سپیچ ڈیلے، مسلسل بے چینی، دوڑبھاگ، مار دھاڑ، نیند کے مسائل ۔ کامیاب کیس، ہومیوپیتھک دوا علاج۔ حسین قیصرانی

کیس پریزینٹیشن، کمپوزنگ: مہر النسا

بلال کی والدہ نے اپنے بیٹے کے علاج  کے لیے کراچی سےرابطہ کیا۔ محترمہ خود بھی  بلکہ  اُن کی والدہ تک میرے زیرِعلاج رہ چکی تھیں۔ بیٹےکے مسائل نے انھیں کافی پریشان کر رکھا  تھا۔  وہ بات چیت نہیں کر پاتا تھا۔ عجیب و غریب قسم کے ڈر خوف اور فوبیاز بچے کے دماغ پہ چھائے رہتے تھے۔ سوچنے ، سمجھنے اور خاص طور پر اپنی بات یعنی خواہشات کا  اظہار نہ کر سکنے کی وجہ سے معاملات خراب ہو رہے تھے۔ تفصیلی انٹرویو سے درج ذیل صورت حال  سامنے آئی۔

بلال کی طبیعت بہت بے چین (restless)  تھی۔ ہر وقت کھیلنا چاہتا تھا۔ سکون سے  بیٹھ ہی نہیں سکتا تھا۔ کچھ نہ کچھ مسلسل (overactive)  کرتا  تھا۔ بات نہیں کر پاتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے چند  ہی الفاظ بولتا تھا مگر  پوری طرح اپنی بات کا اظہار نہیں کر پاتا تھا۔

بچوں کے ساتھ کھیلتا نہیں تھا بلکہ انہیں مارتا تھا اور مار کر خوش ہوتا تھا۔بڑا ہو چھوٹا ہو سب کو مارتا تھا۔ اس کو لگتا تھا کہ مارنا بھی ایک  کھیل ہے۔ جب ماں مارنے سے روکتی یا پکڑنے کی کوشش کرتی تو خوب ہنستا اور دوڑ لگا دیتا تھا اور موقع ملتے ہی پھر دوسرے بچوں کو مارنے پہنچ جاتا تھا۔

طبیعت میں بے حسی نمایاں تھی۔ کسی کی تکلیف محسوس نہیں کرتا  تھا۔ ماں  کو لاتیں مارتا رہتا تھا۔ سر پٹختا رہتا تھا۔ دانتوں سے کاٹتا  تھا۔ 

واش روم میں بہت ڈرتا (washroom phobia تھا۔ کموڈ اور ٹوائلٹ سے خوف محسوس کرتا تھا۔پاٹ پر نہیں بیٹھتا تھا۔ حاجت کے وقت پنجوں کے بل چلتا تھا،بے آرا م   ہوتا تھا۔ پریشان رہتا تھا مگر واش روم نہیں جاتا تھا۔ ڈائپر ہی استعمال کرنا پڑتا تھا لیکن ڈائپر  میں بھی پاخانہ کرتے وقت بیٹھتا نہیں تھا۔ بھاگتے دوڑتے    ہوئے پاخانہ کرتا تھا۔ پاخانہ اکثر  بدبودار ہوتا تھا۔

اس کے لیےبیٹھ کر کہانی سننا یا  آرام سے بیٹھ کر کھیلنا ممکن نہیں تھا۔  فیملی کے ساتھ بیٹھ کرٹی وی نہیں دیکھتا تھا۔ٹک کر بیٹھنا اسے آتا ہی نہیں تھا۔ہر وقت ایک ہلچل  چاہتا تھا۔ گاڑیاں  بہت پسند تھیں۔سپیڈ سے بھاگتی ہوئی گاڑیاں اچھی لگتی تھیں۔ ٹیلیویژن  پر بھی صرف بھاگتی  دوڑتی  گاڑیاں دیکھتا تھا۔کھلونوں میں صرف کاریں ہی لیتا تھا۔ کسی قسم کا پزل یا اور کھلونا پسند نہیں کرتا تھا۔ گاڑیوں کاجنون تھا۔اگر آدھی رات کو بھی اس کی آنکھ کھلتی کسی گاڑی کو ڈھونڈنے لگ جاتا   اور وہی گاڑی   نہ  ملنے پر   خوب روتا تھا اور باقی کی رات اسی طرح یعنی روتے اور رولا ڈالتے گزر جاتی تھی۔

پارک میں باقی بچوں کی طرح کھیلنے کی بجائے الٹے کاموں کی طرف دھیان ہوتا تھا۔ سلائیڈ پر الٹی سائیڈ سے دوڑ کر چڑھتا تھا اور دوڑ  کر اترتا تھا۔نڈر تھا۔ اگر کھیلتے ہوئے گر جاتا تو فوری اٹھ کر پھر کھیلنے لگتا ۔ پتے توڑتا ،  پودے خراب کرنے کی کوشش کرتا ،   گھاس اکھیڑتا تھا اور  دوسروں پر مٹی پھینکنے لگتا تھا۔بچوں کے ساتھ دوڑ لگانا پسند تھا لیکن جب دوسرے بچے تھک جاتے تو یہ انہیں مارتا تھا کہ ابھی اور دوڑنا ہے۔ یہ خود جتنا بھی بھاگ لیتا اسے تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ اسے مسلسل جمپ کرنا،  اچھلنا کودنا   پسند تھا۔

پورے دن میں کوئی ایک بھی لمحہ ایسا نہیں آتا تھا کہ وہ تھک جائے اور آرام سے بیٹھ جائے۔ سارا دن بھاگ دوڑ کے بعد  تھکاوٹ سے رونے لگتا، آنکھیں مسلتا، ضد کرتا اور ٹانگیں چلاتا تھا مگر آرام سے بیٹھتایا لیٹتا  نہیں تھا۔ جو پاس جاتا ،  اس کو مارنے لگتا  تھا۔

ہر چیز منہ میں ڈال لیتا تھا۔تکیہ  کا کنارہ ہو یا ماں کا دوپٹہ یا اپنی شرٹ کا کالر منہ میں لے کر چوستا تھا۔ کاغذ، کنکر منہ میں ڈال کر چوستا رہتا تھا۔ مٹی کھاتا تھا۔ٹشو پیپر  اور گتہ بھی اس کی خوراک بنتے تھے۔

ماں کو کوئی بھی کام نہیں کرنے دیتا تھا۔ اس کے ہر کام میں رونا دھونا شروع کر دیتا تھا  کیونکہ  اسے مسلسل توجہ چاہیے۔ زمین پر لیٹ جاتا  ، روتا اور ضد  کرتا تھا۔ کسی بھی طرح اس کی توجہ کسی اور طرف مبذول  کرنا   ناممکن تھا۔ ماں کو زچ کر دیتا  اور تب تک باز نہیں آتا جب تک ماں اپنا کام چھوڑ کر اس کی بات نہیں مان لیتی تھی۔

چھوٹی چھوٹی بات پر رونا ، ضد کرنا  اور تنگ کرنا روز کا معمول تھا۔ اپنی بات کا اظہار بھی   دوسرے کو  مار کر یا کوئی چیز پھینک کر کرتا تھا۔

باہر جانے کا بہت شوق تھا۔ کوئی بھی باہر جا رہا ہوتا تو تیار ہو جاتا کہ لازمی باہر جانا ہے۔اگر کوئی باہر جاتے ہوئے اسے ساتھ نہ لے کر جاتا  توگیٹ پر ہی لیٹ جاتا  اور  رونا دھونا شروع کر دیتا تھا۔ جس بات سے منع کرو وہ کام لازمی کرتا تھا۔

انتظار نہیں کر سکتا۔ روٹی پکنے کا انتظار نہیں کرتا تھا۔ جو مانگا وہ فورا چاہیے۔روٹی پکنے تک   مسلسل روتا تھا اور پھر یہ رونا کھانے کے دوران بھی جاری رہتا تھا۔

اپنے کپڑے خود پسند کرتا تھا۔ اگر پسند نہیں آتے تھے تو پہنتا ہی نہیں تھا۔اگر پہنا دیے تو تب تک روتا رہتا تھا جب تک وہ کپڑے بدلے نہ جاتے تھے یا پھر وہ کھینچ کھینچ کر کپڑے پھاڑ دیتا تھا۔ جوتے بھی میچنگ کر کے پہنتا تھا۔

بال کٹوانے کے دوران اتنا شدید روتا  تھاکہ ماتھے کی نسیں پھول جاتی تھیں ۔لمباسانس کھینچ لیتا تھا۔سارا  جسم اکڑا لیتا تھا۔ اسی طرح  دانت  بھی برش نہیں کرتا تھا۔زبردستی کوشش کرنے پرمنہ    بھینچ لیتا تھا۔ برش کو منہ میں دبا لیتا تھا۔  ماں منہ کھولنے کی کوشش کرتی تو  اس کے ہاتھوں پہ کاٹ لیتا تھا۔

نیند میں چادر نہیں لیتا تھا۔  سوتے  ہوئے  بہت بے چین رہتا تھا،  ٹانگیں  اٹھا اٹھا کر مارتا ،  مسلسل کروٹیں لیتا تھا اور  ہاتھ پاؤں چلاتا رہتا تھا۔

 

کھانے پینے میں  پسند یا ناپسند:-

شدید میٹھا پسند تھا۔ شکر، شہد،  کیک، براؤنیز،لڈو، برفی اور ہر میٹھی چیز شوق سے کھاتا تھا۔دودھ شوق سے پیتا تھا۔

پھل پسند نہیں تھےاور گوشت بھی نہیں کھاتا تھا۔

کیس کا تجزیہ، ہومیوپیتھک دوائیں اور علاج:-

بلال   شروع ہی سے بہت پھرتیلا بچہ تھا۔  ہر وقت متحرک، سرگرم اور غیر معمولی حد تک ایکٹو  تھا۔مسلسل کسی نہ کسی کھیل  میں مصروف رہنا چاہتا تھا ۔ بھاگنا دوڑنا بہت پسند تھا۔ کسی جگہ آرام سے بیٹھ  نہیں سکتا تھا۔بابندی بالکل برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ ہر اس جگہ سے   جو بند ہو، تنگ ہو یا جہاں پھنس جانے کا احساس  ہو، اس کے مسائل  بڑھ جاتے تھے  اور شدید ردعمل کا اظہار کرتا تھا۔ ہر وقت ماں کی توجہ چاہتا تھا۔ توجہ حاصل کرنے کے لیے مختلف شرارتیں کرتا  تھا۔ میٹھا شدید پسند تھا۔اس بچے  میں ADHD کی  علامات  واضح طور پر موجود تھیں۔ والدین کو میرے علاج اور ہومیوپیتھی سے خوب آگاہی تھی، سو انہوں نے اپنے بیٹے کا کیس پوری وضاحت سے ڈسکس کیا۔ علاج کے دوران جو مسائل اور مشکلات آئیں، انہیں بھی پورے تعاون اور ذمہ داری سے نبھایا۔والدین اس بات سے مکمل آگاہ تھے کہ اگر باقاعدہ علاج نہیں ہو پاتا تو بلال سکول جانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ سکول میں اس کے رویئے کی وجہ سے آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر یا ہائپرایکٹو کا لیبل لگنا کنفرم تھا۔ 

بیتے کا کیس ٹیوبرکولینم، ارجنٹم نائٹریکم ، آرسنیک البم  کی واضح علامات لئے ہوئے تھا۔ اوپر کی  لئیرز اترنے کے بعدآخر میں  کاسٹیکم اور میڈورائنم کی بھی ضرورت پڑی۔

ٹیوبرکوینم ہر ماہ ایک بار دی گئی۔ ارجنٹم نائٹریکم کا کردار اس کیس کی کامیابی میں بڑا واضح رہا۔ درمیان میں حسبِ ضرورت نزلہ زکام گلا خرابی کی صورت میں آرسنیک البم  بھی دی گئی۔ 

 

والدہ کا فیڈبیک:

مجھے یہ فیڈبیک لکھتے ہوئے بےحد خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ بیٹے کی صحت یابی کی صورت میں جو تبدیلیاں  ہماری زندگی میں آئی ہیں، چند ماہ پہلے تک میں ان کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔الحمدللہ اب میرا بیٹا بولنے لگا ہے۔ میں کتنی پریشان تھی کہ میرا بیٹا دوسرے بچوں کی طرح باتیں نہیں کرتا مگر اب وہ نئے نئے الفاظ سیکھتا ہے دوسروں کی باتیں سن کر دہراتا بھی  ہے نظمیں  پڑھتا ہے۔ پہلے یہ ہر وقت  چاہتا تھا کہ میں اس کے ساتھ رہوں۔ صرف اس کو مسلسل توجہ دوں۔

چیزوں کو توڑتا پھوڑتا رہتا تھا۔ سکون سے بیٹھنا ناممکن تھا۔ تقریباً ڈھائی سال کا ہوگیا تھا مگر ابھی تک ڈائپر استعمال کرنا پڑتا تھا۔ واش روم جانے سے تو بہت ڈرتا تھا۔ لیکن اللہ کے کرم سے اب خود واش روم جاتا ہے خوب کھیلتا ہے پزل بناتا ہے اور خود کھانا کھا لیتا ہے۔

اب مجھے مارتا نہیں ہے نہ ہی کاٹتا ہے ورنہ اچانک دانتوں سے زور سے کاٹ لیتا تھا۔ جب مہمان آتے ہیں تو اب ان کے بچوں  سے لڑتا  نہیں ہے بلکہ کھیلتا ہے۔ اس کی طبیعت میں ٹھہراؤ آ گیا ہے۔ پر سکون نیند سوتا ہے۔ رات کو بار بار جاگتا نہیں ہے۔ علاج سے پہلے آدھی رات کو اٹھ کر کسی کھلونے کی ضد کرتا  شروع کر دیتا اور خوب روتا تھا۔ لیکن شکر ہے کہ اب ایسا نہیں ہوتا۔ آرام سے سوتا ہے اور صبح فریش اٹھتا ہے۔ میری بات سن  لیتا ہے۔جس کام سے منع کروں مان جاتا ہے۔  اپنے کھلونوں سے کھیلتا ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ دانت برش کر لیتا ہے جو  کہ پہلے بالکل بھی نہیں کرتا تھا۔ خود ہاتھ دھو لیتا ہے۔ خوشی خوشی نہا لیتا ہے۔ بال کٹوا لیتا ہے۔ پہلے تو یہ سب کام تقریباً ناممکن تھے۔خاص طور بال کٹوانا  تو بے حد مشکل تھا۔ یہ اتنا روتا تھا کہ اس کا سانس ہی رک جایا کرتا تھا۔ یہی صورت حال  برش کرنے کی تھی۔ دانت زور سے بند کر لیتا اور میرے لیے برش کروانا مشکل ہو جاتا تھا۔

ڈاکٹر حسین قیصرانی کے علاج سے یہ مسئلے صرف چار ماہ میں حل ہو گئے ہیں۔ اب وہ سب کام عام بچوں  کی طرح  کرنے لگا۔ پڑھنے لگا ہے۔ ڈاکٹر حسین قیصرانی نے  بہت محنت اور لگن سے میرے بیٹے کا علاج کیا ۔میں نے سوچا نہیں تھا وہ اتنا جلدی ایک نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے گا۔ شکریہ ڈاکٹر صاحب۔

 

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter