اگرچہ ’کینڈیڈائسس‘ نامی انفیکشن کا زیادہ شکار خواتین ہوتی ہیں مگر یہ مردوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
’کینڈیڈائسس‘ ایک انفیکشن ہے جو ’کینڈیڈا البیکنز‘ نامی فنگس (پھپھوندی) کے باعث پیدا ہوتا ہے اور یہ خواتین اور مردوں کے جنسی اعضا میں خارش اور جلن اور باعث بنتا ہے۔
کینڈیڈا البیکنز‘ نامی پھپھوندی عام طور پر انسانی جسم میں ایک توازن کی حد میں موجود ہوتی ہے اور اس کی موجودگی صحت کے لیے ضروری ہے۔ لیکن انسانی جسم میں موجود اس پھپھوندی کو ’موقع پرست‘ بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی اس پھپھوندی کے لیے ہمارے جسم کے حالات سازگار بنتے ہیں تو یہ انفیکشن کا باعث بن جاتی ہے۔
ہمارے جسم میں موجود اس فنگس کی مقدار جب صحت کے لیے درکار ضروری مقدار سے بڑھتی ہے تو ہمارا جسم عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں جنسی اعضا کا یہ انفیکشن ’کینڈیڈائسس‘ ظاہر ہوتا ہے۔
خواتین کے اس انفیکشن سے زیادہ شکار ہونے کی چند وجوہات ہیں۔
ماہواری، حمل کے دوران یا مانع حمل ادویات کے باعث خواتین کے جسم میں ہارمونز کا اُتار چڑھاؤ ہو سکتا ہے، جو وجائنل پی ایچ (وجائنا میں موجود سیال مادہ) کے توازن کو متاثر کر سکتا ہے، جس کے باعث اس عضو میں فنگس کی نشوونما کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوتا ہے۔
خواتین کے علاوہ یہ انفیکشن مردوں کو متاثر کر سکتا ہے اور برازیلین سوسائٹی آف یورولوجی کے شعبہ انفیکشنز اور سوزش سے منسلک ماہر صحت بیانکا میسیڈو کہتی ہیں کہ خواتین میں اس انفیکشن کی وجوہات کے برعکس مرد اس سے اس وقت متاثر ہوتے ہیں جب وہ طویل عرصے تک گیلے کپڑوں میں ملبوس رہیں یا ان کا عضو تناسل لمبے عرصے تک نمی والے ماحول یا نم کپڑوں میں رہے۔
ماہر صحت بیانکا میسیڈو کے مطابق اس کے علاوہ دیگر عوامل بھی ہیں جو مردوں میں اس انفیکشن کا باعث بن سکتے ہیں:
- جنسی حفظان صحت کا فقدان
- عضو تناسل پر موجود اضافی جل
اور دونوں اصناف (مرد و خواتین ) کے لیے:
- ذیابیطس: چونکہ فنگس جسم میں زیادہ گلوکوز کی سطح سے فائدہ اٹھاتا ہے
- اینٹی بائیوٹکس کا کثرت سے استعمال: اینٹی بائیوٹکس ہمارے جسم میں موجود فائدہ مند جراثیم کو ختم کرنے کا باعث بنتی ہے، اس میں وہ فائدہ مند جراثیم بھی شامل ہو سکتے ہیں جو ہمارے جسم میں کینڈیڈا البیکنز‘ نامی پھپھوندی کی پیدوار کو ایک توازن میں رکھتے ہیں
- وہ بیماریاں جو مدافعتی نظام کو کمزور کرتی ہیں، نیز قوتِ مدافعت میں کمی کی دیگر وجوہات جیسا کہ کیموتھراپی، غذائی قلت اور منشیات کا استعمال وغیرہ۔
خواتین میں اس کی علامات یہ ہیں کہ ان کی وجائنا سے ایک قسم کے سفید مادے کا اخراج ہو سکتا ہے، جنسی اعضا میں جلن محسوس ہو سکتی ہے، پیشاب کرتے وقت تکلیف ہو سکتی ہے اور جنسی تعلق قائم کرنے کے دوران درد ہو سکتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق مردوں میں اس کی علامات یہ ہو سکتی ہیں کہ اُن کے عضوِ تناسل پر چھوٹے سرخ دھبے نکل سکتے ہیں، ہلکی سوزش یا چھوٹے زخم بن سکتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ اس انفیکشن کا شکار مردوں کو عضو تناسل میں شدید خارش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ انفیکشن جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن نہیں ہے تاہم پھر بھی ماہرین صحت خبردار کرتے ہیں کہ اس کے شکار اور خواتین کو احتیاط برتنی چاہیے۔
مردوں میں اس انفیکشن کی تشخیص اور علاج
عمومی طور پر تجربہ کار ڈاکٹر مردوں میں اس انفیکشن کی موجودگی کی تشخیص ظاہری معائنے اور کوئی مخصوص ٹیسٹ کروائے بغیر ہی کر لیتے ہیں۔ تاہم شک کی صورت میں بائیوپسی جیسے ٹیسٹ کیے جا سکتے ہیں۔
برازیل کے سانتا پولا ہسپتال کے یورولوجسٹ ایلکس میلر کہتے ہیں کہ ’مختلف قسم کے فنگس کی تشخیص سکریپنگ (متاثرہ جسم کے حصے سے ٹشو یا سیال مادے کے نمونے جمع کرنے) کے ذریعے کی جا سکتی ہے، اس طریقہ تشخیص میں زخموں کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور فنگس کی مختلف اقسام کی شناخت کی جاتی ہے۔
تاہم، کئی بار یہ ٹیسٹ کروائے بغیر ہی علاج شروع کر دیا جاتا ہے کیونکہ ماہر ڈاکٹر متاثرہ جسم کے حصے کے معائنے سے ہی اس کی تشخیص کر لیتے ہیں۔
ایلکس میلر کہتے ہیں کہ ’یہ انفیکشن زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے اور اس کا شکار وہ افراد جن میں پہلے ہی قوت مدافعت کی کمی ہوتی ہے، اُن کا علاج کرنا زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔ کسی صحت مند مرد میں بعض اوقات یہ انفیکشن خود بخود غائب بھی ہوجاتا ہے اور دو سے تین دنوں کے اندر خود بخود بہتری آ جاتی ہے۔‘
جنسی حفظان صحت کی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ مردوں میں اس انفیکشن کا علاج اینٹی فنگل گولیوں کی مدد سے کیا جا سکتا ہے۔
دوران علاج عام طور پر تین سے پانچ دنوں کے لیے اینٹی فنگل گولیاں کھانے کے لیے دی جا سکتی ہے جبکہ خارش اور جلن کو کم کرنے کے لیے کریموں کی تجویز دی جا سکتی ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق، اس کے شکار افراد میں طبی پیچیدگیاں شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں، لیکن اگر کوئی کیس بگڑ جائے تو اس کا شکار مرد سیکنڈری فیموسس میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
اس انفیکشن کی دیگر اقسام
جنسی اعضا کے علاوہ ’کینڈیڈائسس‘ انفیکشن جسم کے دوسرے حصوں میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔
شیرخوار اور کم سن بچوں میں اس انفیکشن کی سب سے عام شکل اورل کینڈیڈیاسس ہے، جسے تھرش بھی کہا جاتا ہے اور جو ہونٹوں، منہ کے اندر اور گلے میں ہوتا ہے۔
یہ انفیکشن زبان، گالوں کے اندرونی حصے اور گلے میں سفید دھبوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، جس سے نگلنے میں تکلیف ہوتی ہے اور جلن ہوتی ہے۔
کینڈیڈیاسس کا ایک اور ممکنہ اظہار جلد پر ہوتا ہے، عام طور پر جسم کے نم اور گرم رہنے والے حصوں میں جیسا کہ بغل اور چھاتی کے نیچے۔ اس کی وجہ سے جلد پر سرخ دھبے پڑ جاتے ہیں جن میں اکثر شدید خارش ہوتی ہے اور جِلد کی ہرتیں اُترنے لگتی ہے۔
یہ انفیکشن آنتوں کے نظام کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
جسم کے دیگر حصے میں اس کی علامات میں پیٹ میں درد، جسم پر سوزش، گیس، اسہال یا قبض اور پاخانے میں سفید باقیات شامل ہو سکتی ہیں۔
سسٹمک کینڈیڈائسس انفیکشن کی ایک زیادہ سنگین شکل ہے، جس میں فنگس خون کے بہاؤ کے ذریعے پورے جسم میں پھیل جاتا ہے۔
یہ عام طور پر کمزور مدافعتی نظام والے لوگوں کو متاثر کرتا ہے، جیسے ایچ آئی وی اور ایڈز کے مریض۔
ان کی علامات مختلف ہو سکتی ہیں جن میں بخار، سردی لگنا، پٹھوں اور جوڑوں میں درد کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر مہلک طبی پیچیدگیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔
تاہم ہر قسم کے ’کینڈیڈائسس‘ انفیکشن میں علاج اینٹی فنگل گولیوں کی مدد سے کیا جاتا ہے۔
Courtesy: BBC Urdu
very good
تم ہومیوپیتھی دوا باتاواس کا مجھے بھی یہ ہوتا ہے