میازم کو اہمیت دیتے ہوئے ہوئی کارسی نوسن (Carcinocin) کی ایک خوراک دینے کا فیصلہ ہوا۔
یہ بہت الجھا ہوا اور پیچیدہ کیس تھا؛ اس لئے کافی دوائیاں دی گئیں جن میں اہم ترین یہ تھیں۔ کیس کافی واضح ہو گیا، درد تکلیفیں کمزوری کافی بہتر ہو گئی اور غم و عشق بھی اپنا زور توڑ گیا۔
محترمہ کے اپنے الفاظ میں
’’مجھے لگتا تھا کہ وہ شخص بالکل پرفیکٹ ہے۔ اس جیسا کوئی نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ مگر علاج کے دوران مجھے احساس ہونے لگا کہ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح ہے۔ مجھے اس میں عیب نظر آنے لگے ہیں۔ اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس نے میرے لیے کبھی کچھ نہیں کیا۔ میں اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ یہ سوچ آنے سے اب میرے لیے وہ ایک عام انسان ہے۔ میں اس یک طرفہ محبت کے خول سے مکمل آزاد ہو چکی ہوں‘‘۔
اس کے بعد علامات کے مطابق جو اہم دوائیں دی گئیں اُن کی فہرست یوں ہے۔
سٹیفی سیگریا (Staphisagria)۔
سلفر (Sulphur)۔
کلکیریا کارب (Calcarea Carb)۔
میڈورائنم (Medorrhinum)۔
کینتھرس (Cantharis)۔
ٹیوبرکولائنم (tuberculinum)۔
سلیشیا (Silicea)۔
لیکیسیس (Lachesis)۔
کم و بیش روزانہ کی بنیاد پر ہمارا رابطہ رہا اور حسبِ ضرورت و علامات دوائیاں تبدیل ہوتی رہیں۔
مسز ایس کا فیڈبیک
میں سمجھتی ہوں کہ میں چاہے جو مرضی الفاظ استعمال کر لوں شائد کبھی بھی نہیں بتا پاؤں گی کہ جو بے پناہ فائدہ مجھے ڈاکٹر حسین قیصرانی کے علاج سے ہوا۔
میں ایک بیمار ماں کے بطن سے پیدا ہوئی۔ بچپن سے ہی بہت ساری بیماریوں کا گھیراؤ رہا۔ کبھی کوئی اسپیشلسٹ، کبھی کوئی ڈاکٹر، پاکستان ہو یا امریکہ (USA)، ہر جگہ ڈاکٹروں پر جا جا کر تھک چکی تھی۔ Hypothyroid اور fibromyalgia فائبرو مائلجیاجیسی لاعلاج بیماریوں سے تنگ آ گئی تھی۔ اب تو ڈاکٹر ٹی بی اور کینسر کی باتیں کرنے لگے تھے۔ پھر ایک دن فیس بک کے ذریعے ڈاکٹر حسین قیصرانی میرے لیے فرشتہ بن کر آئے۔
بچپن میں ایک عشق کر بیٹھی جس نے ساری عمر نہ جینے دیا نہ مرنے۔ اس کو کھو کر زندہ تو تھی مگر اندر سے مر چکی تھی۔ gallbladder اور ٹانسلز کی سرجریز ہوئیں۔ پچھلے سال اپنڈیکس کا آپریشن ہوا۔ لیکن ان سب کے باوجود بیماریوں میں اضافہ ہوا۔
بہت زیادہ anxiety تھی کہ میں مر جاؤں گی اور میرے بچے میری طرح رل جائیں گے۔ bladder کا ایسا مسئلہ میرے ساتھ لگ گیا کہ جس کی وجہ سے میں ایک رات میں 20 مرتبہ واش روم جاتی۔ ان سب نے مل کر میرا سونا جاگنا محال کر دیا۔
ڈاکٹر حسین قیصرانی سے 5 مہینے کے علاج کے بعد الحمدللہ ہائپوتھائیرائڈ Hypothyroid ختم ہو گیا۔ اب تو ٹیسٹ بھی نیگیٹو ہیں۔فائبرومائلجیا fibromyalgia کا درد %80 بہتر ہے۔ ان کے ساتھ انگزائٹی (Anxiety) اور ڈپریشن (Depression) بھی ختم ہیں۔
جو مسائل ایلوپیتھک علاج، آپریشن اور سرجریز سے پیدا ہوئے، ان میں انتہا کی بہتری آ چکی ہے۔ مثانے اور گائنی کے مسائل بھی حل ہو گئے۔ بیماریوں کے ساتھ ساتھ پتہ نہیں کب وہ عشق بھی کھرچا گیا۔ آج مجھے اپنی زندگی پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ اللہ کے کرم سے میرا دل ہلکا ہو گیا ہے اور کندھوں سے بوجھ اتر گیا ہے۔
ڈاکٹر حسین قیصرانی ایک ماہر ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین انسان بھی ہیں۔ وہ صرف اپنی محنت کا حق یعنی ماہانہ فیس لیتے ہیں اور بس۔ اس کے علاوہ ان میں کسی قسم کا لالچ نہیں ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ کام صرف پیسے کے لیے کرتے ہیں۔ بات بہت دھیان سے سنتے اور سمجھتے ہیں۔
اللہ کے فضل سے مجھے اور میرے گھر والوں کو فیملی ڈاکٹر مل گیا ہے۔ اب مجھے کسی بھی بیماری سے ڈر نہیں لگتا۔ اگر لاعلاج بیماریاں صرف چند مہینوں میں ٹھیک ہو سکتی ہیں تو یقین مانیے باقی تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور ۔ فون 03002000210