میرا تعلق نارووال سے ہے۔ میں ایک ہاؤس وائف ہوں۔ شوہر بیرون ملک مقیم ہے جس کی وجہ سے تینوں بچوں اور گھر کی مکمل ذمہ داری میری ہے۔ میرے مسائل کی فہرست بہت طویل ہے۔ اور ان مسائل کی وجہ سے میں نے کئی سال بہت اذیت میں گزارے۔
دس سال پہلے میرے کانوں میں انفیکشن کی تکلیف شروع ہوئی۔ کان ہڈی کے اوپر سے سوج جاتا تھا اور اندر سے پھول جاتا تھا۔ کان کے اندر پیپ، ریشہ اور مواد بھر جاتا تھا۔ کان کے باہر کی طرف پیلا ریشہ نکلتا اور ذرا گہرائی سے صاف کرنے پر سبز بد بودار مواد نکلتا۔ بار بار لگنے والے ہائی پوٹینسی اینٹی بائیوٹکس انجیکشنز سے یہ مواد کالا ہو جاتا اور ڈھیلوں کی شکل میں باہر نکلتا اور پھر کان میں شدید کھجلی اور خارش ہوتی۔ میں ایک دن میں تین تین انجیکشنز لگواتی تھی۔ جب دایاں کان ٹھیک ہوتا تو بایاں خراب ہو جاتا تھا۔ درد کی شدت ناقابلِ برداشت ہوتی تھی۔ کان کے نیچے سے پٹھوں کا کھچاؤ گردن تک جاتا اور کندھوں تک پھیل جاتا تھا۔
میرا دوسرا بہت ہی عجیب مسئلہ شدید قسم کا سر درد (Headache) یعنی میگرین (Migraine) تھا۔ میرے سر میں شدید درد اٹھتا۔ یہ درد سر کے پچھلے حصے سے شروع ہوتا اور آہستہ آہستہ پورے سر میں پھیل جاتا۔ پھر آنکھیں دکھنے لگتی اور درد جبڑوں تک پہنچ جاتا۔ سارا چہرہ درد کرنے لگتا تھا۔ پٹھوں میں کھچاؤ ہو جاتا تھا۔ درد کی وجہ سے مجھے نیند نہیں آتی تھی۔ متلی ہوتی رہتی تھی۔ طبیعت بہت بے چین رہتی۔ کسی بھی حالت میں سکون محسوس نہیں ہوتا تھا۔ میرا دل کرتا تھا کہ کوئی مجھ سے بات نہ کرے اور ارد گرد کوئی شور نہ ہو۔ یہ سر درد ناقابلِ بیان حد تک مجھے ڈسٹرب رکھتا تھا۔ تکلیف اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ میں بات کرنے کے لیے بھی منہ نہیں کھول سکتی تھی۔ میں دانتوں کو بھینچ کر تھوڑی بہت بات کرتی تھی۔ مجھے دور کی آوازیں سنائی ہی نہیں دیتی تھیں۔ گھر کے کام کاج کرنا مشکل تھا۔ میں روٹی بھی نہیں پکا سکتی تھی۔
میں ٹاپ کے ENT سپیشلسٹ ڈاکٹرز (Top Specialist Doctors) کو چیک کروا چکی تھی۔ جو بھی کان چیک کرتا، کان کی حالت دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ میرے کان اندر سے گل سڑ گئے ہیں۔ میں نے تین بار کان کی صفائی بھی کروائی۔ یہ کام بہت تکلیف والا ہوتا تھا۔ صفائی کرواتے ہی مجھے شدید چکر آتے۔ میرا سر گھومنے لگتا اور کچھ دیر کے لیے میں اپنا سر اٹھا بھی نہ پاتی تھی۔ لیکن صفائی کروانے کے صرف دو دن بعد صورت پھر دوبارہ ویسی ہی ہو جاتی۔ میں تکلیف کی وجہ سے سو نہیں پاتی تھی۔ کھانا پینا بہت مشکل تھا۔
پتہ نہیں کہ یہ میرا وہم ہے یا حقیقت مگر چاند کی چودھویں کو کان کی پچھلی طرف ایک گلٹی بنتی تھی۔ یہ پلپلی ہوتی تھی۔ اس کے اندر سے مواد نہیں نکلتا تھا لیکن خارش بہت ہوتی تھی۔ ہاتھ لگانے سے درد کا احساس ہوتا تھا۔ چاند کے گھٹنے کے ساتھ ساتھ یہ خود بخود ختم ہو جاتی تھی اور اس جگہ پر ایک پپڑی سی بن جاتی تھی۔ اس پر بھی خارش ہوتی رہتی تھی۔ برسات کے موسم میں کانوں کی تکلیف بڑھ جاتی تھی۔
میں ٹھنڈا پانی نہیں پی سکتی تھی۔ میں نے کئی سال تک چاول، مونگ پھلی یا مالٹے (Food Allergy, Rice Allergy, Citrus Allergy, Peanut Allergy) وغیرہ نہیں کھائے کیوں کہ یہ میری تکلیف بڑھا دیتے تھے۔ اگر کبھی میں کچھ ٹھنڈا لے لیتی تو ایک ہی رات میں میرے کانوں کی بری حالت ہو جاتی تھی۔ میں نے ہر طرح کے علاج کروائے اور بہترین ہومیوپیتھک ڈاکٹرز (Top and Best Homeopathic Doctors) سے بھی علاج کروایا لیکن مجھے کہیں سے کوئی افاقہ نہ ہوا۔
مجھے شدید قبض رہتی تھی۔ دو سے تین دن بعد بہت تکلیف سے اتنا سخت پاخانہ آتا کہ بواسیر (Piles / Varicose Veins / Hemorrhoids) کے زخم ہو جاتے اور میری حالت بُری ہو جاتی تھی۔ ہر دو ماہ کے وقفے سے میرا پیٹ خراب ہو جاتا تھا۔ لوز موشن کی شکائت ہو جاتی تھی۔ دل خراب ہوتا تھا۔ کچھ کھایا نہیں جاتا تھا۔ میں سارا دن صرف قہوہ پیتی تھی۔ پیٹ میں عجیب سے چکر چلتے تھے اور شدید کھچاؤ محسوس ہوتا تھا۔
میرے پاؤں اکثر خراب رہتے تھے۔ خاص طور پر سردیوں میں پانی لگنے سے انگلیوں میں فنگس (Fungus) لگ جاتی تھی۔ انگلیاں سوج جاتی تھیں اور بہت خارش ہوتی تھی۔
ان سارے مسائل نے میری زندگی مشکل بنا دی تھی۔ مجھے شدید غصہ آتا تھا۔ چڑچڑاپن (Irritation) بہت زیادہ تھا۔ میں اپنے بچوں پر چیختی چلاتی تھی۔ انھیں گالی بھی دیتی تھی اور پٹائی بھی کرتی تھی۔ مجھ سے میرا غصہ کنٹرول (Uncontrolled Anger) نہیں ہوتا تھا۔ غصہ کسی پر بھی ہوتا، میں بچوں پر ہی نکالتی تھی۔ دراصل میرا دماغ میرے بس میں نہیں تھا۔ کسی کام کو توجہ سے نہیں کر پاتی تھی۔ میرا مائنڈ ایک جگہ سیٹ ہی نہیں ہوتا تھا۔ میں ہر وقت کچھ کچھ نہ سوچتی تھی۔ دماغ کہیں الجھا (Confuse) رہتا تھا۔ عجیب سی صورت حال تھی۔
مجھے بہت زیادہ عدم تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔ خاص طور پر میں مردوں کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔ اپنے رشتے داروں سے بھی ڈر لگتا تھا۔ میں کسی سے بات بھی نہیں کر پاتی تھی۔ بزدلی بہت ہی زیادہ تھی۔ خود اعتمادی (Self Confidence) بالکل بھی نہیں تھی۔ اجنبی لوگوں سے ڈر خوف محسوس ہوتا تھا۔ کسی سے بھی ملنا جلنا پسند نہیں کرتی تھی۔ کہیں آتی جاتی ہی نہیں تھی اور کسی کا گھر آنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔ مجھ میں دوسروں کو face کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔ میں insecure محسوس کرتی تھی۔ میں اپنے بچوں کے لیے بہت زیادہ حساس (Sensitive) تھی۔ ان کا گھر سے باہر جانا مجھے شدید انزائٹی بے چینی (Anxiety) میں مبتلا کر دیتا تھا۔ جب تک وہ گھر واپس نہیں آجاتے مجھے سکون ہی نہیں آتا تھا۔ عجیب و غریب قسم کے وہم مجھے تنگ کر دیتے تھے۔ دماغ منفی سوچوں اور خیالات (Negative thoughts) میں الجھائے رکھتا تھا۔ دل میں عجیب سی گھبراہٹ پیدا ہو جاتی تھی۔ میں بچوں کے معاملے میں بہت زیادہ حساس (Sensitive) اور وہمی تھی۔
میں nostalgic تھی۔ پرانی باتیں یاد کر کے روتی رہتی تھی۔ پرانی گلیاں، پرانے ساتھی اور رشتے دار تلاش کرتی تھی۔ مجھے ایسا لگتا تھا جیسے مجھے رونے کا دورہ پڑتا تھا کیوں کہ میں بلا وجہ اور بہت زیادہ روتی تھی۔
مجھے لگتا تھا جیسے مجھے کینسر (Fear of Cancer) ہو جائے گا یا پھر کوئی اور بڑی بیماری جس کی وجہ سے میں جلدی مر جاؤں گی۔ شائد اس کی وجہ میری فیملی میں کینسر کا رحجان تھا۔ میری دو کزنز بریسٹ کینسر (Breast Cancer) کا شکار تھیں۔ ان کا علاج چل رہا تھا اور ان کو دیکھ کر مجھے لگتا تھا کہ مجھے بھی کینسر ہو جائے گا۔ جسم پر بننے والا ہر ابھار یا گلٹی مجھے کینسر کی نشانی لگتی تھی۔ ہر لمحہ بڑی بیماری اور موت کا دھڑکا (Fear and Phobia of Death) لگا رہتا تھا۔
مجھے اونچائی سے بہت ڈر لگتا تھا۔ بلندی سے نیچے دیکھنے پر سر گھومنے لگتا تھا۔ چھت پر دیوار کے قریب بھی خوف (Fear and Phobia of High Places) محسوس ہوتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور میں نیچے گر جاؤں گی۔ بلندی پر جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
مجھے بادلوں کی گھن گرج اور بجلی کی چمک سے شدید ڈر (Fear of Thunderstorm) لگتا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ سب کچھ میرے اوپر آ گرے گا۔ اگر کبھی میں بازار میں ہوتی اور موسم اچھا ہو جاتا تو میری حالت خراب ہو جاتی اور میرا حال پاگلوں والا ہو جاتا۔ میں جلد از جلد گھر پہنچنے کی کوشش کرتی۔ پھر جتنے دن موسم ابر آلود رہتا میں اپنے گھر کی کھڑکیاں دروازے بند رکھتی۔ یہ خوف میرے اعصاب کو بری طرح جکڑ کر رکھتا تھا کہ یہ بجلی ابھی مجھ پر گری کہ گری۔
مجھے سکون والی نیند تو کبھی آئی ہی نہیں ہے۔ برے برے خواب (Nightmares) پریشان کرتے تھے۔ میرے شوہر شادی کے بعد دس سال تک میرے ساتھ رہے اس کے بعد بیرون ملک چلے گئے۔ میرے لیے ان کی عدم موجودگی بہت پریشانی اور ڈپریشن (Depression) کا باعث تھی۔ یہ ایک فطری تقاضا تھا جس پر میرا کنٹرول نہیں تھا۔ مجھے ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ ان کی طلب نے مجھے شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا تھا۔ یہ تشنگی مجھے اندر ہی اندر کھا رہی تھی اور میں بے بس تھی۔
میں ہر طرح کا علاج آزما چکی تھی اور ہر جگہ سے ہی مایوس ہوئی تھی۔ پھر یونیورسٹی فرینڈ نے میرا تعارف ڈاکٹر حسین قیصرانی سے کروایا۔ میں نے فون پر ہی ان سے اپنے تمام مسائل پر بات کی اور حیرت انگیز طور پر انھوں نے میری نبض دیکھے بغیر ہی میرا علاج کیا۔ یہ آن لائن ٹریٹمنٹ (Online Treatment) کی بہترین مثال تھی جہاں آپ کی دوا گھر کے دروازے پر میسر تھی۔ ان کے علاج کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہوا کہ میری زندگی میں سکون آ گیا۔ میری بے چین طبیعت میں ٹھہراؤ پیدا ہوا۔ علاج کے دوران اتار چڑھاؤ آتے رہے مگر ان کا حتمی نتیجہ ہمیشہ مثبت ہوتا۔ دوائی کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً فون پر دئیے جانے والے سائیکوتھراپی سیشنز (Psychotherapy Sessions) نے میری سوچ پر بہت خوشگوار اثر ڈالا۔ کانوں کی اذیت ناک تکلیف سے بالکل جان چھوٹ گئی۔ اب میرے کان بالکل ٹھیک ہیں۔ انفیکشن، پیپ، درد، ریشہ کچھ بھی نہیں ہے۔ کان ٹھیک ہوئے تو ایسے بہت سے کام جو میں کانوں کی تکلیف کی وجہ سے نہیں کر پاتی تھی اب آرام سے کر لیتی ہوں۔ میرا مائیگرین یعنی آدھے سر کا شدید درد (Migraine) اب بالکل غائب ہو چکا ہے۔ میں بہت ہلکا پھلکا محسوس کرتی ہوں۔ الحمدللہ مجھے دائمی اور شدید قبض (Constipation) اور بواسیری زخم درد تکلیف (hemorrhoids) سے بھی نجات مل گئی ہے اور لوز موشن والا مسئلہ بھی حل ہو چکا ہے۔
جہاں تک میری خود اعتمادی (Self Confidence) کا تعلق ہے اب میں بہت بہت بہتر ہوں۔ اب مجھے دوسروں سے بات کرنے میں پہلے کی طرح ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ میں پورے اعتماد سے بات کرتی ہوں۔ لوگوں سے ملنے جلنے میں بالکل بھی دقت نہیں ہوتی۔ دوسروں کے درمیان خود کو غیر محفوظ تصور نہیں کرتی۔ اب میں بڑے بڑے فیصلے خود کر لیتی ہوں۔ مجھے خود پر بھروسہ ہے۔ پہلے میرے لیے کسی سے بات کرنا مشکل تھا اور اب پچھلے دنوں میں نے اپنا گھر ایک شہر سے دوسرے شہر شفٹ کیا۔ اپنے بچوں کا داخلہ اپنی مرضی سے اچھے ادارے میں کروایا۔ یہ یقیناً بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اب جب بچے سکول یا کالج گئے ہوں تو میں پریشان نہیں ہوتی نہ ہی دل میں الٹے سیدھے وہم آتے ہیں بلکہ عام ماؤں کی طرح ان کا انتظار کرتی ہوں۔ بچوں کی غیر موجودگی میں بے چین نہیں ہوتی۔
میری خود اعتمادی کو بحال کرنے میں ڈاکٹر حسین کا کردار بطورِ ماہر نفسیات بہت ہی مفید رہا۔ بلاشبہ وہ بہت ہی اچھے سائیکالوجسٹ (Psychologist) اور بہترین سائکوتھراپسٹ (Psychotherapist) ہیں۔ ان کی سائیکوتھراپی (Psychotherapy) نے مجھے خود پر یقین کرنا سکھایا۔ اب مجھے بلا وجہ رونا نہیں آتا۔ جو پرانی یادیں مجھے پریشانی اور غم میں رکھتی تھیں اب غائب ہو گئی ہیں۔ میں خوش رہتی ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب مجھے کینسر (Cancer) یا کسی بڑی بیماری کا خوف نہیں ہے بلکہ خیال ہی نہیں آتا۔ میری سوچ کا انداز بدل گیا ہے۔ مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ جو بیماری ابھی کوئی وجود ہی نہیں رکھتی اس کے لیے پریشان ہونا فضول ہے لیکن پہلے یہ بات دل کو نہیں لگتی تھی۔ اب مجھ پر موت کا خوف بھی طاری نہیں ہوتا۔ اس علاج نے میرے سارے ڈر خوف اور وہم جڑ سے اکھاڑ پھینکے ہیں۔ اب میں اچھے موسم کو خراب نہیں سمجھتی اور بارش بادل سے پریشان نہیں ہوتی۔ سب لوگوں کی طرح موسم کو انجوائے کرتی ہوں۔ زلزلہ (Earthquake) مجھے بھی اتنا ہی پریشان کرتا ہے جتنا باقی لوگوں کو کرتا ہے۔ اب مجھے چھت پر جانے سے بھی خوف نہیں آتا۔
غصہ تو ایسے چلا گیا ہے کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارتی ہوں۔ بچوں سے گپ شپ ہوتی ہے۔ ان کو مارنا تو دور اب میں ان کو بے وجہ ڈانٹتی بھی نہیں۔ ایک ماں کو جتنا ڈانٹنا ڈپٹنا ہوتا ہے اتنا ہی میں کرتی ہوں۔
میرے شوہر اب بھی بیرون ملک ہیں۔ لیکن میں پہلے کی طرح بے چین نہیں رہتی۔ میرے اندر مسلسل اٹھنے والا طوفانی جذبہ اب تھم سا گیا ہے۔ میں مطمئن رہتی ہوں۔ میں جانتی ہوں یہ ساری باتیں نا قابلِ یقین ہیں ۔۔۔۔ ہو سکتا کہ پڑھنے والوں کو یہ باتیں مبالغہ لگیں مگر ایسا ہو چکا ہے اور یہی سچ ہے۔ مجھے خود بھی یقین نہیں آتا کہ میں ان تمام بیماریوں سے چھٹکارا پا چکی ہوں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایک صحت مند زندگی کی طرف لوٹ سکوں گی۔ مگر یہ اللہ کا خاص کرم ہے۔ یہ میری خوش قسمتی اور یقیناً ڈاکٹر حسین قیصرانی کی انتھک محنت اور اور لگن کا ثمر ہے کہ میں آج یہ تفصیل خوشی اور مسرت کے ساتھ شئیر کر رہی ہوں۔
آج تک ڈاکٹر حسین قیصرانی سے میری ایک بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ میں اپنے سارے مسائل فون یا واٹس ایپ پر ہی ڈسکس کرتی تھی۔ دن ہو یا رات ڈاکٹر صاحب نے کبھی بیزاری یا اکتاہٹ کا اظہار نہ کیا۔ میں جب بھی انھیں اپنا یا بچوں کا کوئی مسئلہ بتاتی تھی، اگلی صبح دوائی میرے گھر مل جاتی۔ شوہر کی غیر موجودگی میں یہ ایک بہت بڑی نعمت تھی کہ مجھے اپنے لیے یا بچوں کے لیے کسی ڈاکٹر پہ نہیں جانا پڑا۔ ڈاکٹر حسین ہر ایمرجنسی میں دستیاب ہوتے۔ انھوں نے میرے عجیب و غریب مسائل کو میری نفسیات کے مطابق سمجھتے ہوئے بڑے ماہرانہ انداز میں حل کیا۔ جب میں جسمانی اور ذہنی طور پر انتہائی مشکل وقت سے گزر رہی تھی، ڈاکٹر صاحب نے بطور سائیکوتھراپسٹ میری نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی بے ربطگی میں توازن کے اسباب پیدا کیے۔ ان کے علاج سے میری مشکل زندگی میں آسانیاں آنے لگیں۔ سچ بات یہ ہے کہ آسانیاں بانٹنے کا فن میں نے ڈاکٹر قیصرانی سے سیکھا۔
دس سال پہلے میرے کانوں میں انفیکشن کی تکلیف شروع ہوئی۔ کان ہڈی کے اوپر سے سوج جاتا تھا اور اندر سے پھول جاتا تھا۔ کان کے اندر پیپ، ریشہ اور مواد بھر جاتا تھا۔ کان کے باہر کی طرف پیلا ریشہ نکلتا اور ذرا گہرائی سے صاف کرنے پر سبز بد بودار مواد نکلتا۔ بار بار لگنے والے ہائی پوٹینسی اینٹی بائیوٹکس انجیکشنز سے یہ مواد کالا ہو جاتا اور ڈھیلوں کی شکل میں باہر نکلتا اور پھر کان میں شدید کھجلی اور خارش ہوتی۔ میں ایک دن میں تین تین انجیکشنز لگواتی تھی۔ جب دایاں کان ٹھیک ہوتا تو بایاں خراب ہو جاتا تھا۔ درد کی شدت ناقابلِ برداشت ہوتی تھی۔ کان کے نیچے سے پٹھوں کا کھچاؤ گردن تک جاتا اور کندھوں تک پھیل جاتا تھا۔
میرا دوسرا بہت ہی عجیب مسئلہ شدید قسم کا سر درد (Headache) یعنی میگرین (Migraine) تھا۔ میرے سر میں شدید درد اٹھتا۔ یہ درد سر کے پچھلے حصے سے شروع ہوتا اور آہستہ آہستہ پورے سر میں پھیل جاتا۔ پھر آنکھیں دکھنے لگتی اور درد جبڑوں تک پہنچ جاتا۔ سارا چہرہ درد کرنے لگتا تھا۔ پٹھوں میں کھچاؤ ہو جاتا تھا۔ درد کی وجہ سے مجھے نیند نہیں آتی تھی۔ متلی ہوتی رہتی تھی۔ طبیعت بہت بے چین رہتی۔ کسی بھی حالت میں سکون محسوس نہیں ہوتا تھا۔ میرا دل کرتا تھا کہ کوئی مجھ سے بات نہ کرے اور ارد گرد کوئی شور نہ ہو۔ یہ سر درد ناقابلِ بیان حد تک مجھے ڈسٹرب رکھتا تھا۔ تکلیف اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ میں بات کرنے کے لیے بھی منہ نہیں کھول سکتی تھی۔ میں دانتوں کو بھینچ کر تھوڑی بہت بات کرتی تھی۔ مجھے دور کی آوازیں سنائی ہی نہیں دیتی تھیں۔ گھر کے کام کاج کرنا مشکل تھا۔ میں روٹی بھی نہیں پکا سکتی تھی۔
میں ٹاپ کے ENT سپیشلسٹ ڈاکٹرز (Top Specialist Doctors) کو چیک کروا چکی تھی۔ جو بھی کان چیک کرتا، کان کی حالت دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ میرے کان اندر سے گل سڑ گئے ہیں۔ میں نے تین بار کان کی صفائی بھی کروائی۔ یہ کام بہت تکلیف والا ہوتا تھا۔ صفائی کرواتے ہی مجھے شدید چکر آتے۔ میرا سر گھومنے لگتا اور کچھ دیر کے لیے میں اپنا سر اٹھا بھی نہ پاتی تھی۔ لیکن صفائی کروانے کے صرف دو دن بعد صورت پھر دوبارہ ویسی ہی ہو جاتی۔ میں تکلیف کی وجہ سے سو نہیں پاتی تھی۔ کھانا پینا بہت مشکل تھا۔
پتہ نہیں کہ یہ میرا وہم ہے یا حقیقت مگر چاند کی چودھویں کو کان کی پچھلی طرف ایک گلٹی بنتی تھی۔ یہ پلپلی ہوتی تھی۔ اس کے اندر سے مواد نہیں نکلتا تھا لیکن خارش بہت ہوتی تھی۔ ہاتھ لگانے سے درد کا احساس ہوتا تھا۔ چاند کے گھٹنے کے ساتھ ساتھ یہ خود بخود ختم ہو جاتی تھی اور اس جگہ پر ایک پپڑی سی بن جاتی تھی۔ اس پر بھی خارش ہوتی رہتی تھی۔ برسات کے موسم میں کانوں کی تکلیف بڑھ جاتی تھی۔
میں ٹھنڈا پانی نہیں پی سکتی تھی۔ میں نے کئی سال تک چاول، مونگ پھلی یا مالٹے (Food Allergy, Rice Allergy, Citrus Allergy, Peanut Allergy) وغیرہ نہیں کھائے کیوں کہ یہ میری تکلیف بڑھا دیتے تھے۔ اگر کبھی میں کچھ ٹھنڈا لے لیتی تو ایک ہی رات میں میرے کانوں کی بری حالت ہو جاتی تھی۔ میں نے ہر طرح کے علاج کروائے اور بہترین ہومیوپیتھک ڈاکٹرز (Top and Best Homeopathic Doctors) سے بھی علاج کروایا لیکن مجھے کہیں سے کوئی افاقہ نہ ہوا۔
مجھے شدید قبض رہتی تھی۔ دو سے تین دن بعد بہت تکلیف سے اتنا سخت پاخانہ آتا کہ بواسیر (Piles / Varicose Veins / Hemorrhoids) کے زخم ہو جاتے اور میری حالت بُری ہو جاتی تھی۔ ہر دو ماہ کے وقفے سے میرا پیٹ خراب ہو جاتا تھا۔ لوز موشن کی شکائت ہو جاتی تھی۔ دل خراب ہوتا تھا۔ کچھ کھایا نہیں جاتا تھا۔ میں سارا دن صرف قہوہ پیتی تھی۔ پیٹ میں عجیب سے چکر چلتے تھے اور شدید کھچاؤ محسوس ہوتا تھا۔
میرے پاؤں اکثر خراب رہتے تھے۔ خاص طور پر سردیوں میں پانی لگنے سے انگلیوں میں فنگس (Fungus) لگ جاتی تھی۔ انگلیاں سوج جاتی تھیں اور بہت خارش ہوتی تھی۔
ان سارے مسائل نے میری زندگی مشکل بنا دی تھی۔ مجھے شدید غصہ آتا تھا۔ چڑچڑاپن (Irritation) بہت زیادہ تھا۔ میں اپنے بچوں پر چیختی چلاتی تھی۔ انھیں گالی بھی دیتی تھی اور پٹائی بھی کرتی تھی۔ مجھ سے میرا غصہ کنٹرول (Uncontrolled Anger) نہیں ہوتا تھا۔ غصہ کسی پر بھی ہوتا، میں بچوں پر ہی نکالتی تھی۔ دراصل میرا دماغ میرے بس میں نہیں تھا۔ کسی کام کو توجہ سے نہیں کر پاتی تھی۔ میرا مائنڈ ایک جگہ سیٹ ہی نہیں ہوتا تھا۔ میں ہر وقت کچھ کچھ نہ سوچتی تھی۔ دماغ کہیں الجھا (Confuse) رہتا تھا۔ عجیب سی صورت حال تھی۔
مجھے بہت زیادہ عدم تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔ خاص طور پر میں مردوں کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔ اپنے رشتے داروں سے بھی ڈر لگتا تھا۔ میں کسی سے بات بھی نہیں کر پاتی تھی۔ بزدلی بہت ہی زیادہ تھی۔ خود اعتمادی (Self Confidence) بالکل بھی نہیں تھی۔ اجنبی لوگوں سے ڈر خوف محسوس ہوتا تھا۔ کسی سے بھی ملنا جلنا پسند نہیں کرتی تھی۔ کہیں آتی جاتی ہی نہیں تھی اور کسی کا گھر آنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔ مجھ میں دوسروں کو face کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔ میں insecure محسوس کرتی تھی۔ میں اپنے بچوں کے لیے بہت زیادہ حساس (Sensitive) تھی۔ ان کا گھر سے باہر جانا مجھے شدید انزائٹی بے چینی (Anxiety) میں مبتلا کر دیتا تھا۔ جب تک وہ گھر واپس نہیں آجاتے مجھے سکون ہی نہیں آتا تھا۔ عجیب و غریب قسم کے وہم مجھے تنگ کر دیتے تھے۔ دماغ منفی سوچوں اور خیالات (Negative thoughts) میں الجھائے رکھتا تھا۔ دل میں عجیب سی گھبراہٹ پیدا ہو جاتی تھی۔ میں بچوں کے معاملے میں بہت زیادہ حساس (Sensitive) اور وہمی تھی۔
میں nostalgic تھی۔ پرانی باتیں یاد کر کے روتی رہتی تھی۔ پرانی گلیاں، پرانے ساتھی اور رشتے دار تلاش کرتی تھی۔ مجھے ایسا لگتا تھا جیسے مجھے رونے کا دورہ پڑتا تھا کیوں کہ میں بلا وجہ اور بہت زیادہ روتی تھی۔
مجھے لگتا تھا جیسے مجھے کینسر (Fear of Cancer) ہو جائے گا یا پھر کوئی اور بڑی بیماری جس کی وجہ سے میں جلدی مر جاؤں گی۔ شائد اس کی وجہ میری فیملی میں کینسر کا رحجان تھا۔ میری دو کزنز بریسٹ کینسر (Breast Cancer) کا شکار تھیں۔ ان کا علاج چل رہا تھا اور ان کو دیکھ کر مجھے لگتا تھا کہ مجھے بھی کینسر ہو جائے گا۔ جسم پر بننے والا ہر ابھار یا گلٹی مجھے کینسر کی نشانی لگتی تھی۔ ہر لمحہ بڑی بیماری اور موت کا دھڑکا (Fear and Phobia of Death) لگا رہتا تھا۔
مجھے اونچائی سے بہت ڈر لگتا تھا۔ بلندی سے نیچے دیکھنے پر سر گھومنے لگتا تھا۔ چھت پر دیوار کے قریب بھی خوف (Fear and Phobia of High Places) محسوس ہوتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور میں نیچے گر جاؤں گی۔ بلندی پر جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
مجھے بادلوں کی گھن گرج اور بجلی کی چمک سے شدید ڈر (Fear of Thunderstorm) لگتا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ سب کچھ میرے اوپر آ گرے گا۔ اگر کبھی میں بازار میں ہوتی اور موسم اچھا ہو جاتا تو میری حالت خراب ہو جاتی اور میرا حال پاگلوں والا ہو جاتا۔ میں جلد از جلد گھر پہنچنے کی کوشش کرتی۔ پھر جتنے دن موسم ابر آلود رہتا میں اپنے گھر کی کھڑکیاں دروازے بند رکھتی۔ یہ خوف میرے اعصاب کو بری طرح جکڑ کر رکھتا تھا کہ یہ بجلی ابھی مجھ پر گری کہ گری۔
مجھے سکون والی نیند تو کبھی آئی ہی نہیں ہے۔ برے برے خواب (Nightmares) پریشان کرتے تھے۔ میرے شوہر شادی کے بعد دس سال تک میرے ساتھ رہے اس کے بعد بیرون ملک چلے گئے۔ میرے لیے ان کی عدم موجودگی بہت پریشانی اور ڈپریشن (Depression) کا باعث تھی۔ یہ ایک فطری تقاضا تھا جس پر میرا کنٹرول نہیں تھا۔ مجھے ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ ان کی طلب نے مجھے شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا تھا۔ یہ تشنگی مجھے اندر ہی اندر کھا رہی تھی اور میں بے بس تھی۔
میں ہر طرح کا علاج آزما چکی تھی اور ہر جگہ سے ہی مایوس ہوئی تھی۔ پھر یونیورسٹی فرینڈ نے میرا تعارف ڈاکٹر حسین قیصرانی سے کروایا۔ میں نے فون پر ہی ان سے اپنے تمام مسائل پر بات کی اور حیرت انگیز طور پر انھوں نے میری نبض دیکھے بغیر ہی میرا علاج کیا۔ یہ آن لائن ٹریٹمنٹ (Online Treatment) کی بہترین مثال تھی جہاں آپ کی دوا گھر کے دروازے پر میسر تھی۔ ان کے علاج کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہوا کہ میری زندگی میں سکون آ گیا۔ میری بے چین طبیعت میں ٹھہراؤ پیدا ہوا۔ علاج کے دوران اتار چڑھاؤ آتے رہے مگر ان کا حتمی نتیجہ ہمیشہ مثبت ہوتا۔ دوائی کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً فون پر دئیے جانے والے سائیکوتھراپی سیشنز (Psychotherapy Sessions) نے میری سوچ پر بہت خوشگوار اثر ڈالا۔ کانوں کی اذیت ناک تکلیف سے بالکل جان چھوٹ گئی۔ اب میرے کان بالکل ٹھیک ہیں۔ انفیکشن، پیپ، درد، ریشہ کچھ بھی نہیں ہے۔ کان ٹھیک ہوئے تو ایسے بہت سے کام جو میں کانوں کی تکلیف کی وجہ سے نہیں کر پاتی تھی اب آرام سے کر لیتی ہوں۔ میرا مائیگرین یعنی آدھے سر کا شدید درد (Migraine) اب بالکل غائب ہو چکا ہے۔ میں بہت ہلکا پھلکا محسوس کرتی ہوں۔ الحمدللہ مجھے دائمی اور شدید قبض (Constipation) اور بواسیری زخم درد تکلیف (hemorrhoids) سے بھی نجات مل گئی ہے اور لوز موشن والا مسئلہ بھی حل ہو چکا ہے۔
جہاں تک میری خود اعتمادی (Self Confidence) کا تعلق ہے اب میں بہت بہت بہتر ہوں۔ اب مجھے دوسروں سے بات کرنے میں پہلے کی طرح ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ میں پورے اعتماد سے بات کرتی ہوں۔ لوگوں سے ملنے جلنے میں بالکل بھی دقت نہیں ہوتی۔ دوسروں کے درمیان خود کو غیر محفوظ تصور نہیں کرتی۔ اب میں بڑے بڑے فیصلے خود کر لیتی ہوں۔ مجھے خود پر بھروسہ ہے۔ پہلے میرے لیے کسی سے بات کرنا مشکل تھا اور اب پچھلے دنوں میں نے اپنا گھر ایک شہر سے دوسرے شہر شفٹ کیا۔ اپنے بچوں کا داخلہ اپنی مرضی سے اچھے ادارے میں کروایا۔ یہ یقیناً بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اب جب بچے سکول یا کالج گئے ہوں تو میں پریشان نہیں ہوتی نہ ہی دل میں الٹے سیدھے وہم آتے ہیں بلکہ عام ماؤں کی طرح ان کا انتظار کرتی ہوں۔ بچوں کی غیر موجودگی میں بے چین نہیں ہوتی۔
میری خود اعتمادی کو بحال کرنے میں ڈاکٹر حسین کا کردار بطورِ ماہر نفسیات بہت ہی مفید رہا۔ بلاشبہ وہ بہت ہی اچھے سائیکالوجسٹ (Psychologist) اور بہترین سائکوتھراپسٹ (Psychotherapist) ہیں۔ ان کی سائیکوتھراپی (Psychotherapy) نے مجھے خود پر یقین کرنا سکھایا۔ اب مجھے بلا وجہ رونا نہیں آتا۔ جو پرانی یادیں مجھے پریشانی اور غم میں رکھتی تھیں اب غائب ہو گئی ہیں۔ میں خوش رہتی ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب مجھے کینسر (Cancer) یا کسی بڑی بیماری کا خوف نہیں ہے بلکہ خیال ہی نہیں آتا۔ میری سوچ کا انداز بدل گیا ہے۔ مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ جو بیماری ابھی کوئی وجود ہی نہیں رکھتی اس کے لیے پریشان ہونا فضول ہے لیکن پہلے یہ بات دل کو نہیں لگتی تھی۔ اب مجھ پر موت کا خوف بھی طاری نہیں ہوتا۔ اس علاج نے میرے سارے ڈر خوف اور وہم جڑ سے اکھاڑ پھینکے ہیں۔ اب میں اچھے موسم کو خراب نہیں سمجھتی اور بارش بادل سے پریشان نہیں ہوتی۔ سب لوگوں کی طرح موسم کو انجوائے کرتی ہوں۔ زلزلہ (Earthquake) مجھے بھی اتنا ہی پریشان کرتا ہے جتنا باقی لوگوں کو کرتا ہے۔ اب مجھے چھت پر جانے سے بھی خوف نہیں آتا۔
غصہ تو ایسے چلا گیا ہے کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارتی ہوں۔ بچوں سے گپ شپ ہوتی ہے۔ ان کو مارنا تو دور اب میں ان کو بے وجہ ڈانٹتی بھی نہیں۔ ایک ماں کو جتنا ڈانٹنا ڈپٹنا ہوتا ہے اتنا ہی میں کرتی ہوں۔
میرے شوہر اب بھی بیرون ملک ہیں۔ لیکن میں پہلے کی طرح بے چین نہیں رہتی۔ میرے اندر مسلسل اٹھنے والا طوفانی جذبہ اب تھم سا گیا ہے۔ میں مطمئن رہتی ہوں۔ میں جانتی ہوں یہ ساری باتیں نا قابلِ یقین ہیں ۔۔۔۔ ہو سکتا کہ پڑھنے والوں کو یہ باتیں مبالغہ لگیں مگر ایسا ہو چکا ہے اور یہی سچ ہے۔ مجھے خود بھی یقین نہیں آتا کہ میں ان تمام بیماریوں سے چھٹکارا پا چکی ہوں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایک صحت مند زندگی کی طرف لوٹ سکوں گی۔ مگر یہ اللہ کا خاص کرم ہے۔ یہ میری خوش قسمتی اور یقیناً ڈاکٹر حسین قیصرانی کی انتھک محنت اور اور لگن کا ثمر ہے کہ میں آج یہ تفصیل خوشی اور مسرت کے ساتھ شئیر کر رہی ہوں۔
آج تک ڈاکٹر حسین قیصرانی سے میری ایک بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ میں اپنے سارے مسائل فون یا واٹس ایپ پر ہی ڈسکس کرتی تھی۔ دن ہو یا رات ڈاکٹر صاحب نے کبھی بیزاری یا اکتاہٹ کا اظہار نہ کیا۔ میں جب بھی انھیں اپنا یا بچوں کا کوئی مسئلہ بتاتی تھی، اگلی صبح دوائی میرے گھر مل جاتی۔ شوہر کی غیر موجودگی میں یہ ایک بہت بڑی نعمت تھی کہ مجھے اپنے لیے یا بچوں کے لیے کسی ڈاکٹر پہ نہیں جانا پڑا۔ ڈاکٹر حسین ہر ایمرجنسی میں دستیاب ہوتے۔ انھوں نے میرے عجیب و غریب مسائل کو میری نفسیات کے مطابق سمجھتے ہوئے بڑے ماہرانہ انداز میں حل کیا۔ جب میں جسمانی اور ذہنی طور پر انتہائی مشکل وقت سے گزر رہی تھی، ڈاکٹر صاحب نے بطور سائیکوتھراپسٹ میری نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی بے ربطگی میں توازن کے اسباب پیدا کیے۔ ان کے علاج سے میری مشکل زندگی میں آسانیاں آنے لگیں۔ سچ بات یہ ہے کہ آسانیاں بانٹنے کا فن میں نے ڈاکٹر قیصرانی سے سیکھا۔
==============
3
1
vote
Article Rating
آپ ناروال کس جگہ سے ہیں میرے ساتھ بھی یہ ہی مسلہ ہے