احتلام، نائٹ فال، ناپاکی سے بہت تنگ اور طہارت کے خواہش مند 34 سالہ مسٹر چوہدری سیالکوٹ کے رہائشی ہیں۔ وہ عرصہ دس گیارہ برس سے مسلسل اور تقریباً ہر دوسری رات کی بنیاد پر احتلام کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ ٹاپ ایلوپیتھک ڈاکٹرز، ماہر حکیم صاحبان، بہترین روحانی علاج اور لاہور کے مشہور ترین ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے لمبے لمبے علاج کروا چکے تھے۔اگرچہ ہومیوپیتھک دوا علاج سے بھی انہیں کوئی افاقہ نہیں ہو پایا تھا تاہم وہ پھر بھی ہومیوپیتھی کو اِس لئے مزید جاری رکھنا چاہتے تھے کہ اُن کے خیال میں اِس کا اگر فائدہ نہ بھی ہو تو کم از کم نقصان تو نہیں ہوتا۔وہ دوائیوں کے سائیڈ افیکٹ سے بہت ڈرتے تھے۔ طویل بیماری اور ہر آئے دن کے احتلام نے ذہنی، جذباتی، نفسیاتی اور جسمانی سطح پر انتہائی کمزور کر رکھا تھا۔
شدید جسمانی اور اعصابی کمزوری ، پٹھوں کا کھچاؤ، مستقل سستی، نقاہت، یورک ایسڈ کی زیادتی جیسے مسائل سالوں سے تنگ کر رہے تھے۔
ایک دوست کے مشورے پر انہوں نے وٹس ایپ پر رابطہ کیا۔ تمام معاملات کال پر ڈسکس کئے مگر پھر رابطہ نہ کیا۔ دو ماہ بعد علاج کے لئے رابطہ کیا تو بتایا کہ وہ استخارہ کر کے ہی میرا علاج کروانا چاہتے تھے۔
کیس ٹیکنگ کے بعد درج ذیل تفاصیل حاصل ہوئیں۔
احتلام nightfall
ہفتے میں تین چار مرتبہ احتلام کی شکایت ہوتی تھی۔ یہ صبح بیدار ہونے سے کچھ پہلے کا وقت ہوتا تھا۔ عام طور پر صبح آٹھ سے گیارہ بجے یا پھر رات دو سے چار بجے کے دوران احتلام کی شکایت تقریباً کنفرم ہوتی تھی۔ احتلام کا اخراج پانی کی طرح پتلا ہوتا تھا اور اس کے بعد سارا جسم شدید درد کرتا تھا۔ ٹانگوں اور بازوؤں میں کھچاؤ محسوس ہوتا تھا۔بے پناہ اعصابی کمزوری اور نقاہت ہو جاتی تھی۔ بستر سے نکلنے اور اٹھنے میں گھنٹوں لگ جاتے۔ احتلام جیسے روٹین کا حصہ بن چکا تھا۔
جسمانی درد bodyaches
ہڈیوں میں درد رہتا تھا ۔ ہر جوڑ دکھتا تھا۔ خاص طور پر ہاتھ اور پاؤں بہت درد کرتے تھے۔بدن ٹوٹتا تھا۔ کمزوری کا احساس بہت زیادہ ہوتا تھا گویا جسم میں جان ہی نہیں ہے۔
صبح بستر سے نکلنے اٹھنےکی ہمت ہی نہیں پڑتی تھی۔ طبیعت مستقل بوجھل رہتی تھی۔
ڈپریشن اور انگزائٹیdepression & anxiety
ذہنی سکون بالکل بھی نہیں رہا تھا۔ دھیان ہر وقت اپنی بیماری کی طرف رہتا تھا۔ کھانے پینے میں بھی یہی ٹینشن رہتی تھی کہ یہ کھاؤں یا نہ کھاؤں۔ یہ چیز تاثیر میں گرم ہے اور یہ ٹھنڈی۔ اس کے کھانے سے مثانے کی گرمی بڑھ جائے گی تو اُس کے پینے سے جگر پر بوجھ پڑے گا۔ یہ معدہ میں تیزابیت کرے گی تو وہ پٹھے اعصاب اور مردانہ طاقت کو برقرار رکھنے میں مدد دے گی۔ ہر کھانے پینے کے ساتھ صحت کا معاملہ دل دماغ پر حاوی رہتا۔ سارا دن دل دماغ پر یہ بات سوار ہوتی کہ احتلام نہ ہو جائے۔گوگل یوٹیوب سرچ پر بھی اُن کے موضوعات ہوتے تھے۔ اگر کوئی دو دن ایسے گزر جاتے کہ احتلام نہ ہوتا تو یہ پریشانی سوار ہو جاتی کہ اندر کہیں کوئی بڑا مسئلہ ہی نہ ہو گیا ہے۔
دماغ پہ ٹینشن سوار رہتی تھی کہ احتلام ہو گیا تو کیا ہو گا۔پھر طبیعت خراب ہو گی۔کہیں جانے سے کتراتے تھے کہ وہاں بھی احتلام ہو گیا تو کیا کروں گا۔ پھر صبح اٹھا ہی نہیں جائے گا۔ سستی ہو گی تو سارا دن خراب ہو جائے گا۔سوشل لائف محدود ہو کے رہ گئی تھی۔ما شا٫ اللہ بہت مذہبی رجحان رکھتے تھے اس لئے پاکی اور ناپاکی ہر وقت دل و دماغ پر حاوی رہتی تھی۔ہر مرتبہ احتلا م جہاں بہت سی جسمانی تکالیف کا باعث بنتا تھا وہیں ناپاکی کا احساس ذہنی کرب میں بے پناہ اضافہ کرتا تھا۔
حساسیت sensitivity اور قوت فیصلہ کی کمی indecisiveness
کسی بھی قسم کی لغو گفتگو برداشت نہیں ہوتی تھی۔ جہاں مذاق میں بھی کوئی ایسی ویسی بات ہوتی تو وہاں سے چلے جاتے۔ موبائل میں بھی کوئی تصویر یا ویڈیو بھی دیکھ لیتے تو سارا دن رات وسوسوں، منفی خیالات اور عجیب سوچوں بلکہ کشمکش میں گزرتا۔ اس کو بہت بڑا گناہ سمجھتے اور یہ خیال آتا کہ دن رات کی عبادات اور تسبیحات کا اجر خود اپنے ہاتھوں بلکہ آنکھوں سے ضائع کر دیا۔ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو گناہ ثواب، عذاب، غلط صحیح کے ترازو میں تولتے اور اپنا اعمال نامہ چیک کرتے رہتے تھے۔ مزاج میں بہت نرمی آ چکی تھی۔ اگرچہ ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے اور کاروبار پراپرٹی معاملات میں بھی خوب دسترس تھی مگر اب سب چھوڑ چھاڑ کر اپنے آپ کو اللہ اللہ کرنے پر وقف کر لیا تھا۔ خوفِ خدا اور اہل ترسی کی وجہ سے کسی کی غلطی پر کچھ کہنا بھی پچھتاوے کا باعث بنتا اور دوسرے دن کچھ ایسا کر کے مداوا کرنے کی کوشش کرتے کہ جس سے اُس کا دل نارمل ہو جائے یا اُس کی آہ نہ لگ جائے اور اللہ ناراض نہ ہو جائے۔
بہت سارے معاملات الجھے ہوئے تھے۔ کنفیوژن، الجھن، اور کشمکش عروج پر تھی۔ ڈبل ٹرپل مائنڈڈ رہتے تھے۔ایک سوچ فیصلہ کرتے کہ شادی کر لوں مگر خود ہی دلائل دل دماغ میں چل پڑتے کہ اِس کمزوری اور بے جان کیفیت میں شادی کے تقاضے کیسے نبھا پاوں گا۔ خود تو ہر لحاظ سے فارغ ہوں ہی مگر ایک اَور انسان کی زندگی برباد کر کے اللہ کے عذاب کو کیوں دعوت دوں؟
تعلیم کے لئے آسٹریلیا میں کچھ عرصہ لگا آئے تھے۔ احتلام کا مرض وہیں پر شروع ہوا تھا سو وہاں جانے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ اب برطانیہ جانے کے منصوبے بناتے اور ساتھ ہی اُسی زور شور سے بگاڑتے بھی رہتے تھے۔
ہر وقت کشمکش confusion رہتی تھی۔ شادی کروں یا ابھی نہ کروں۔پہلے بزنس سیٹ کر لوں یا شادی کر لوں۔ شادی شدہ زندگی کیسی ہوگی۔ کیا موجودہ مسائل کے اثرات آنے والی زندگی پر پڑیں گے۔ کیا میں ایک خوشگوار ازواجی زندگی گزار سکوں گا۔ جنسی کمزوری، بے اولادی، مردانہ کمزوری کے معاملات کی سوچ آتے ہی دل بیٹھ جاتا اور پینک اٹیک کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی۔
ذہن اس طرح کے شکوک و شبہات میں الجھا رہتا تھا۔احتلام سے بچنے کی دعائیں، ورد وظائف کرتے، علما٫ کرام کے بیانات سنتے اور موٹیویشنل لیکچرز سنتے مگر یہ سب بہت وقتی اثر کرتے اور کبھی تو بالکل بھی نہ کرتے۔
کچھ عرصہ سے یہ سوچ بھی دماغ میں پھنس گئی تھی کہ یہ سب اللہ کا عذاب ہے، میرے کسی کئے کی سزا یا پکڑ ہے کہ مجھ پر کچھ بھی اثر نہیں کرتا۔ یہ احساس بہت مایوس کن ہوتا تھا۔
غصہ anger
غصہ بہت آتا تھا مگر اب کنٹرول بلکہ سپریس کر لیتے تھے۔ چڑچڑا پن irritation بڑھتا جا رہا تھا۔ کوئی بات کرتا تو الجھن ہونے لگتی۔ دل کرتا کہ بس یہ جلدی جلدی بات ختم کرے۔ ویسے بھی مزاج میں ہر معاملہ میں جلدی کا مزاج ہمیشہ سے رہا تھا مگر سالہا سال کی بیماری اور ناکام علاج نے اب سستی بلکہ ٹھہراو کی کیفیت پر مجبور کر دیا تھا۔
معدے کے مسائل stomach issues ۔ آئی بی ایس Irritable bowel syndrome IBS ۔
معدہ بہت ہی زیادہ ڈسٹرب رہتا تھا۔ کھانے کھاتے ہی تھوڑی دیر بعد پاخانے کی حاجت ہوجاتی تھی اور پیٹ خالی ہو جاتا تھا۔ پیٹ میں شدید درد اور مروڑ اٹھتا تھا۔ بدہضمی اور تیزابیت کے ساتھ ساتھ بلوٹنگ کی شکایت آئے دن ہو جاتی تھی۔ خالی معدہ میں بھی بہت زیادہ تیزابیت ہو جاتی یا اتنی زیادہ گیس بنتی کہ بے چین کر دیا کرتی۔ وہ کھانے پینے میں حد درجہ احتیاط اور پرہیز کے باوجود معدہ کے مسائل میں پھنسے ہوئے تھے۔ کوئی آئی بی ایس بتاتا تو کوئی ایچ پائیلوری (H. Pylori) ، کوئی ان مسائل کو السر تشخیص کرتا۔ اُن کا خیال تھا کہ بارہ سال پہلے انجنیرنگ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے جب وہ آسٹریلیا میں مقیم تھے تو کھانا پینا بالکل ہی ڈسٹرب ہو گیا۔ یونیورسٹی کے قریب جو ایک دو حلال ایشین کھانے دستیاب تھے، صرف انہی پر ہی گزارا کیا۔ اس دوران سبزی فروٹ وغیرہ بالکل نہیں کھایا۔ اُسی دوران معدہ ہاضمہ نیند ڈسٹرب ہوئی اور پھر احتلام () نے زندگی کا سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا۔
بند کان blocked ear
کان میں شدید درد رہتا۔کان بند محسوس ہوتا تھا۔ایسے لگتا تھا جیسے کوئی ہتھوڑے مار رہا ہے ۔اکثر اوقات کان میں ایسا شور محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی ٹرین چل رہی ہو۔ مسلسل بند کان کا احساس بہت ڈسٹرب رکھتا تھا۔ درد کی شدت میں چیخنے کو دل کرتا تھا۔ شدید قسم کی انگزائٹی ہو جاتی۔ کان درد اتنا شدید ہو جاتا کہ کسی پین کلر یا دوا سے آرام نہ ہو پاتا۔ کان کا درد شروع ہوتے ہی وہ ہسپتال پہنچتے اور انجیکشن ڈرپس لگوا لیا کرتے۔ یہ سلسلہ بھی سالوں سے جاری تھا۔
کورونا کا ڈر fear of corona
کورونا کا شدید خوف corono phobia رہتا تھا۔ذہنی دباؤ بہت زیادہ تھا۔ ہر وقت ذہن پہ یہ سوار رہتا کہ کہیں کورونا نہ ہو جائے۔ احتیاطی تدابیر کا بہت ہی زیادہ خیال رکھتے تھے۔ باہر نہیں نکلتے تھے۔ کھانے پینے میں محتاط تھے۔ہر ممکن طریقے سے کورونا سے بچنا چاہتے تھے۔
فیملی ہسٹری
فیملی ہسٹری میں ہر طرح کی بڑی بیماریاں تھیں۔ والدہ اور والد دونوں کو نوجوانی میں ہی دل کے مسائل بیماریاں لگ گئی تھیں۔ خاندان میں چھوٹی عمر میں ہارٹ اٹیک سے وفات کے کیس ہو چکے تھے۔ جذباتی، نفسیاتی اور ذہنی مسائل بھی فیملی میں ہر دوسرے فرد کو ہو چکے تھے۔ خواتین میں مینسز ، پیریڈز اور ہارمون کے مسائل بڑے واضح تھے۔
۔
متفرق علامات، معاملات اور مسائل
مثانے میں گرمی کمزوری bladder issue کا احساس تھا۔ ہاتھ اور پاؤں بہت جلتے تھے۔ سر میں اکثر درد رہتا تھا۔
پیٹ کے بل، اُلٹا یعنی سجدے کی طرح ہو کر سونے کی عادت تھی۔ سیدھا یا دائیں بائیں سائیڈ پر سو نہیں سکتے تھے۔
یورک ایسڈ زیادہ تھا۔نوجوانی میں ہی بالوں کے مسائل شدت اختیار کر گئے تھے۔ پچیسوں سال تک پہنچتے پہنچتے تمام جسم کے بال مکمل سفید ہوچکے تھے۔
فرائڈ چیزیں، پراٹھا، میٹھا ،پنیر،گوشت کھانا بہت پسند تھا۔ فاسٹ فوڈ کے بھی شوقین تھے۔کئی سالوں سے اب صرف پرہییزی کھانے پر گزارا تھا۔
کیس کا تجزیہ ۔۔ ہومیوپیتھک دوا علاج (ہومیوپیتھی سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز کے لئے)
یہ ایک سادہ سا کیس تھا مگر بے شمار ناکام علاج اور بے پناہ دوائیوں کے سالہاسال استعمال سے اب بہت پیچیدہ بن گیا تھا۔ جس مریض کی ذاتی یا فیملی ہسٹری میں دل یا تولیدی نظام یا جنسی مسائل کے امراض بہت واضح ہوں تو اُس کی اہم ترین یا میازمیٹک دوا میڈورائنم ہوا کرتی ہے۔ اس کیس میں بھی علامات، میازم، ایفیکیسی، افینیٹی، کانسٹی ٹیوشن اور ریپرٹرازیشن گویا ہر پہلو سے اہم ترین دوا میڈورائنم ہی بنتی نظر آتی ہے.
چوں کہ سال بھر میں اُس نے بے شمار ہومیوپیتھک دوائیں استعمال کی ہیں جس کی وجہ سے پورا آرگنزم بالکل ہی کنفیوژ ہو چکا ہے، اِس لئے کیس کو حل کرنے میں سٹریٹیجی اور پلاننگ بھی بہت اہم ہے۔ وائٹل فورس (قوتِ مدافعت) کو توازن میں لانے کے لئے بیماریوں کو توجہ دینے کی بجائے بیمار پر فوکس کیا جانا پہلی ترجیح ہونی چاہی۔
سب سے پہلے ہومیوپیتھک دوا ایلو دی گئی تاکہ معاملات و علامات واضح ہو سکیں۔ اس سے سال بھر میں استعمال میں لائی گئی ہومیوپیتھک دوائیوں کے اثرات کو نارمل کرنا مقصود تھا۔ دو ہفتے بعد کیس ریویو کیا گیا تو اندازہ ہوا کہ مریض کا احتلام کا مسئلہ شدید نوعیت اختیار کر گیا ہے۔وہ مزید کنفیوز ہو گئے تھے کہ پہلے ہومیوپیتھی ڈاکٹر صاحب کا علاج ہی جاری رکھنا بہتر تھا۔ معدہ کے مسائل میں معمولی بہتری تھی مگر خالی معدہ تیزابیت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی اس لئے اُن کو کچھ نہ کچھ کھاتے یا پیتےرہنا پڑتا تھا۔ اِس دوران کان کا بہت شدید درد بھی ہوا جس کے لئے ہسپتال جا کر انجیکشن لگوائے۔
مریض کو واضح ہدایت دی گئی کہ کوئی بھی معاملہ مسئلہ تنگ کرے تو دوائی لینے کے بجائے انفارم کیا جائے۔ اگلے دن کان درد کا مسئلہ دوبارہ شروع ہو گیا اور مسٹر چوہدری ہسپتال جانے کے لئے بے قرار ہو گئے۔ کالی میور۳۰ دوا تجویز کی گئی جو انہوں نے نہ چاہتے ہوئے شروع کی۔ انہیں بالکل بھی یقین نہیں تھا کہ اُن کا سالہا سال پرانا کان درد اس طرح کنٹرول ہو جائے گا۔
کان درد کنٹرول ہونا شروع ہو گیا۔ کبھی کچھ بڑھ جاتا اور پھر ٹھیک ہو جاتا۔ اس دوران ساری تفصیل اور تبد لیاں وہ شیئر کرتے رہے۔ کان درد کے معاملات جب تک وہ برداشت کرتے رہے اور وہ حل بھی ہوتے رہے، اُس عرصہ میں احتلام، معدہ اور سر درد وغیرہ کی تکالیف جیسے بالکل ٹھیک ہو گئی ہوں۔
۔
میڈورائنم ہر ماہ ایک بار دی جاتی رہی کیوں کہ یہی اِن کی اہم ترین دوا تھی۔ رات کو دماغ بہت ایکٹو ہو جاتا اور انہیں نیند نہیں آتی تھی۔ آسٹریلیا میں کوئی کام بھی نہیں تھا۔ یونیورسٹی صرف تین دن ہی جانا ہوتا تھا۔ دیر تک متواتر جاگتے رہنے کی وجہ سے صبح اس لئے نہیں سوتے تھے کہ فجر کی نیند ڈسٹرب ہو جائے گی۔ یہ سرکل اور روٹین سالوں سے جاری تھی۔ احتلام عموماً صبح ہی کے بعد ہوتا تھا۔ یہ سرکل توڑنے میں میڈورائینم نے اہم کردار ادا کیا اور کیس کھل گیا۔
مسٹر چوہدری کی معدہ میں تیزابیت، منفی سوچیں، کنفیوژن اور خالی معدہ طبیعت کی خرابی نے توجہ اناکارڈیم کی طرف مبذول کروائی۔ اناکارڈیم نے اُن کو فوکس کیا، بیماریوں پر متواتر سوچنے اور گوگل کرنے سے بھی نکالا۔
نیٹرم فاس تیسری اور اہم دوا اس کیس کو حل کرنے میں ثابت ہوئی۔ ایسا متواتر احتلام جس کے ساتھ معدہ خرابی اور تیزابیت واضح منسلک ہو ہماری توجہ نیٹرم فاس کی طرف مبذول کراتا ہے۔ جارج وتھالکس کے وتھالکس کمپاس ریپرٹری میں نیٹرم فاس کا درجہ احتلام کی دوائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔
فاسفورک ایسڈ اور چائنا کبھی کبھار ۳ ایکس میں دی جاتی رہیں۔ اِن کا درجہ پلاسبو کا تھا یا کسی حد تک ضائع شدہ انرجی یا مردانہ کمزوری میں بحالی میں مدد فراہم کرنا۔
کامیاب علاج کے بعد سلام دعا یا کسی مریض کو ریفر کرنے کے حوالہ سے رابطہ رہا۔ کرونا کی شدت کے دنوں میں بھی کبھی کبھار کچھ ڈسکس کر لیتے۔ تقریباً سات ماہ علاج جاری رہا اور پھر صحت اور خوشیوں والی زندگی کی طرف واپس آ گئے تو بڑے اہم فیصلے کرنا بھی آسان ہو گیا۔ اس دوران لاہور ہی میں اپنا کاروبار سیٹ کیا۔ ڈی ایچ اے لاہور میں پلاٹ لے کرگھر بنا لیا۔ گھر بن گیا تو گھر والی کا فیصلہ کرنا اتنا مشکل نہ رہا۔
چند ماہ قبل اب جب شادی کے دن مقرر ہوئے تو انہوں نے پھر رابطہ کیا کہ میں ہر پہلو سے دیکھ سمجھ سکوں کہ اُن کی سالہا سال کی اعصابی کمزوری کے اثرات شادی شدہ زندگی پراب یا مستقل میں تو نہیں پڑیں گے۔ اُن کی کمزوری کے معاملات اور فکرمندی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے شادی کورس بھی جاری کر دیا گیا۔
الحمدللہ! خیر و خوشی سے شادی کے مراحل بخیر و خوبی سر انجام پا گئے اور وہ نئی زندگی کو صحت و خوشحالی اور مزے سے گزار رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
حسین قیصرانی ۔ سائکوتھراپسٹ اینڈ ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔ْ۔
5
2
votes
Article Rating