شیزوفرینیا: ذہنی صحت کے مریض کو تعویز نہیں علاج کی ضرورت ہے – ثنا بتول

’میں چیخ رہی تھی، یہاں سے جاؤ، اور میں نے دروازہ بھی بند کر دیا تھا، مجھے لگ رہا تھا کوئی مجھے اور میرے گھر والوں کو مارنا چاہتا ہے، تب ابو نے ماموں کو بلایا، ماموں آئے اور انھوں نے میرے ہاتھ رسی سے باندھ دیے۔ مجھے سیڑھیوں سے بُری طرح سے اتارا اور ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے گئے، وہ میرا پہلا اٹیک (دورہ پڑنا) تھا۔‘

عینی کی عمر اس وقت 16 برس تھی جس وقت انھیں پہلی بار شیزوفرینیا کا اٹیک ہوا۔ شیزوفرینیا ایک ذہنی مرض ہے جس سے انسانی سوچ، احساسات اور برتاؤ متاثر ہوتے ہیں۔

عینی نے بتایا کہ ’اس وقت گھر والوں کو فوری طور پر سمجھ نہیں آیا کہ مجھے کیا ہوا ہے، بعد میں جب ذکر ہوا تو یہ بات کہی گئی کہ چونکہ میں مغرب کے وقت گھر سے باہر گئی تھی اور ماہواری کے دنوں میں تھی تو مجھ پر ’جن کا سایہ‘ چڑھ گیا ہے۔‘

ذہنی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر امراض کی طرح شیزوفرینیا کا علاج بھی ادویات اور تھیراپی سے کیا جاسکتا ہے۔ طویل مدتی بیماری ہونے کے باوجود اس سے متاثرہ افراد خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔

مگر عینی کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ نے ان کا روحانی علاج شروع کروایا تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’جس دن میں ہسپتال میں زیر علاج تھی، اسی دن انھوں نے مولوی صاحب کو بلایا جنھوں نے تعویز بنا کر دیا اور کہا کے یہ ہمیشہ اپنے گلے میں ڈال کے رکھنا۔‘

عینی کا کہنا ہے کہ وقتا فوقتا ان کی والدہ ان کو روحانی علاج کے لیے لے جاتی تھیں۔ جہاں ان پر جھاڑ پھونک دی جاتی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ عینی پر جن کا سایہ اور نظر ہے۔

’وہ مجھے مولویوں کے پاس لے کر جاتی تھیں، جھاڑ پھونک والے کے پاس، اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا، خود مجھے بھی نہیں کہ مجھے شیزوفرینیا ہے۔ بہت برسوں بعد مجھے اندازہ ہوا کے یہ روحانی علاج میری بیماری کا حل نہیں۔‘

عینی کہتی ہیں کہ ’میرے گھر والے میری اس حالت کو بیماری نہیں سمجھ رہے تھے اور یہی معاشرے کا عمومی رویہ ہے۔ لوگ ذہنی بیماری کو بیماری نہیں سمجھتے، ان میں شعور کی کمی ہے۔‘

عینی کا کہنا ہے کہ ’اب اتنے برسوں اور قسم قسم کے علاج کے بعد میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ اس بیماری کا کسی سائے یا جن سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ذہنی بیماری ہے اس میں آپ کو کسی تعویز کی نہیں بلکہ علاج کی ضرورت ہے، کاؤنسلر کی ضرورت ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے احساسات مجھے ٹھیک سے یاد نہیں، میرے ساتھ کیا ہو رہا تھا، بس کچھ دھندلا سا یاد ہے کہ میں کیسے سب کو دھکا دے رہی تھی یا مجھے میرے ماموں نے کس طرح سیڑھیوں سے اتارا، یا مجھے کس طرح ایمبولینس میں ڈالا گیا، یا کس طرح مجھے ایمبولینس سے نکالا گیا تھا۔‘

عینی کا کہنا ہے کے اس بیماری کا انکشاف ہونے کے بعد ان کو بہت سے ایسے علاج کروانے پڑے جن کی وجہ سے ان کی یادداشت پر گہرا اثر پڑا ہے۔

’مجھے 70 سے 80 فیصد باتیں یاد نہیں اور قلیل مدتی یاداشت (شارٹ ٹرم میموری) بھی بہت زیادہ کمزور ہو گئی ہے، لوگوں کے نام بھی بھول جاتی ہوں۔‘

عینی کے مطابق ان کے ساتھ ایسا ہوتا تھا کہ وہ کوئی بھی بات کو لے کر اپنے ذہن میں ایک کہانی بنا لیتی تھیں۔

’اس کہانی میں بہت سارے کردار ہیں جو میرے ذہن میں بنتے رہتے ہیں، جن کے گرد وہ کہانی گھومتی رہتی ہے۔ میں لوگوں پر شک کرتی تھی کہ وہ مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، کوئی بھی دو لوگ اگر آپس میں میرے سامنے بات کرتے تھے تو مجھے لگتا تھا کے میرے بارے میں بات کر رہے ہیں، یا وہ اگر ہنس رہے ہیں تو مجھ پر ہنس رہے ہیں، میرے ذہن میں ایک ایسی کہانی بن جاتی تھی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا، حقیقت سے میرا تعلق ختم ہو رہا تھا۔’‘

عینی نے بتایا کہ جب وہ کالج میں آئیں تو انھوں نے دوائیں لینا چھوڑ دی تھیں اور وہ ہر وقت ایک خیالی دنیا میں رہتی تھیں، سوچتی رہتی تھیں، کہانیاں بناتی رہتی تھیں۔

’کالج کے بارے میں، اپنی ہم جماعتوں کے بارے میں، ٹیچرز کے بارے میں اور میں ان کہانیوں کو حقیقت سمجھتی تھی لیکن بعد میں جب دوائیاں لیتی تھی تو پتا چلتا تھا کہ ان کا حقیقت سے کچھ بھی تعلق نہیں۔‘

شیزوفرینیا کی تشخیص

ماہر نفسیات ڈاکٹر نوشین کاظمی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دراصل ایک ایسی طویل مدتی ذہنی بیماری ہے جس کی تشخیص فوری نہیں کی جا سکتی۔

’مریض کے اندر شیزوفرینیا کی تشخیص کرنے کے لیے ٹیم ڈائنگنوسز، بلڈ ٹیسٹ، دماغ کا سکین اور خاص علامات کا اندازہ لگایا جاتا ہے جس کے بعد ہی ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مریض کو شیزوفرینیا کا مرض لاحق ہے۔‘

شیزوفرینیا کی علامات

ڈاکٹر نوشین کے مطابق شیزوفرینیا کے مرض کی تین سے چار علامات ہو سکتی ہیں:

1۔ ہذیان کی کیفیت

جس میں بصری ہذیان یعنی مریض کا ایسی چیزیں دیکھنا جو حقیقت میں موجود نہ ہوں، آوازوں کا سننا، غیر معمولی بو کو سونگھنا یا غیر معمولی ذائقہ چکھنا شامل ہیں۔

2۔ غیر معمولی سوچ

اس کیفیت میں مریض ایسی چیزوں پر یقین کر لیتا ہے جن کو بدلنا ناممکن ہے، اس میں ذہن میں وسوسے آنا شامل ہے، جس سے مریض خوف میں رہتا ہے کہ اسے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے یا کوئی اس کا پیچھے کر رہا ہے۔

3۔ احساسات کا ختم ہو جانا

ڈاکٹر نوشین کے مطابق شیزوفرینیا کے مریضوں میں ایک علامت احساسات کا ختم ہو جانا اور اس کی وجہ سے ایک جیسے احساسات، بھوک نہ لگنا، زبان لڑکھڑانا اور ذہن اور زبان کا ساتھ نہ دینا شامل ہیں۔

ڈاکٹر نوشین کہتی ہیں ہے کسی بھی شخص میں شیزوفرینیا کی تشخیص کرنے کے لیے ان علامات کو مجموعی طور پر دیکھا جاتا ہے اور تب ہی فیصلہ کیا جاتا ہے کہ مریض کو شیزوفرینیا ہے یا نہیں۔

‘شیزوفرینیا کا علاج بہت مہنگا ہے’

عینی کے مطابق اس بیماری کا علاج بہت مہنگا ہے۔ اس بات کا اندازہ انھیں تب ہوا جب ان کے مختلف علاج کیے گئے۔ جس میں انھیں شاک تھراپی یعنی بجلی کے جھٹکوں سے علاج بھی کیا گیا۔

’مجھے 15 دن کے وقفے سے چھ بجلی کے جھٹکے دیے گئے تھے، اس ایک بجلی کے جھٹکے کی قیمت اس وقت پانچ سے چھ ہزار روپے تھی۔‘

عینی کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ انھیں شاک تھیراپی کے لیے ہسپتال لے جایا کرتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تقریباً ڈیڑھ سال تک انھیں مختلف ادویات دی گئیں جس کے باعث ان کے وزن اور نیند کے دورانیے میں اضافہ ہوا اور انھیں اپنی زندگی کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا تھا جبکہ ڈیڑھ برس بعد ڈاکٹر نے انھیں مستقبل طور پر ایک بیرون ملک سے درآمد کردہ دوائی تجویز کر دی۔

عینی یہ بھی کہتی ہیں کہ ان کا معائنہ کرنے والے نفسیاتی امراض کے ڈاکٹروں سے انھیں شکایت ہے کہ اتنے برسوں کے دوران انھوں نے انھیں کبھی کاؤنسلنگ کی تجویز نہیں دی۔

وہ کہتی ہیں انھیں اس سے بھی زیادہ گلہ یہ ہے کہ جس شاک تھیراپی کے ذریعے ان کا علاج کیا گیا وہ انتہائی بیماری میں مبتلا افراد کو تجویز جاتی ہے

’میں بہت تکلیف سے گزری، جب کسی مریض کو بجلی کا جھٹکا دیا جاتا ہے تو اس کا ذہن ماؤف ہو جاتا ہے،آپ ایک زندہ لاش کی طرح ہوتے ہیں اور نارمل حالت میں واپس آنے میں ایک مریض کو تین گھنٹے لگتے ہیں۔‘

اس بارے میں ڈاکٹر نوشین کا کہنا ہے کہ جب شیزوفرینیا کے مریض کی بیماری سنگین حالت اختیار کرتی ہے تو ایسے میں اکثر مریض کے جسم میں ایک تناؤ اور سختی پیدا ہونے لگتی ہے، یہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ مریض میں ذہنی مرض کی شدت بڑھ رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایسے میں ہم مریض کو شاک تھیراپی سے واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ایسے مریضوں کے علاج میں کافی زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس کے مختصر دورانیہ کے اثرات مریض پر دیکھے گئے ہیں لیکن طویل مدتی اثرات بہت کم مریضوں پر ظاہر ہوتے ہیں۔‘

کاگنیٹیو بیہیوریل تھیراپی  (Cognitive Behavioural Therapy – CBT)

ماہر ذہنی امراض ڈاکٹر نوشین کے مطابق پاکستان میں کاگنیٹیو بیہیوریل تھیراپی (سی بی ٹی) جس کو ’ٹاکنگ تھیراپی‘ بھی کہا جاتا ہے اتنی عام نہیں مگر یہ شیزوفرینیا کے مریضوں کے لیے بہت کامیاب طریقہ علاج سمجھا جاتا ہے۔

اس طریقہ علاج میں 12 سے 16 سیشنز میں مریض سے بات کی جاتی ہے اور اس کو اس بات کے لیے تیار کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیماری سے خود لڑ سکیں۔

ڈاکٹر نوشین کا کہنا ہے کہ دوائیوں کے ساتھ ساتھ مریض کو اس بات کا عادی کیا جاتا ہے کہ وہ ہذیان کی کیفیت سے گزرتے ہوئے بھی ایک عام انسان کی طرح اپنی زندگی گزار سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ شیزوفرینیا زندگی بھر رہنے والی بیماری ہے لہذا مریض کے لیے سی بی ٹی تھیراپی، بیماری سے لڑنے اور ایک کامیاب زندگی گزارنے میں مدد کرتی ہے۔

عینی کہتی ہیں کہ انھیں آج بھی اس بیماری کی علامات ظاہر ہوتیں ہیں۔ ’اگر کبھی ماحول میں کوئی پریشانی یا تناؤ ہو تو میری بیماری کی علامات واپس آنے لگتی ہیں۔‘

عینی نے بتایا کہ ان تمام برسوں میں ان کے خاندان نے ان کی بہت مدد کی جبکہ انھوں نے اس بیماری سے لڑنے کے لیے خود کو حصول تعلیم اور بعدازاں پیشہ وارانہ زندگی میں مصروف کر لیا۔

’اس وجہ سے مجھے اتنا حوصلہ ملا کہ میں ایک عام انسان کی طرح زندگی گزار رہی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’شیزوفرینیا کے مریض کو صرف یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ حقیقت کیا ہے اور زندگی بہت خوبصورت ہے۔ شیزوفرینیا کے مریض میں کوئی کمی نہیں ہوتی وہ معاشرے میں ایک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں، جس طرح میں ایک پروفیشنل اور کامیاب زندگی گزار رہی ہوں۔‘

بی بی سی رپورٹ

0 0 votes
Article Rating
Picture of kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter