شدید حساسیت، نیند، بھوک اور سر درد کے مسائل ۔ ہومیوپیتھک دوا اسارم کا دلچسپ کیس ۔ حسین قیصرانی

25 سالہ ڈاکٹر ملک نے اپنے پرانے اور بے شمار مسائل پر بات کرنے کے لیے اسلام آباد سے فون کیا۔ ان کی صحت کی صورت حال بہت پیچیدہ تھی کیوں کہ کچھ مسائل بہت نمایاں تھے اور کچھ بے پناہ مبہم اور الجھے ہوئے۔ سب سے پہلے واضح اور زیادہ تکلیف دہ مسائل (Uppermost Layer) کا علاج شروع کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحبہ کو نیند (sleeplessness) نہیں آتی تھی اور اگر کسی طرح آنکھ لگ بھی جاتی تو ڈراؤنے خواب (nightmares) پریشان کرتے تھے۔ ایک اَن جانا خوف (Fear & Phobia of Unknown) طاری رہتا تھا۔ بلا وجہ انگزائٹی (Anxiety) رہتی جیسے کوئی الجھن ہو۔ وہ (Anorexia) کا شکار تھی۔ بھوک محسوس ہی نہیں ہوتی تھی۔ جسم پر کپکپی طاری رہتی تھی۔ مسائل اتنے پرانے اور شدید نوعیت کے تھے کہ مریضہ کو اس مقام تک پہنچنے میں وقت لگا جہاں اس کے بنیادی مسائل بہتر ہونے لگے اور کچھ نئی علامات ظاہر ہوئیں جو کسی حد تک غیر معمولی بھی تھیں اور غیر واضح بھی۔
ان سے فون، ای میل اور وٹس ایپ کے ذریعے رابطہ رہا۔ کچھ شکایات جو مسلسل موصول ہو رہی تھیں وہ زیادہ نمایاں تو نہ تھیں مگر انھوں نے انہیں پریشان کر رکھا تھا۔ ان کا فیڈبیک جاری رہا اور کیس پر نظرثانی کی جاتی تھی۔ بار بار کی ڈسکشن سے مریضہ کی علامات کا ایک بالکل نیا رخ سامنے آیا یا یوں کہہ لیں کہ بہت سی پیچیدہ اور غیر واضح علامات کی کڑیوں سے کڑیاں ملتی چلی گئیں جنھوں نے علاج کی اگلی راہ متعین کی۔
بدلتی ہوئی علامات کے پیشِ نظر، مریضہ کا تفصیلی ٹیلیفونک انٹرویو کیا گیا۔ جو تازہ صورت حال سامنے آئی اس کے مطابق وہ شدید چڑچڑے پن (Irritation) کا شکار تھی۔ غصہ بہت زیادہ آتا تھا۔ کسی کی ذرا سی بات بھی برداشت نہیں ہوتی تھی۔ وہ اپنے ارد گرد کسی کی موجودگی یا کسی بھی قسم کا شور برداشت نہیں کرتی تھی۔ سب سے بڑی شکایت اور تکلیف والی مصیبت یہ تھی کہ دھیمی سے دھیمی آواز جیسے پنکھا چلنے کی آواز، موبائل رنگ ٹونز بلکہ وائبریشن، ڈور بیل وغیرہ پر بھی شدید رد عمل کا اظہار ہوتا۔ یہ بات مریضہ کے لیے بے حد اذیت ناک تھی۔ دماغ ہر طرح کی آواز پر متوجہ ہو جاتا تھا۔ اس کیفیت میں کوئی بھی کام یکسوئی سے نہیں کر سکتی تھیں کیوں کہ دماغ ارد گرد کی آوازوں میں الجھا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ شدید گرمی میں بھی مریضہ کے لیے پنکھے کی آواز زحمت کا باعث بنتی تھی۔ پنکھے کی آواز اسے اتنی اذیت دیتی کہ وہ پنکھا بند کر کے گرمی میں رہنے کو ترجیح دیتی تھی۔ اس کے دماغ کو کسی وقت سکون نہیں تھا۔ دل کرتا تھا کہ اس کے آس پاس کوئی آواز نہ ہو صرف اور صرف خاموشی ہو۔ اس شدید ذہنی الجھن (Mental Confusion) کی وجہ سے وہ کسی سے زیادہ بات نہیں کر سکتی تھی۔ گفتگو کے دوران اس کا دماغ کہیں اور الجھا ہوتا تھا۔ وہ کسی کی بات توجہ سے نہیں سن سکتی تھی۔ اس وجہ سے لوگوں سے گھل مل نہیں پاتی تھی۔ کمرے میں اکیلی رہنا پسند کرتی تھی جہاں کوئی آواز نہ ہو۔ کبھی کبھی دماغ بالکل سن ہو جاتا تھا جیسے کسی کام کے قابل نہ رہا ہو۔ شدید ذہنی تھکاوٹ (Mental Fatigue) محسوس ہوتی تھی۔ کوئی بھی بات یاد نہیں رہتی تھی۔ اس ساری صورت حال میں نیند کا تو کوئی تصور تک بھی نہیں تھا۔محترمہ اپنی کیفیت کو یوں بیان کرتی ہیں ۔۔۔۔
“میں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ میں کسی بھی قسم کی آواز برداشت نہیں کر سکتی جیسے رنگ ٹون، موبائل وائبریشن، ڈور بیل، ٹی وی کی آواز، گزرتی ہوئی کاروں سے آنے والی تیز موسیقی کی آواز، لاؤڈ اسپیکر پر ہونے والے اعلانات وغیرہ۔ اگر کوئی کاغذ پر انگلیاں بھی رگڑتا ہے تو میں گوارا نہیں کر سکتی۔ ہلکی سے ہلکی آواز بھی مجھے اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ میں سوچتی ہوں جب سننے کی حس بانٹی جا رہی تھی تو میرے حصے میں کچھ زیادہ ہی آ گئی تھی۔ میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کے مقابلے میں ہلکی سے ہلکی آواز کو سننے کی قابلیت رکھتی ہوں۔ میں بہت با کمال سننے والی ہوں۔ میرے اعصاب ناقص فریکوئنسی کے سگنل بھی موصول کر لیتے ہیں۔ جب میں کسی سے فون پر بات کر رہی ہوتی ہوں تو متواتر کوشش کر رہی ہوتی ہوں کہ توجہ بات چیت پر ہی رہے لیکن میرے اعصاب کہیں دور یا پس منظر سے آنے والی ہر آواز سے ڈسٹرب ہونا جاری رکھتے ہیں خواہ وہ پرندوں کے چہچہانے کی آواز ہو یا دور کہیں سبزی فروش کی۔
اہم بات یہ ہے کہ جب بھی میں یہ سوچتی ہوں کہ چھوٹی چھوٹی فضول اور بے معنی باتوں پر دھیان نہیں دینا، میرے اعصاب مزید تیزی سے ہلکی سے ہلکی آواز پر متوجہ ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ جس تیزی سے میرے اعصاب چھوٹی چھوٹی اور دور پار کی آوازوں پر متحرک رہتے ہیں، میں جلد بہری ہو جاؤں گی۔ یہ ان بہت ساری دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ ہے جو مجھے چوبیس گھنٹے پریشان رکھتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ بے ضرر آوازیں بھی میرے دماغ میں کرنٹ پیدا کرتی رہتی ہیں”۔اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مریضہ کی موجودہ شکایت کی بنیادی وجہ سننے والے اعصاب کی شدید حساسیت (Hyper Sensitivity) ہے۔ ان کی سننے کی حس اس قدر تیزی سے کام کرتی ہے کہ وہ کسی بھی آواز کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ یہ حساسیت دل و دماغ کے زیادہ سرگرم ہونے اور غیر معمولی ردعمل کا باعث بنتی ہے جس کی وجہ سے مریضہ اعصابی تناؤ کا شکار رہتی ہے۔

غیر معمولی ذہنی حساسیت اور اعصابی نظام کا نہایت محرک ہونا۔ MENTAL HYPERSENSITIVITY & GENERALIZED OVER STIMULATION OF NERVOUS SYSTEM
طبی صورت حال سے واضح ہوا کہ سارے اعصابی نظام کا نہایت سرگرم رہنا سب سے اہم ترین معاملہ ہے۔ دماغ ہر وقت الجھا رہتا ہے۔ ذہن بہت دیر تک چھوٹی چھوٹی بے معنی آوازوں پر مسلسل توجہ کرتا ہے یہاں تک کہ مریضہ ذہنی طور پر نڈھال ہو جاتی ہے۔ ان کے مطابق اس کا تعلیمی ریکارڈ بہت ہی شان دار رہا ہے مگر اب وہ محسوس کرتی ہے کہ اس کا ذہن بالکل بھی کام نہیں کر رہا جیسے اس کے دماغ کو “کچھ” ہو گیا ہے۔ کافی عرصہ وہ یہ نہیں سمجھ پائی کہ وہ “کچھ” کیا ہے جو ہو گیا ہے۔

مریضہ اپنی ذہنی حالت کے بارے میں بتاتی ہیں ۔۔۔
ہر آواز کو بہت زیادہ سننے کی وجہ سے میرا ذہن زیادہ تر ضرورت سے بڑھ کر کام کرتا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ میرا دماغ دیوانہ وار سرگرم ہو جائے تو اس کو روکنا میرے بس میں نہیں ہوتا۔ (uncontrollable brain) ذہن متواتر کام کرتا رہتا ہے لیکن اس میں ایک بے ترتیبی کا عنصر موجود رہتا ہے۔ لگتا ہے کہ میرا سرکش دماغ ہمیشہ ایسے ہی وجد میں رہے گا، کبھی نہیں رکے گا۔ کبھی کبھی یہ صورت حال مجھے سونے نہیں دیتی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں اس حالت میں کبھی بھی نہیں سو پاتی۔ (sleeplessness) بعض اوقات میری ذہنی حالت مکمل تھکان میں بدل جاتی ہے جہاں دماغ بغاوت پر اتر آتا ہے اور گم صُم ہو جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں خالی الذہن (absent minded) ہوں اور دماغ بالکل کام نہیں کر رہا۔ معمولی باتیں بھی بھولنے (forgetfulness) لگتی ہیں۔ دماغ میں کوئی بھی بات اپنی جگہ نہیں بنا پاتی۔ یہ ایک کشمکش کی کیفیت ہوتی ہے جہاں میں سامنے والے کی بات سن رہی ہوتی ہوں مگر سمجھ نہیں پاتی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یا کہہ رہی ہے اور آخرکار یہ کہہ کر گفتگو جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہوں کہ “ہاں ہاں” ۔۔ “جی جی آپ بالکل صحیح کہہ رہی ہیں آنٹی جی” ۔۔۔ “جی جی! بالکل ایسے ہی ہے”۔ حالانکہ میرا اپنا دماغ اس وقت اتنا غبی (numb brain) اور بے حس ہو چکا ہوتا ہے کہ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں ہوتا۔ میں نظر بظاہر تو کتاب پڑھ رہی ہوں یا احمقوں کی طرح کسی کی باتیں سن رہی ہوں، مگر میرا ذہن وہاں حاضر نہیں ہوتا بلکہ اپنی خیالی دنیا کے کوہ قاف میں مسلسل محو پرواز ہوتا ہے۔ اگر زبردستی اپنے دماغ کو مجبور کرنے کی کوشش کروں کہ وہ مناسب طریقے سے کام کرے تو اس کا نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ برا ہوتا ہے”۔

مریضہ اپنے تیز رفتار دماغ (racing mind) کو قابو کرنے سے قاصر تھی۔ اسے لگتا تھا کہ اس کا دماغ بکھر جائے گا اور وہ حواس باختہ (crazy) ہو جائے گی۔

مکمل سکوت اور خاموشی کی خواہش۔ Desire for absolute stillness and Silence
ان کے اعصابی نظام کی برق رفتاری نے اسے بالکل تنہا (isolated) کر دیا تھا۔ وہ اپنے کمرے تک محدود رہتے ہوئے کسی سے بھی بات کرنے اور ملنے سے پرہیز کرتی۔ (avoid interactions) اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کسی بھی قسم کی بیرونی ہل چل برداشت کرنے کے قابل نہ تھی۔ وہ اپنی پوری کوشش کرتی کہ کسی بھی ایسی چیز سے کم سے کم رابطہ ہو جو اس کے اعصابی نظام کو دوبارہ مشتعل (stimulation of nerves) کر دے۔

ڈاکٹر صاحبہ بتاتی ہیں ۔۔۔۔۔
“دماغ کے اس قدر تیز کام کی شدت اتنی ہلچل پیدا کر دیتی ہے کہ میری حالت قابلِ رحم ہو جاتی ہے اور مجھے اپنے ارد گرد موت جیسے سناٹے کی طلب ہوتی ہے ۔۔ جی ہاں! موت جیسی خاموشی۔
کوئی چیخ نہ ہو، مدھم آواز میں بات ہو، کوئی رنگ ٹون نہ ہو ۔۔۔۔۔ بس یہی میری زندگی کا لب لباب ہے۔ کبھی کبھی میرے لیے پنکھے کی آواز اور ہوا سے پھڑپھڑانے والے کاغذوں کا شور شدید ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جون جولائی کی بے رحم گرمی میں مجھے پنکھا بند کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی قسم کی آواز کا سامنا کرنا میرے لیے اتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ مجھے لگتا ہے جیسے میں دھڑام سے گر جاؤں گی۔

جسمانی حساسیت۔ Sensitivity on physical level
بقول محترمہ:
میری جلد (Skin) بہت سی چیزوں کے معاملے میں شدید حساس واقع ہوئی ہے۔ ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے میرا زیادہ وقت ہسپتال میں گزرتا ہے۔ ہسپتال کا ماحول، ادویات کی مخصوص خوشبو یا بدبو، سپرٹ ڈیٹول وغیرہ کا استعمال غرض وہاں موجود ہر چیز مجھے ڈسٹرب کرتی ہے۔ اچار، لیموں یا مرچوں کا جیسی بے ضرر چیزیں، کچھ کپڑے جیسے ریگزین regzine اور کچھ کیمیکلز وغیرہ کی smell مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ گھر کا کچن ہو یا ہسپتال کا آپریشن تھیٹر، میں ہر جگہ ہر قسم کی بو یا بد بو smell سے اذیت کا شکار ہو جاتی ہوں۔

مسلط کی گئی بات پر ردعمل۔
Response to imposition

ان کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی تھی کی اگر اس پر زبردستی کچھ مسلط کیا جاتا تو وہ شدید ردعمل کا اظہار کرتی۔ وہ حکم کی تعمیل نہیں کرتی تھی۔ (resist forceful implementation) وہ کسی بھی طرح کا جبر برداشت (intolerant to any violence)
نہیں کر سکتی تھی۔ کسی بھی سطح پر کسی بھی قسم کا جبر اس کے لیے قابلِ قبول نہ تھا۔ وہ یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ کوئی اس پہ حکم چلائے۔
محترمہ کے الفاظ میں:
چوبیس گھنٹے میرے دماغ میں ایک ہلچل مچی رہتی ہے۔ اس صورت حال میں کسی بھی بیرونی افراتفری کو خوش آمدید نہیں کہا جا سکتا۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ کوئی مجھ پر حکم چلائے۔ ایسا فعل میرے اندر زبردست مزاحمت پیدا کر دیتا ہے۔ مجھے شدید غصہ آ جاتا ہے۔ کوئی مجھ سے میری مرضی کے خلاف کچھ نہیں کروا سکتا۔ اس طرح کے جذباتی تشدد کا نتیجہ مزید الجھن (conflict) کی شکل میں نکلتا ہے۔ اور ویسے بھی جب ہم پہلے ہی بہت ڈسٹرب ہوں اور پھر کوئی ہم پہ رعب بھی ڈالے تو ما بدولت کو یہ کسی طرح برداشت نہیں ہے۔

جسمانی مسائل پر انہوں نے درج ذیل شکایات کا اظہار کیا۔

جسمانی علامات۔ Physical symptoms
1۔ صبح کے وقت گردن، بازو، کندھے اور ہاتھ اکڑے ہوتے ہیں۔ morning stiffness
2۔ منہ پانی جیسی رال (تھوک saliva) سے بھر جاتا ہے اور بعض مرتبہ رات کو بھی رال ٹپکتی ہے۔ dribbling of saliva
3۔ حلق میں گاڑھی رطوبت کی فراوانی رہتی ہے۔
Thick secretion in throat
4 کمر کے نچلے حصے میں شدید درد جو حرکت کرنے پر بڑھ جاتی ہے۔ Pain in lower back
5۔ سارا دن منہ خشک رہتا ہے ۔ Dry mouth during day
6۔ انتہائی پیاس جو تھوڑے تھوڑے وقفے سے پانی کی طلب کا باعث بنتی ہے۔ Intense thirst
7۔ چکنائی والے کھانوں، مٹن، چکن اور مچھلی وغیرہ سے بیزاری کا شدید احساس ہوتا ہے۔ Food aversions
8۔ اتنی غیر معمولی نقاہت اور کمزوری محسوس ہوتی ہے کہ چلنا پھرنا مشکل ہو جاتا ہے۔Tremendous weakness
9۔ اکثر اوقات مائگرین، سر میں درد (Headache / Migraine) رہتا ہے۔ دبانے سے آرام ملتا ہے۔
10۔ ماہواری حیض کے دوران پیٹ میں اینٹھن اور مروڑ کا مسئلہ بنا رہتا ہے۔
(Abdominal cramps during periods)
11۔ نبض کی رفتار تیز رہتی ہے ۔ Rapid pulse
12۔ گھٹنوں اور پیروں کے جوڑوں میں درد رہتا ہے ۔pain in joints
13۔ بد حواس رہتی ہوں۔ چکر آتے ہیں ۔ Dizziness
14۔ سردی برداشت نہیں ہوتی ۔(Cold intolerance) وہ اپنے الفاظ میں کہتی ہیں کہ “میں ان چند لوگوں میں سے ہوں جو AC والے کمرے میں بیٹھے ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے وہ مری میں ہوں اور کبھی کبھی تو میرے ناخن تک نیلے ہونے لگتے ہیں”۔

کرداری پہلو۔ Behavioral aspects
اس حوالے سے محترمہ نے اپنا جائزہ یوں پیش کیا۔

۔”مجھے ہر وقت لگتا ہے کہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔
feeling of time passing very quickly
جیسے پلک جھپکتے ہی آدھا دن گزر جائے۔ میں ہمہ وقت ایک دائمی عجلت کی کیفیت (state of hurryness) میں مبتلا رہتی ہوں۔ جلد بازی میں کھانا کھاتی ہوں، تیز تیز بولتی ہوں۔ (talking too fast) غرض ہر کام جلدی میں کرتی ہوں؛ میری آنیاں جانیاں لوگوں کو حیران و پریشان کر دیتی ہیں۔۔ میں فائر بریگیڈ سکواڈ کے لیے بہترین کارکن ثابت ہو سکتی ہوں۔ مختصراً یہ کہ میں اپنے فارغ اوقات میں بھی ہڑبڑاہٹ کا شکار ہوتی ہوں۔
دماغ کا نہایت سرگرم رہنا (over activity) اور شدید ردعمل کا اظہار کرنا (hyper responsiveness) مجھے اضطراب میں مبتلا کر کے میری زندگی کو جہنم بنا دیتا ہے۔ اور سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ آپ اسی الجھن میں رہتے ہیں کہ آپ کے ذہن کو “کچھ” ہو گیا ہے اور اپنی باقی زندگی اسی گتھی کو سلجھانے میں گزار دیتے ہیں کہ وہ “کچھ” کیا ہےـ

مختصراً یہ کہ تمام علامات ایک انتہائی اندرونی انزائٹی، اضطراب (internal disturbance) کی نشان دہی کرتی ہیں جس کی جڑیں سارے اعصابی نظام سے ملتی ہیں اور سمعی اعصاب کی شدید حساسیت (hyper sensitivity of auditory nerves) کے باعث محترمہ کو اذیت ناک اعصابی تناؤ (jitteriness) ،چڑچڑے پن ،(irritability) چھوٹی چھوٹی باتوں پر مزاحمت، جھنجھلاہٹ (annoyance) اور عدم برداشت (low tolerance) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


 

 


حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔

0 0 votes
Article Rating
Picture of kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter