چنڈیاں، وارٹس، موہکے، مسے ۔ کامیاب کیس، دوا اور علاج ۔ حسین قیصرانی

کمپوزنگ اور کیس پریزنٹیشن: محترمہ مہرالنسا

سولہ سالہ اکلوتی بیٹی کی والدہ نے خاصی پریشانی کی عالم میں دبئی سے فون کیا۔ ان کی بیٹی بہت تکلیف میں تھی۔ اس کے پیروں کے تلووں میں چنڈیاں بن گئی تھیں۔ یہ مسئلہ کوئی ایک ماہ پہلے شروع ہوا تو اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کی مشاورت سے سرجری کروائی گئی مگر چند دن بعد یہ چنڈیاں واپس آ گئیں۔ اب کیفیت یہ تھی کہ بیٹی کا چلنا پھرنا تو دور کی بات ہے؛ صرف واش روم تک جان بھی دوبھر تھا۔ تفصیلی ڈسکشن کیے بغیر ظاہری علامات اور موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہومیوپیتھک دوا تھوجا (Thuja occidentalis) تجویز کی گئی جو کہ ہر طرح کی چنڈیوں (Corns)، وارٹس (Warts)، موہکے مسے ، تل (Moles) جیسے جلد کے کامیاب علاج کے لئے ٹاپ ہومیوپیتھک دوا سمجھی جاتی ہے۔ عام طور پر ہر سب ہومیوپیتھک ڈاکٹر بلکہ اب تو ایلوپیتھک ڈاکٹرز بھی ان مسائل کے لئے تھوجا تجویز کرتے پائے جاتے ہیں۔

تھوجا لینے سے فوری فائدہ ہوا اور تکلیف میں کافی کمی بھی آ گئی مگر بہتری کا یہ عمل مکمل ہونے سے پہلے رک گیا۔ چنڈیاں %40 بہتر ہو گئی تھیں۔  اس کے بعد ان میں بہتری نہیں آئی اور تکلیف برقرار رہی اگرچہ دوائی کی پوٹینسی اور خوراک میں کمی بیشی بھی کی گئی۔

 یقیناً دوائی کا فیصلہ کرنے میں ہومیوپیتھی علاج کے تقاضے پورے نہیں کئے سو بہترین دوائی منتخب نہیں ہوئی۔ یہ مناسب طریقہ نہیں تھا کہ بغیر باقاعدہ کیس لئے صرف چنڈیوں کے نام یا پاوں کی تصویر دیکھ کر ہومیوپیتھک دوا تھوجا دی گئی۔ نسبتاً کم علامات پر اور مریضہ سے تفصیل لیے بغیر علاج شروع کیا گیا۔ ہومیوپیتھی علاج میں مریض کے مزاج اور تمام معاملات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اگر صرف چند علامتوں اور بیماری کے ناموں پر علاج کیا جائے تو وہی ہو گا جو اس کیس میں ہوا یعنی ناکامی۔

مریضہ بچی سے تفصیلی کیس ڈسکشن کا فیصلہ کیا گیا۔ کیس ڈسکشن سے جو صورت حال سامنے آئی وہ درج ذیل ہے۔

1بچی کو جلد (skin) کے مسائل رہتے تھے۔ دونوں پیروں کے تلووں میں چنڈیاں بن چکی تھیں جن میں بہت تکلیف رہتی تھی خاص طور پر زمین پر پاوں ٹیکنے سے۔ تکلیف کی شدت کی وجہ سے وہ چل نہیں پاتی تھی ۔
2۔ بیٹی کا ایک بہت سنجیدہ مسئلہ، جس نے اسے بہت ڈسٹرب کر رکھا تھا، شدید تکلیف دہ (painful Menses) مینسز تھے۔ جب مینسز آتے تو ناقابلِ برداشت درد ہوتا اور ایمرجنسی کی صورت حال پیدا ہو جاتی تھی۔ سکول سے چھٹی کرنی پڑتی تھی۔ اگر سکول میں موجودگی کے دوران مینسز آ جاتے تو فوراً گھر آنا پڑتا ہے۔ درد کے ساتھ ساتھ متلی اور الٹی (Vomit & Nausea) شروع ہو جاتی۔ ان چار پانچ دنوں میں کہیں آنا جانا ممکن نہ ہوتا تھا۔

3۔  جسم میں خون کے بہاؤ کا رجحاان بہت زیادہ تھا۔ کہیں بھی زخم ہو خون زیادہ بہتا تھا۔ ماہواری کے دوران بھی بلیڈنگ (Bleeding) بہت زیادہ ہوتی تھی۔
4۔ طبیعت بہت حساس اور جذباتی (Emotional and Sensitive) تھی۔ ہر چھوٹی بڑی بات پریشان کرتی تھی۔ کسی سے زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہ سکتی تھی۔ جلدی دوستی کر لیتی تھی۔ چونکہ دوسروں سے لگاؤ جلدی ہو جاتا تھا تو ان کے لیے حساسیت بھی بڑھ جاتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رو پڑتی ہے اور جلدی مان بھی جاتی ہے۔
5۔ لوگوں سے میل جول اور سیر و سیاحت کی دلدادہ تھی۔ دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا بہت پسند تھا۔

پسند / ناپسند
1۔ سونا بہت پسند ہے۔ سو کر اچھا محسوس کرتی ہے۔ شور سے الجھن ہوتی ہے۔
2۔  کھانے میں نمک کی طلب زیادہ تھی۔ چٹ پٹے مصالحے دار کھانے اور کھٹی میٹھی چٹنیاں بہت پسند تھیں۔
3۔  یخ ٹھنڈا پانی پسند تھا اگرچہ والدہ کی اجازت نہیں تھی۔ ٹھنڈی میٹھی چیزوں کی طلب ہر وقت رہتی تھی۔ ملک شیک، جوسز، کولڈ ڈرنکس خوب لیتی تھی۔ آئس کریم بہت فیورٹ تھی۔

ہسٹری
بچپن سے جلد کے مسائل نمایاں رہے ہیں۔ گلے کی خرابی بھی ہوتی رہتی ہے۔ صحت کے حوالے سے کوئی نہ کوئی مسئلہ درپیش رہتا ہے۔

فیملی ہسٹری
فیملی ہسٹری میں ہر بڑی اور تکلیف دہ بیماری موجود تھی۔

۔(ہومیوپیتھی سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز کے لئے) کیس کا تجزیہ، دوا اور علاج
بچی کے والدین نے جب رابطہ کیا اس وقت پیروں میں بہت تکلیف تھی۔ پیروں کے نچلے حصے پر جلد میں چنڈیاں بن گئی تھیں۔ پیروں پر دباؤ نہیں ڈالا جا رہا تھا جس کی وجہ سے وہ چل پھر نہیں سکتی تھی۔ وہ آپریشن کروا چکے تھے لیکن خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا اور تھوڑے دن بعد چنڈیاں واپس آ گئیں۔ ابتدائی معلومات پر انحصار کرتے

ہوئے ڈسکشن کے بغیر ہومیوپیتھک دوا دی گئی جو کہ اچھا فیصلہ نہ تھا۔
مزاج کو سمجھے بغیر تفصیلات کی عدم موجودگی میں صرف بیماری کے نام کے مطابق دوا تجویز کی گئی۔ اس

لیے مریض کو کوئی خاص افاقہ نہ ہوا۔
مناسب تشخیص کے لیے کیس ڈسکشن بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ تفصیلی انٹرویو سے مرض کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ صحت کے معاملات کو ذمہ داری سے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ پھر صحیح دوا، پوٹینسی اور خوراک کا انتخاب مریض کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ بیماری کے نام پر تجویز کی گئی دوا صرف دوا ہو گی علاج نہیں۔ اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوا۔

انتہائی ناقابل برداشت حد تک تکلیف دہ مینسز بہت زیادہ بلیڈنگ (Bleeding) اور شدید حساسیت نے شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کر رکھے تھے۔ مزاج میں جذباتی پن اور دوسروں سے وابستگی بہت نمایاں تھی۔ برتاؤ میں شائستگی اور ملنساری چھلکتی تھی۔ کوئی ناراض ہو جائے تو رو پڑتی تھی مگر تسلی دینے سے مطمئن ہو جاتی تھی۔ گھومنے پھرنے کی شوقین تھی لیکن کرونا کی وجہ سے گھر تک محدود تھی اور اس وجہ سے کافی ڈسٹرب تھی۔

شور کو ناپسند کرتی تھی۔ فاسٹ فوڈ، کیچپ، چٹنیاں اور نمکین کھانوں کی طرف طبیعت مائل تھی۔ ٹھنڈے میٹھے کی شدید طلب رہتی تھی۔

یہ واضح طور پر ہومیوپیتھک دوا فاسفورس (Phosphorus) کا کیس تھا۔ صورت حال کے مطابق پوٹینسی کا انتخاب کیا گیا اور دوا فاسفورس (Phosphorus) تجویز کی۔ دوا نے واضح فائدہ دیا۔ اللہ کے فضل و کرم سے دس دن میں جلد سے چنڈیاں ایسے مکمل غائب ہو گئیں جیسے کبھی وہاں تھی ہی نہیں۔ باقی تمام معاملات میں بھی نمایاں بہتری نظر آئی۔

خصوصی نوٹ: جلد کے مسائل بالخصوص چہرے کے تل، وارٹس، موہکے، مسے اور دانے کسی اندر کی خرابی کا اظہار ہوتے ہیں۔ ان تکلیفوں بلکہ نشانیوں کو سپریس نہیں کرنا چاہئے۔ اولاً تو یہ سپریس ہوتے ہی نہیں اور اگر سپریس کر دئے جائیں تو انسان کو کسی بڑی بیماری کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔


حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور ۔ فون 03002000210

5 1 vote
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter