ذہنی امراض کا شکار خواتین کی پناہ گاہ: بلقیس ایدھی شیلٹر ہوم میں موجود خواتین جنھیں گھر والے ’بوجھ‘ سمجھ کر یہاں چھوڑ جاتے ہیں
- کریم الاسلام
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ایک زوردار چیخ سنائی دیتی ہے۔۔۔
کچھ دور کئی عورتیں مسلسل چلّا رہی ہیں۔۔۔
کچھ دنیا جہان سے بے خبر اپنے آپ سے باتیں کر رہی ہیں۔۔۔
کچھ ٹکٹکی باندھے خلا میں گھورے جا رہی ہیں تو چند دیوانہ وار قہقہے لگا رہی ہیں۔۔۔۔
ایک جانب دو عورتیں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ننگے پیر کمرے کے ایک سرے سے دوسرے تک تیز تیز چکر کاٹ رہی ہیں تو دوسری طرف سر مُنڈی عورتیں زمین پر لیٹی چھت کو تک رہی ہیں۔۔۔
یہ ایک بڑا ہال ہے جس کے دروازے اور کھڑکیوں پر لوہے کی مضبوط جالیاں لگی ہیں۔۔۔
میری طرح اگر آپ کا بھی ذہنی امراض کا شکار افراد کی پناہ گاہ آنے کا یہ پہلا تجربہ ہے تو یقیناً یہ سب آپ کے لیے شدید کرب اور اضطراب کا باعث ہو سکتا ہے۔
یہ جگہ پاکستان میں ذہنی امراض کا شکار عورتوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ’بلقیس ایدھی شیلٹر ہوم‘ ہے جسے سماجی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن عوامی چندے سے چلاتی ہے۔
’آئی ایم ناٹ مینٹل‘
میں دوپہر کے وقت یہاں پہنچا تو برآمدے میں رونق تھی۔ ہر کچھ دیر بعد چند عورتیں بڑی بڑی دیگچیوں میں کھولتی ہوئی گرم چائے لیے گزرتیں تو اُس کی خوشبو دیر تک فضا میں موجود رہتی۔
طویل کشادہ راہدری میں ایک جانب بڑے ہال نما کمرے ہیں جن کے کُھلے دروازوں پر نمبر اور انچارج کا نام لکھا ہے۔ کمروں کی کھڑکیوں پر پڑے گلابی پردے ہوا کے جھونکے سے اُڑتے ہیں تو اندر کا منظر واضح دکھائی دیتا ہے۔
یہاں ہر وارڈ میں کئی درجن عورتیں رہتی ہیں۔ اِن میں سے اکثر سالہا سال سے یہاں ہیں بلکہ کئی تو دہائیاں یہاں گزار چکی ہیں۔ یہیں میری ملاقات نصرت شفیع سے ہوئی۔ جو پہلا جملا اُنھوں نے کہا وہ تھا: ’آئی ایم ناٹ مینٹل۔۔۔ آئی ایم ناٹ سائیکو۔‘
نصرت سے مزید بات ہوئی تو اُنھوں نے مجھے بتایا کہ اُن کی شادی سنہ دو ہزار میں ہوئی جو گیارہ سال چلی۔ گیارہ سال تک تو سب کچھ ٹھیک رہا لیکن پھر شوہر نے مار پیٹ شروع کر دی۔
’مجھے ہاکیوں سے اتنا مارا کہ میرے گھٹنے جواب دے گئے۔ اب میں کھڑے ہو کر نماز بھی نہیں پڑھ سکتی۔ پھر جب اُنھوں نے مجھے طلاق دے دی تو میری حالت کافی خراب ہو گئی۔ پھر میرے گھر والے مجھے یہاں چھوڑ گئے۔‘
بے اولادی کا صدمہ
یہاں داخل ہر عورت کی ایک کہانی ہے۔ 40 سال کی شگفتہ کمال نقوی مجھے ملیں تو اُنھیں اِس ادارے میں داخل ہوئے چھ سال ہو چکے تھے۔
’میرے ابّو نے مجھے یہاں داخل کرایا تاکہ میرا علاج ہو سکے۔ میں بالکل نفسیاتی ہو چکی تھی۔ مجھ پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کیا کر رہی ہوں کیا نہیں کر رہی ہوں۔ میں الٹے سیدھے کام کرتی رہتی تھی۔‘
شگفتہ کمال کی ذہنی اُلجھنوں کی وجہ بھی وہی ہے جو یہاں موجود اکثر عورتوں کی ہے۔
’میری شادی سنہ دو ہزار چھ میں ہوئی تھی جو سات سال رہی۔ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے میں نے دل پر لے لی تھی یہ بات۔ اِسی وجہ سے میرے شوہر نے مجھے طلاق بھی دے دی۔‘
زنجیروں میں بندھی عورتیں
ایک طرف جہاں پاکستان میں نفسیاتی امراض کا شکار افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے وہیں ماہرینِ نفسیات کا فقدان جوں کا توں موجود ہے۔ پورے ملک میں صرف چند ہزار ماہرِ نفسیات ہیں اور وہ بھی بڑے شہروں میں۔
ذہنی امراض کے علاج کے لیے مختص ہسپتال گننے لگیں تو ایک ہاتھ کی اُنگلیوں پر بھی پورے نہ آئیں۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان کی 20 کروڑ سے زیادہ کی آبادی میں سے دو کروڑ افراد کسی نہ کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہیں۔
ایسے میں ’بلقیس ایدھی شیلٹر ہوم‘ مایوسی کے گھپ اندھیرے میں امید کی کرن ثابت ہو رہا ہے۔ ادارے کی نگراں ڈاکٹر نسیم عتیق سے اُن کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو اُنھوں نے بتایا کہ جب کبھی کوئی نیا مریض یہاں لایا جاتا ہے تو اُس کی حالت کافی ابتر ہوتی ہے۔
’کچھ ایسے مریض ہوتے ہیں جنھیں اُن کے گھر والے ہر طرف سے مایوس ہو کر ہمارے پاس لاتے ہیں۔ کچھ رسیوں اور زنجیروں میں بندھے ہوتے ہیں۔ کسی کے جسم میں کیڑے پڑے ہوتے ہیں۔ بال اِس قدر اُلجھے ہوتے ہیں کہ کٹوانے کی نوبت آتی ہے۔‘
ڈاکٹر نسیم کے مطابق یہاں داخل خواتین ہر طبقے اور ہر عمر کی ہیں۔
’کچھ عورتیں گھر والوں کے ذریعے یہاں آتی ہیں۔ کچھ گھر والوں کے رویے سے پریشان ہو کر یہاں آ جاتی ہیں۔ کچھ تو ایسی ہیں جو خود آ کر داخل ہو جاتی ہیں۔ کچھ سڑکوں سے ملتی ہیں۔ اِن میں سے اکثر پولیس کے ذریعے سے ہم تک پہنچتی ہیں۔ کچھ کو کوئی اجنبی ہمدردی کے جذبے کے تحت داخل کروا جاتا ہے۔‘
تمام عمر کا روگ
’بلقیس ایدھی شیلٹر ہوم’‘میں آنے والے ہر نئے مریض کو ابتدا میں طبی عملے کی زیرِ نگرانی رکھا جاتا ہے۔ یہاں ماہرینِ نفسیات اُن کا معائنہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر کلثوم لاشاری اُن میں سے ایک ہیں۔
’ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ اکثر کیسز میں مریض کی فیملی ساتھ نہیں ہوتی اور ہم کیس ہسٹری حاصل نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے علاج میں رکاوٹ آتی ہے لیکن ہم بہرحال علاج شروع کرتے ہیں۔ اگر مرض کی شدت کم ہے تو سائیکو تھراپی کی جاتی ہے۔ اُس کے بعد دوا کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر لاشاری کے مطابق نفسیاتی امراض تمام عمر ساتھ رہتے ہیں اور علاج اور دوا ایک حد تک اثر انداز ہو سکتے ہیں لیکن اگر مریض کو سازگار ماحول اور مناسب توجہ دی جائے تو وہ معمول کی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتا ہے۔
نفسیاتی امراض کیا ہیں؟
ماہرین کے مطابق ذہنی دباؤ، اُداسی، گھبراہٹ، خوف، بے چینی اور معمولاتِ زندگی میں عدم دلچسپی عام انسانی رویے ہیں تاہم اِن علامات کا دورانیہ بڑھنے لگے اور اُن میں شدت آ جائے تو پھر اِسے ایک بیماری سمجھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ڈاکٹر کلثوم لاشاری بتاتی ہیں کہ ’نفسیاتی امراض کا دارومدار کئی چیزوں پر ہے۔ مثلاً یہ موروثی بھی ہوتا ہے اور اردگرد کے ماحول کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ مریض کی شخصیت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اگر کوئی شخص کم گو ہے اور سماجی میل ملاپ سے دور رہتا ہے تو اُس میں اِس مرض کے ہونے کے زیادہ چانسز ہوتے ہیں۔ منشیات کا استعمال بھی اِس میں کردار ادا کرتا ہے۔‘
کلثوم لاشاری کے مطابق اُن کے ادارے میں داخل زیادہ تر مریض ’سکٹزوفرینیا‘ اور ’مینٹل ریٹارڈیشن‘ کا شکار ہیں۔ اِن امراض میں مریض کو کانوں میں آوازیں سُنائی دیتی ہیں، کسی کو شکلیں نظر آتی ہیں، کچھ لوگ شک و شبہ کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں، کچھ لوگ گھنٹوں ایک ہی انداز میں کھڑے رہتے ہیں اور اپنے آپ یا دوسروں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ کئی مریض اپنی یاداشت کھو بیٹھتے ہیں۔’
ڈاکٹروں نرسوں کی مددگار
ذہنی امراض کا شکار خواتین کی اِس پناہ گاہ میں زندگی ایک لگے بندھے نظام کے تحت چلتی ہے۔ ہر چیز کا وقت مقرر ہے۔ صبح کا ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا اور شام کی چائے۔ مقررہ وقت پر ٹی وی دیکھنا یا پھر درمیانی وقت عبادات میں گزارنا۔
کچھ مریض جو اِس قابل ہوتی ہیں کہ ادارے کے انتظام میں ہاتھ بٹا سکیں وہ وارڈز کی انچارج بن جاتی ہیں اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں یا ڈاکٹروں اور نرسوں کی معاون کے طور پر کام کرتی ہیں۔
شدید بیمار مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے ادارے میں ہی قائم کلینک میں ہاتھ میں سٹیتھوسکوپ اور گلوکومیٹر تھامے مجھے پچاس سال کی صبیحہ انوار ملیں۔ 23 سال پہلے جب اُن کی اکلوتی بیٹی صرف تین ماہ کی تھی اُن کے شوہر نے ’ناجائز تعلقات‘ کا الزام لگا کر اُنھیں چھوڑ دیا تھا۔ جب سے وہ ’بلقیس ایدھی شیلٹر ہوم‘ میں داخل ہیں۔
’پہلے میری طبیعت بہت خراب رہتی تھی۔ یہاں آ کر مجھے آرام ملا اب میں ’سیٹ‘ رہتی ہوں۔ یہاں کے ڈاکٹروں اور نرسوں نے مجھے موقع دیا ہے تو میں اُن کی مدد کرتی ہوں۔ میں ٹمپریچر لے لیتی ہوں، بی پی چیک کر لیتی ہوں اور شوگر بھی چیک کرسکتی ہوں۔ اِس کے علاوہ کوئی اور ’لُک آفٹر‘ کرنا ہو تو کر لیتی ہوں۔‘
ہمدردی کی مستحق
ایدھی شیلٹر ہوم میں گزارے گئے تمام تر وقت میں میں نے عملے کے جس فرد سے بھی گفتگو کی صرف ایک ہی بات سُننے کو ملی۔ لوگ نفسیاتی امراض کا شکار اپنے پیاروں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ وہ صرف اپنا بوجھ اُتارنا چاہتے ہیں اِسی لیے مریضوں کو یہاں لا کر پھینک دیتے ہیں۔ حالانکہ نفسیاتی امراض کا شکار فرد ہمدردی کا مستحق ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن صحت یاب مریضوں کو اُن کے گھر والوں سے ملانے کا کام بھی کرتی ہے۔ ایدھی رضا کار قمر جہاں اِس کی ذمہ دار ہیں۔ وہ ایدھی کی وین میں دو خواتین کو اُن کے گھر لے جا رہی تھیں۔ اُنھوں نے مجھے بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی۔
وین نارتھ کراچی کے علاقے سے نکلی تو قمر جہاں نے بتایا کہ ’مریض کے صحت یاب ہونے پر ہم اپنے ریکارڈ سے یا خود مریض سے اُس کا پتہ پوچھتے ہیں۔ پھر اُس کے ذریعے اہلخانہ کو تلاش کرتے ہیں۔ کچھ خواتین کے شناختی کارڈوں سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ جو عورتیں کراچی سے باہر کی ہوتی ہیں اُنھیں دوسرے شہروں میں قائم ایدھی سینٹروں کے ذریعے اُن کے گھروں تک پہنچایا جاتا ہے۔‘
تاہم قمر جہاں کے مطابق اِس موقع پر اکثر اہلخانہ کا رویہ انتہائی مایوس کن ہوتا ہے۔
’بعض گھر والے تو بہت خوش ہوتے ہیں لیکن اکثر گھر والے لڑنے لگتے ہیں کہ آپ کیوں لائی ہیں ہمارے مریض کو۔ ہم تو اِسے نہیں رکھیں گے۔ دھکے دیتے ہیں یہاں تک کہ گالم گلوچ بھی۔ یعنی بہت بُرا رویہ ہوتا ہے اُن کا۔ ہم کچھ کوشش کر کے مریض چھوڑ بھی آئیں تو چند دن بعد وہ اُسے ہمارے ادارے کے دروازے پر پھینک کے چلے جاتے ہیں۔‘
’ذہنی مرض پاگل پن نہیں‘
شام ہوئی تو ’بلقیس ایدھی شیلٹر ہوم‘ میں ایک اور دن ختم ہوا۔ لائٹیں بجھنے کے ساتھ ہی یہاں رہنے والوں نے سونے کی تیاری کی تو میں نے نگراں ڈاکٹر نسیم عتیق سے اجازت چاہی۔ چلتے چلتے اُنھوں نے ایک پتے کی بات کہی۔
انھوں نے کہا ’نفسیاتی امراض سے نمٹنے کے لیے بحیثیت معاشرہ ہمیں اپنے رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنا رویہ ٹھیک کر لیں تو ایسا وقت ہی نہ آئے کہ عورتیں نفسیاتی امراض کا شکار ہوں اور ایسے اداروں میں داخل ہوں۔‘
ماہرِ نفسیات کلثوم لاشاری کے بقول یہ بھی ضروری ہے کہ نفسیاتی امراض کو پاگل پن نہیں بلکہ بیماری سمجھا جائے۔
’آج کے دور میں بھی اگر کوئی ماہرِ نفسیات کے پاس چلا جائے تو اُسے ’پاگل‘ سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ یا تو لاپروائی یا پھر بدنامی کے ڈر سے علاج نہیں کرواتے۔ حالانکہ یہ جاننا ضروری ہے کہ نفسیاتی مرض کسی بھی دوسری بیماری کی طرح ایک مرض ہے جس کا علاج موجود ہے اور اُس کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری ہے۔‘
گھر والوں کی یاد
یہاں داخل 1200 عورتیں ہر رات جب سونے کو لیٹتی ہیں تو اپنے پیاروں کو ضرور یاد کرتی ہیں۔ کوئی اولاد کی جدائی میں تڑپتی ہے تو کوئی شوہر کے ساتھ دوبارہ زندگی شروع کرنے کی خواہشمند ہے۔ کوئی ماں باپ کو ایک بار اور دل بھر کے دیکھنا چاہتی ہے تو کوئی بہن بھائیوں کی راہ تک رہی ہے۔
صبیحہ انوار کی بیٹی اب 23 سال کی ہو چکی ہے اور نفسیات میں بی اے کر رہی ہے۔ وہ ماں سے ملنے آتی ہیں لیکن صبیحہ باقی زندگی یہیں گزارنا چاہتی ہیں۔ اُنھیں ڈر ہے کہ اب گھر میں اُن کا دل نہیں لگے گا۔
نصرت شفیع کی بھاوج ہر مہینے کی دس تاریخ کو چکر لگاتی ہیں۔ وہ کپڑے، جوتے اور ضرورت کا دوسرا سامان ساتھ لاتی ہیں۔ نصرت کو پندرہ سو روپے بھی دے کر جاتی ہیں۔ وہ اِن پیسوں کو سنبھال کر رکھتی ہیں اور جب دل کرتا ہے تو بازار سے ٹافیوں کی تھیلی منگوا کر اپنے کمرے والوں میں بانٹ دیتی ہیں۔
شگفتہ کمال نقوی کو اب زندگی سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ اپنی بیماری کو اللہ کی طرف سے امتحان سمجھتی ہیں لیکن ماں باپ بھائی بہنوں کی یاد اُنھیں اب بھی آتی ہے۔ کبھی کبھی اُن کی بہن ملنے آتی ہیں اور ہر بار وعدہ کر کے جاتی ہیں کہ گھر کے حالات کچھ بہتر ہو جائیں تو وہ اُنھیں لے جائیں گی۔
لیکن یہ وعدہ کب وفا ہو گا۔۔۔ اور ہو گا بھی کہ نہیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
Courtesy: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58894947
This is a very touching account .. thanks for sharing .. interesting thing all that most of these women need is proper love , care and attention to heal ..