22 سالہ صبا کو کھانا دیکھتے ہی گھبراہٹ ہونے لگتی تھی۔ کسی بھی قسم کا کھانا اپنے سامنے دیکھتے ہی ان کو جیسے متلی کی کیفیت محسوس ہونے لگتی تھی۔
ان کو ایسا لگتا تھا کہ شاید کھانا ان کے حلق میں پھنس جائے گا اور انھیں پھندا لگ جائے گا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا: ‘مجھے کھانے کی کوئی شے دیکھتے ہی ڈر لگنے لگا تھا۔ اسے دیکھتے ہی مجھے ہول اٹھتا تھا کہ اگر میں اس کے قریب بھی گئی تو مجھے کچھ ہو جائے گا۔ اور اس ڈر و خوف اور اضطرابی کیفیت نے میری زندگی ایسی اجیرن کر دی جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔’
صبا( فرضی نام)، جو خود بھی ڈاکٹر ہیں، جس کیفیت سے گزر رہی تھیں اسے طب کی زبان میں ‘اینگزائیٹی’ یا ‘اضطرابی’ کیفیت کہتے ہیں اور وہ پاکستان میں ایسے لاکھوں کم عمر افراد میں شامل ہیں جو ذہنی امراض کا سامنا کر رہے ہیں۔
لیکن تیزی سے بڑھتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لیے نہ صرف پاکستان میں ذہنی صحت کے لیے ماہر نفسیات کا شدید فقدان ہے بلکہ شاید اس سے بھی بڑی رکاوٹ اس سماجی طرز عمل کی ہے جو ذہنی امراض کے بارے میں ابھی بھی شاید مکمل آگاہی نہیں رکھتا اور نہ ہی انھیں یا متاثرہ افراد کو سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہے۔
برطانوی طبٌی جریدے لین سیٹ میں 2017 میں شائع ہونے والے مضمون میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان کی 20 کروڑ سے زیادہ کی آبادی میں سے تقریباً دو کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کے ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔
چند ماہرین کہتے ہیں کہ اس تعداد میں ایک بڑا حصہ نوجوان اور کم عمر افراد کا ہے جن کی عمریں 13 سے 30 برس کے درمیان ہیں۔
ایک اور تحقیق کے مطابق 1992 ( نو فیصد) سے لے کر 2009 ( 30 فیصد) تک پاکستان میں سکول جانے والے بچوں میں پائی جانے والی ذہنی بیماریوں میں تین گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ان نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اضطرابی کیفیت، ڈپریشن، کھانا کھانے سے متعلق مسائل، اور کئی دیگر ایسی ذہنی بیماریاں لاحق ہیں جن کے سبب وہ خود کو نقصان پہنچانے پر مصر ہوتے ہیں اور ان میں سے کئی خود کشی کی کوشش کرتے ہیں۔
اس تعداد میں پریشان کن حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور کراچی کے آغا خان ہسپتال کے ماہر نفسیات پروفیسر مراد موسیٰ خان کی جانب سے کی گئی تحقیق میں سامنے آیا کہ صرف سال 2007 میں پاکستان بھر میں سات ہزار سے زیادہ خود کشی کے واقعات پیش آئے ہیں اور یہ تعداد بھی ان کے نزدیک کم تھی کیونکہ پاکستان میں خود کشی کے واقعات سماجی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔
اس کے علاوہ انسٹیٹوٹ فار ہیلتھ میٹریکس اینڈ ایوالیوایشن کے مطابق 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں وہ طبی مسائل جن سے معذوری کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، اس میں ڈیپریشن سے پیدا ہونے والی وجوہات چھٹے نمبر پر اور اضطرابی کیفیت سے ہونے والی وجوہات نویں نمبر پر ہیں۔
کئی ماہرین کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں نتائج حاصل کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کا دباؤ، خاندانی مسائل، سوشل میڈیا اور اس سے منسلک وجوہات، اکیلا پن، اور کم عمری میں رومانوی تعلقات اور ان میں ناکامی بچوں میں ذہنی امراض بڑھنے کی اہم وجوہات بن گئے ہیں۔
ڈاکٹر مراد موسیٰ کی جانب سے 2006 میں کراچی کے طبی کالجوں میں کیے گئے سروے میں یہ معلومات سامنے آئیں کہ 70 فیصد طلبہ ڈیپریشن یا اضطرابی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔
’والدین ہمیں وقت نہیں دیتے‘
ماہرین کے مطابق بچوں کا جدید طرز زندگی اور ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں اچھی کارکردگی دکھانے کا دباؤ ان کو ذہنی امراض کی طرف لے جاتا ہے
اس حوالے سے اسلام آباد کی ماہر نفسیات ڈاکٹر ثمرہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے کلینک میں آنے والے 70 فیصد سے زائد مریض کم عمر افراد اور نوجوان ہوتے ہیں۔
‘ان آنے والے بچوں میں سے اکثریت اُن کی ہوتی ہے جن کے اپنے والدین سے اچھے تعلقات نہیں ہوتے۔’
ڈاکٹر ثمرہ نے مزید بتایا کہ ان بچوں میں سے کئی ایسے ہوتے ہیں جن کو گھر میں اپنے والدین سے توجہ نہیں ملتی۔
اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ آج کل کے بچوں کا جدید طرز زندگی اور ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں اچھی کارکردگی دکھانے کا دباؤ ان کو ذہنی امراض کی طرف لے جاتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ والدین اپنی زندگیوں میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ وہ صرف دنیاوی آسائش فراہم کر کے بچوں کو وقت دینا بھول جاتے ہیں اور جب مسئلہ حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو پھر کہیں جا کر وہ ماہر نفسیات کی جانب رجوع کرتے ہیں۔
‘آنے والے بچوں کی سب سے عام شکایت یہی ہوتی ہے کہ والدین ہمیں سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ ہمیں وقت نہیں دیتے۔’
اسی بارے میں بات کرتے ہوئے اسلام آباد کے ماہر نفسیات نوشاد انجم نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان میں ذہنی امراض کو جانچنے میں کمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ اسے باعث خفت سمجھتے ہیں اور اسے یا تو سنجیدگی سے نہیں لیتے یا اس کا علاج کرانے میں ہچکچاتے ہیں۔
‘ایک وجہ یہ ہے کہ جسمانی بیماری نظر آتی ہے اور اس کی وجہ سے آپ متاثرہ شخص یا بچے لیے ہمدردی محسوس کرتے ہیں اور انھیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں۔ لیکن ذہنی بیماری میں آپ مریض کو ڈانٹتے ڈپتتے ہیں اور اسے بیماری ہی نہیں سمجھتے تو علاج کروانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔’
’پانچ لاکھ مریضوں کے لیے ایک ماہر نفسیات‘
تاہم دوسری جانب نوشاد انجم نے کہا کہ پاکستان میں ذہنی امراض سے متاثرہ افراد میں اضافے کی اہم ترین وجہ ملک میں شدید حد تک قابل ماہر نفسیات کا فقدان اور مریضوں کے لیے ناکافی سہولیات ہیں۔
‘پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے ہمارے پاس ماہر نفسیات کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ دنیا بھر میں مانے جانے والے معیار کے مطابق ہر دس ہزار کی آبادی کے لیے ایک ماہر نفسیات ہونا چاہیے جبکہ پاکستان میں محتاط اندازوں کے مطابق ہر پانچ لاکھ افراد کے لیے ایک ماہر نفسیات ہے۔’
انھوں نے کہا کہ ملک کے بڑے شہر جیسے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں تو علاج کے لیے سہولیات اور ماہر نفسیات دستیاب ہیں لیکن ملک کے دیگر حصوں میں ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
عالمی ادارہ صحت اور حکومت پاکستان کی جانب سے 2009 میں پیش کی جانے والی مشترکہ رپورٹ اس حوالے سے افسوسناک منظر پیش کرتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں ذہنی امراض کے لیے صرف پانچ ہسپتال مختص ہیں اور پورے ملک میں موجود ذہنی امراض کے لیے موجود سہولیات میں سے محض ایک فیصد بچوں اور نوجوانوں کے لیے ہے۔
اس کے علاوہ 2016 میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق ملک بھر میں صرف 380 ماہر نفسیات ہیں جبکہ برطانوی جریدے نے 2017 میں ان کی تعداد 500 کے لگ بھگ بتائی۔
’نفسیاتی امراض کے بارے میں آگاہی بڑھانا ضروری ہے‘
ذہنی دباؤ اور اضطراب ایسی حقیقت ہیں جنھیں آپ بدل نہیں سکتے۔ اس بات کو حقیقت ماننا ہوگا کہ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں
نوشاد انجم کہتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں ذہنی امراض میں اضافے کے لیے بے تحاشہ عوامل ہیں اور ملکی آبادی، جس کی اکثریت نوجوانوں کی ہے، وہ اس سے شدید متاثر ہو سکتے ہیں جس کے لیے عوام میں آگاہی بڑھانے کی اشد ترین ضرورت ہے۔
‘پہلے سماجی حالات مختلف تھے اور لوگوں کے پاس ایسے ذرائع اور سہارے تھے جن کی مدد سے وہ متاثر نہیں ہوتے تھے لیکن اب معاملہ ایسا نہیں ہے۔ خاص طور پر کم عمر افراد پر گھر یا تعلیمی اداروں سے پڑنے والا دباؤ انھیں مشکل میں ڈالتا ہے اور وہ ناکامیوں کا سامنے نہیں کر پاتے اور ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمیں بہت ضرورت ہے کہ نفسیاتی امراض کے بارے میں آگاہی بڑھائیں اور اس کا علاج حاصل کرنے میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔’
صبا نے بھی اس بارے میں بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ خود ڈاکٹر ہونے کے ناطے ان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کن مشکلات سے گزر رہی ہیں اور انھوں نے خود ماہر نفسیات کے پاس جانے کے فیصلہ کیا۔
‘میں چار مہینے تک کاؤنسلنگ کے لیے ماہر نفسیات کے پاس گئی تھی جس کے بعد آہستہ آہستہ میری طبیعت بہتر ہونا شروع ہوئی۔’
ذہنی امراض سے متاثرہ دوسرے مریضوں کے لیے صبا کا کہنا تھا کہ اس بات کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے کہ کسی ماہر سے بات چیت کرنا بہت سود مند ہوتا ہے اور وہ پریشانیوں کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
‘ذہنی دباؤ اور اضطراب ایسی حقیقت ہیں جنھیں آپ بدل نہیں سکتے۔ اس بات کو حقیقت ماننا ہوگا کہ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں اور صرف اسی صورت میں اس کیفیت سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ہم ان کو اپنے اوپر طاری ہونے نہیں دے سکتے۔’
بشکریہ: بی بی سی اردو