(جاری ہے)
خراب گردوں کے مرض کو ایلوپیتھک ادویات اور طریقے Manage کیا جاتا ہے مگر اس کے علاج میں خاطرخواہ کامیابی ابھی تک حاصل نہیں ہو سکی۔ ایسے مریضوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کی تو جاتی ہے مگر ان کی زندگی محض ان مشینوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔
طبی ماہرین کی کئی سالوں پر محیط تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ انسانی جسم میں پائی جانے والی ایسی دیرینہ اور خاموش بیماریاں جو سست رفتاری سے لیکن مسلسل بڑھ رہی ہوں، گردوں کو خراب کر دیتی ہیں- ایسی صورتحال کو Kidney Failure یا گردوں کی ناکامی کا نام دیا جاتا ہے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب گردوں میں خون سے اِضافی مائع مادوں، معدنیات اور فالتو اَجزاء کو علیحدہ کر نے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی- اس خطرناک بیماری میں مبتلا افراد کے لئے Dialysis یا گردوں کی صفائی ہی واحد راستہ رہ جاتی ہے- یہ طریقہ علاج ایلوپیتھی میں بہت عام ہو چکا ہے- Dialysis کے ذریعے مریضوں کی زندگی مشین پر منحصر ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہ مشینیں دراصل گردوں کا کام کرتی ہیں، یعنی اِن کا کام ہے خون کو ایک خاص نظام کے ذریعے صاف کرتے رہنا، اس میں سے اضافی مائع مادوں، معدنیات اور فالتو مادوں کو الگ کرنا اور باقی ماندہ صحت مند خون کو دوبارہ جسم میں بھیجنا۔ جن مریضوں کے گردے خرابی کی وجہ سے اپنا معمول کا کام انجام نہیں دے سکتے، ان کے خون کو فلٹر کرنے کے لئے ایسی مشینیں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ عمل نہ صرف نہایت مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات خطرناک بھی ہوتا ہے۔ اس میں مشین کو مریض کے دوران خون کے نظام سے جوڑا جاتا ہے، اور پھر یہ خون مشین سے ہوتا ہوا مسلسل مریض کے جسم میں گردش کرتا رہتا ہے۔ یوں مریض کے خون کی بتدریج صفائی کی جاتی ہے۔ جب یہ طریقۂ علاج بھی کار آمد ثابت نہ رہے تو ایلوپیتھک ڈاکٹر مریض کو گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن یا پیوند کاری کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ علاج بے حد خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مہنگا بھی ہے ، جس کے اخراجات ہر مریض برداشت نہیں کر سکتا۔
اس مہنگے اور تاحیات جاری رہنے والے طریقۂ علاج کے برعکس ہومیوپیتھک میڈیسن میں گردوں کی خرابی کا علاج نسبتاً آسان اور کم خرچ ہوتا ہے۔ گردوں کی بیماری کا ہومیوپیتھک علاج اگر بروقت شروع کر دیا جائے تو دو سے پانچ سال کے اندر اندر اس مرض پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس علاج کی کامیابی کا دارومدار مرض کی شدت اور مریض کی مجموعی صحت پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہومیوپیتھک اَدویات گردے کے ٹشوز کو دوبارہ متحرک کرنے اور قوت مدافعت پیدا کرنے میں بڑا فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے سبب گردے آہستہ آہستہ اپنا فنکشن دوبارہ شروع کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
گردوں کی پیوند کاری کے زیادہ تر واقعات میں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک عام انسانی جسم کسی دوسرے جسم سے لئے گئے گردے طبی طور پر قبول نہیں کرتا اور مصنوعی یا اجنبی اعضاء کے خلاف مزاحمت کرتا رہتا ہے۔ ایسے مریضوں کے ہومیوپیتھک علاج سے ان کا جسم کسی دوسرے انسان کے عطیہ کردہ گردوں کو قبول کرنا شروع کر دیتا ہے۔
گردوں کے ٹرانسپلانٹ کے بعد مریضوں میں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشار خون کے امکانات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو ہومیوپیتھک دوائیں دی جائیں تو ایک تو ان کے گردوں کے خراب ٹشوز بھی دوبارہ ٹھیک ہونے لگتے ہیں اور دوسرے ان کا بلڈ پریشیر اور خون میں شوگر لیول بھی قدرے قابو میں رہتا ہے۔
0
0
votes
Article Rating