سب سے زیادہ جس تکلیف نے محترمہ کو متاثر کیا تھا وہ تنگی تنفس تھی۔ ان کا سانس پھولا رہتا تھا۔ کھانا کھانے کے دوران ایسا لگتا تھا جیسے سانس حلق میں اٹک رہا ہے اور سکون سے کھانا بھی نہیں کھایا جاتا تھا۔ بات کرتے کرتے سانس بے قابو ہو جاتا۔ تھوڑی دیر بات کرنا مشکل اور طویل گفتگو تو خیر تھی ہے نا ممکن۔ سانس کا ہر وقت پھولا رہنا یا متواتر دم گھٹنا ان کے روزمرّہ معاملات جیسے سیڑھیاں چڑھنا، چلنا پھرنا، فیملی کے ساتھ وقت گزارنا، غرض ہر معاملے پر گہرا اثر انداز ہو رہا تھا۔یہ مسئلہ اتنی شدت اختیار کر گیا تھا کہ محترمہ کے فارغ اوقات میں بھی سانس کی آمدورفت آسودگی سے جاری نہیں رہتی تھی۔ محترمہ کو شدید غصہ آتا تھا۔ چڑچڑاپن روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ جذباتی دباؤ اتنا بڑھ گیا تھا کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتعل ہو جاتی تھیں۔ اپنے بچوں کی بھاگ دوڑ اور کھیل کود بھی ان کو ڈسٹرب کرتی تھی اور اس اضطراب کا نتیجہ بچوں کی پٹائی کی صورت میں نکلتا تھا۔ محترمہ کی نیند بالکل ہی ختم ہو گئی تھی۔ وہ چاہنے اور ہر ممکن کوشش کے باوجود سو نہیں پاتی تھیں۔ چوبیس گھنٹوں میں کوئی بھی ایسا وقت نہیں ہوتا تھا جب وہ سکون سے گہری نیند سو جائیں۔ اگرچہ آنکھیں بند کئے بستر پر پڑی رہتی تھیں لیکن ان کا دماغ مستقل جاگتا رہتا تھا۔ نیند اتنی کچی تھی کہ وہ اپنے ارد گرد ہونے والی تمام سرگرمیوں سے آگاہ رہتی تھیں۔ بے خوابی اتنی شدید تھی کہ ہلکی سے ہلکی آہٹ یعنی شوہر کا کروٹ بدلنا تک بھی محسوس اور سنائی دیتی تھی۔ہر وقت ان باتوں کے بارے میں سوچتی رہتی تھیں جنھوں نے انھیں ڈسٹرب کیا تھا۔ ان باتوں کے بارے میں نہ سوچنا ان کے بس میں نہیں رہا تھا۔ وہ ساری باتیں ان کے حواس پر طاری رہتی تھیں اور مسلسل اپنے خیالوں اور سوچوں میں ان باتوں کو دہراتی، ان کی تصحیح کرتی اور تمام معاملات کو حل کرتی تھیں۔ سوچنے کا یہ عمل سوتے، جاگتے، کھاتے، پیتے غرض ہر وقت رواں دواں رہتا تھا۔کسی بھی کام کو توجہ سے نہ کر پاتی تھیں۔ ان کا دھیان کچھ باتوں میں اتنا الجھا رہتا کہ یکسوئی بالکل ہی میسر نہ ہوتی۔ مایوسی اتنی چھائی ہوئی تھی کہ وہ کسی بھی سرگرمی پر اپنا ذہن مرکوز کرنے کی کوشش کرتیں تو خیالات کی یلغار ان کے دماغ کو واپس پریشان خیال کی طرف واپس بھٹکا دیتی۔ وہ ہر وقت روتی رہتی تھیں۔ انھیں خود اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کیوں رو رہی ہیں لیکن وہ بس روئے جاتی تھیں۔ رونا کنٹرول کرنا ان کے بس میں نہ تھا۔ کوئی بھی چھوٹی بات ان کو رلا دیتی یا پھر وہ بات کرتے کرتے رونے لگتی تھیں۔ بیٹھے بیٹھے کچھ سوچتے ہوئے رونے لگنا اب معمول بن گیا تھا۔تنہائی پسند ہو گئی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کوئی ان سے بات نہ کرے۔ وہ صرف اپنے مسائل کے بارے میں سوچتی رہیں، روتی رہیں اور کوئی مداخلت نہ کرے۔ حساسیت بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ ذرا ذرا سی بات کو دل پر لے لیتی اور پھر اس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتی رہتی تھیں کہ فلاں نے ایسا کیوں کہا، اب میں کیا کروں، میں نے ایسا تو نہیں کہا تھا، اب سب میرے بارے میں کیا سوچیں گے، میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا ۔۔۔۔۔محترمہ اپنی ساکھ کو لے کر بے پناہ حساس تھیں۔ خود کو خالی الذہن محسوس کرنے لگی تھیں۔ کسی چیز کی طرف دیکھتے ہوئے اس کو مسلسل گھورنے لگتی تھیں۔ کبھی لان میں کافی دیر تک ایک درخت پر ٹکٹکی باندھے رکھتی اور ارد گرد سے بے خبر ہو جاتی تھیں ۔ گھر والے اُن کی اس حالت کو دیکھ کر بہت پریشان ہو جاتے۔ جن لوگوں کی باتوں کی وجہ سے محترمہ ڈسٹرب ہوئی تھیں، ان سے شدید تکلیف کا احساس ہوتا تھا۔ ان سے ملنا تو درکنار ان لوگوں کی تصویر اور تصور بھی تکلیف بڑھا دیتا تھا۔ تصویر تو کیا صرف نام سنتیں یا کبھی کسی طرح ذکر آ جاتا تو سانس بالکل بند ہونے لگتا اور وہ گھنٹوں ڈسٹرب رہتیں۔
محترمہ کو آئس کریم جنون کی حد تک پسند تھی اور نمک بھی زیادہ لینے کا رجحان تھا۔
انٹرویو کے بعد ان کی شخصیت کا جو سب سے نمایاں پہلو سامنے آیا وہ ان کی زندگی کے ہر معاملے میں پرفیکشن کی شدید خواہش تھی۔ نزاکت پسندی، صفائی پسندی، حساسیت، تنظیم اور ترتیب ان کی ذات کے واضح اوصاف تھے۔ اور ان خصوصیات کی جھلک ان کے روزمرّہ معاملات، گھر، فیملی اور خاندانی تعلقات میں نظر آتی تھی۔ محترمہ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ اپنے بچوں کو ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کر کے اُن کو پراپر جوتے کپڑے پہننے پر ڈانٹتی رہتی تھیں۔ اپنے گھر، شوہر اور بچوں کو ہر معاملہ میں بہتر سے بہترین رکھنے کا جنون دل و دماغ پر طاری رہتا۔ بچوں کی بہترین پڑھائی، عالی شان تربیت اور اپنے خاوند کا ہر طرح سے خیال اُن کی زندگی کا مقصد و محور تھا۔ طبیعت کی خرابی کا سب سے بڑا مسئلہ اُن کی نظر میں یہ تھا کہ میرے گھر، بچے اور شوہر کے معاملات ڈسٹرب ہو جائیں گے۔
میری ایک اَور مریضہ حال ہی میں پاکستان سے ناٹنگھم پہنچی تھیں جن کے پاس کافی تعداد میں ہومیوپیتھک دوائیاں موجود تھیں۔ وہ اگرچہ شہر کے بالکل دوسرے کنارے پر تھیں مگر انہوں نے خصوصی طور پر خدمتِ خلق کے جذبہ کے تحت فوراً دو دوائیاں محترمہ کے گھر پہنچا دیں۔ پروردگار اُن کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
کاربوویج (Carbo Veg): اگر سانس کی تکلیف بہت شدت سے ہو اور پنکھا چلانے، کھڑکی کھولنے یا باہر جانے کی شدید خواہش ہو ورنہ دم گھٹ جائے گا یا سانس بند ہو جائے گا۔ یہ صرف ایمرجینسی میں لی جائے۔
پلاٹینا (Platina)۔ ایک گولی روزانہ تجویز کی گئی۔ پہلے ہی دن سے طبیعت میں ٹھہراو آ گیا۔ الحمدللہ۔ بعد ازاں پلاٹینا ہی میجر دوا رہی جو کہ کبھی کبھار اور حسبِ ضرورت مختلف پوٹینسی میں دی جاتی رہی۔
لیکیسس (Lechasis): کیس کی مزید تہییں یا لئیرز کھلیں اور کچھ بہت ہی ذاتی معاملات اور رجحانات سامنے آئے (جن کو کیس میں درج کرنے کی محترمہ نے اجازت نہیں دی)۔ اُن کی بنیاد پر اولاً لیکیسس (Lachesis) اور بعد ازاں آرسنیک البم (Arsenic Album) کی بھی چند خوراکیں دی گئیں۔
علاج کا سلسلہ تقریباً چار ماہ چلا اگرچہ دوائیں باقاعدگی سے نہیں دی گئیں۔ اس کے بعد وہ مکمل طور پر میڈیسن فری ہو گئیں۔
کامیاب علاج کے بعد مسز ایچ کے خیالات فیڈبیک!
میں نے ایک فیملی فرینڈ کے کہنے پر ڈاکٹر حسین قیصرانی سے رابطہ کیا۔ میری طبیعت بہت خراب تھی۔ سانس کی تکلیف اتنی بڑھ چکی تھی کہ میرے لیے ڈاکٹر صاحب سے بات کرنا بھی مشکل تھا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب سے بات کرنے کے دوران مجھے اپنی طبیعت میں بہتری محسوس ہوئی۔ مجھے لگا کہ وہ میری بات کو میرے نقطہ نظر کے مطابق سمجھ رہے ہیں۔ بات کرنے کے دوران میری سانس پھول رہی تھی لیکن ڈاکٹر صاحب نے بیزاری کا کوئی تاثر نہیں دیا۔ انہوں نے میری بات نہایت توجہ اور شفقت سے سنی۔ میں نے اپنی کیفیات کو تفصیل سے بیان کیا۔ اور اس طرح میرا علاج شروع ہوا۔
دوائی کے ساتھ میری سائیکوتھراپی بھی جاری رہی میں نے انھیں علاج کے سلسلے میں بہت فرض شناس پایا۔ انگلینڈ اور پاکستان کی ٹائمنگ میں بہت فرق ہے لیکن ٹائمنگ کا فرق بھی ڈاکٹر صاحب سے رابطہ پر کبھی اثر انداز نہیں ہوا۔ دن ہو یا رات مجھے جب بھی ضرورت محسوس ہوئی، ڈاکٹر صاحب کو میسر پایا۔ ان کا طریقہ علاج بے حد قابلِ تعریف ہے۔ میرے بہت ہی الجھے ہوئے مسائل کو بہت ٹیکنیکل انداز میں حل کیا۔
میری سانس کی تکلیف اب %90 بہتر ہے۔ میں آرام سے بات چیت کر لیتی ہوں۔ پہلے تو سانس اتنا پھولا رہتا تھا کہ کچھ کھانا بھی مشکل ہو جاتا لیکن اب میں سہولت سے کھانا کھاتی ہوں۔ میری نیند بالکل ختم ہو چکی تھی۔ میں آنکھیں بند کیے نیند کا انتظار کرتی تھی مگر میرا دماغ ہر وقت سوچوں میں میں گھرا رہتا تھا۔ اس لیے میرے لیے سکون سے سونا بھی ایک خواب ہو گیا تھا۔ مگر اب میں پہلے سے بہتر اور سکون والی نیند لیتی ہوں۔ میں بہت زیادہ انگزائٹی میں اور بے چین تھی۔ ہر وقت اپنے مسائل کے بارے میں سوچتی رہتی تھی جس کی وجہ سے کوئی بھی کام بھرپور توجہ سے نہیں کر پاتی تھی۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب میں اپنے کام دل سے کرنے لگی ہوں۔ اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے لگی ہوں۔
پہلے غصہ بہت آتا تھا۔ شور برداشت نہیں ہوتا تھا۔ مگر اب میں مطمئن رہتی ہوں۔ میری حساسیت میں بہت بہتری آئی ہے۔ میں چھوٹی چھوٹی بات پہ پریشان ہو جاتی اور اسے انا کا مسئلہ بنا لیتی تھی مگر اب مجھ میں غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کرنے کی قابلیت پیدا ہو گئی ہے۔ میں خود کو پہلے سے زیادہ مضبوط محسوس کرتی ہوں۔ سٹریس، ذہنی ٹینشن اور ڈپریشن ختم ہو چکا ہے۔
جن لوگوں کی وجہ سے میں نے ٹینشن لی اور میری صحت بے حد خراب ہو گئی اب میں اُن باتوں کو ایشو نہیں بناتی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اب میں پاکستان جا کر ان کے ساتھ اچھا وقت گزار سکتی ہوں۔ ان سے باتیں کر سکتی ہوں اور اپنی گاڑی بھی شئیر کر سکتی ہوں۔
میں ڈاکٹر حسین قیصرانی کی بے حد شکر گزار ہوں جن کی بھر پور محنت، توجہ اور لگن سے میں ایک بھرپور زندگی کی طرف لوٹ آئی۔
===================
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔
===================
I m 49yesrd old , facing same problem , shortness of breath, fear of heart attack, how could I contact you
Salaam, you may contact directly to Hussain Kaisrani on his WhatsApp number 03002000210 by sending a text or voice message if interested to start the treatment.
Best regards.