80 سے زیادہ ممالک میں استعمال ہونے والی آدھے سر کے درد کی دوا کتنی مؤثر ثابت ہو رہی ہے؟

تصویر
خواتین مردوں کے مقابلے میں آدھے سر کے درد سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں

ستمبر 2023 میں برطانیہ نے ایک اعلان کیا جو بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔

چند ماہ قبل برطانیہ کے بیماریوں سے بچاؤ کی دواؤں کے استعمال کی منظوری دینے والے ادارے نیشنل ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسی لینس (این آئی سی ای) نے مائیگرین یعنی درد شقیقہ یا آدھے سر کے درد سے بچاؤ کے لیے ایک نئی دوا کی منظوری دی ہے۔

مائیگرین ایک پیچیدہ مرض ہے اور دنیا میں تقریباً ایک ارب لوگ اس کا شکار ہیں۔

یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے سر درد بعض اوقات اس قدر شدید ہو جاتا ہے کہ روزمرہ کا کام کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ باہمی تعلقات بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ این آئی سی ای نے اب ایک قدم آگے بڑھ کر فیصلہ کیا ہے کہ یہ دوا ان لوگوں کو دی جا سکتی ہے جو مائیگرین یعنی آدھے سر درد کا شکار ہیں۔

مائیگرین کی علامات

Migrain

میو کلینک سے منسلک نیورولوجسٹ اور سردرد کے ماہر ڈاکٹر امال سٹرلنگ کا کہنا ہے کہ مائیگرین صرف ایک شدید سردرد نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے دماغ کے کام کرنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جس شخص کو مائیگرین کا دورہ پڑتا ہے اس کا علاج صرف سپرین لینے سے نہیں ہوتا ہے۔ مائیگرین کے حملے سے اتنا درد ہوتا ہے کہ دماغ کے کام کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔‘

مائیگرین کی علامات کئی مراحل میں سامنے آتی ہیں۔

ڈاکٹر امال سٹرلنگ کا کہنا ہے کہ ’مائیگرین کے حملے کے پہلے مرحلے میں کچھ کھاتے رہنے کی خواہش ہوتی ہے یا چِڑچِڑاپن ہوتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ تھکاوٹ ہوتی ہے، جمائی آتی ہے اور گردن میں درد شروع ہوتا ہے۔‘

ان کے مطابق سخت سر درد پہلے مرحلے کے چند گھنٹے بعد شروع ہوتا ہے۔ شدید سر درد کے دوران روشنی زیادہ چمکتی نظر آتی ہے، جسم اور دماغ میں جھنجھلاہٹ کا احساس ہوتا ہے اور سونگھنے کی حس متاثر ہوتی ہے۔ بعض افراد کو قے کی شکایت بھی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر امال سٹرلنگ کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ تمام مریضوں میں یہ تمام علامات پائی جاتی ہوں۔ کچھ لوگوں میں ان علامات میں سے صرف چند ایک ہی ظاہر ہوتی ہیں۔

لیکن درد کم ہونے کے بعد حملے کے آخری مرحلے میں دماغ دھندلے پن کا شکار ہوتا ہے اور شدید تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔

خواتین مردوں کے مقابلے مائیگرین سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 15 سے 49 سال کی خواتین میں ذہنی صحت کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ یہی آدھے سر کا درد ہے، جس کی وجہ سے وہ کام نہیں کر پاتی ہیں۔

ڈاکٹر امال سٹرلنگ کے مطابق مائیگرین کے باعث لوگوں کے کام نہ کرنے کی وجہ سے امریکہ میں 11 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔

مائیگرین کے درد کو بھولنا مشکل ہے اور مریض ہر وقت پریشان رہتے ہیں کہ درد کا اگلا حملہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔

اس خوف کی وجہ سے وہ منصوبہ نہیں بنا پاتے کہ اگلے ایک، دو دن کیسے کام کرنا ہے، کہیں جانا ہے تو کیسے جانا ہے۔

پرانے مائیگرین کی تشخیص کیسے کی جائے؟

تصویر

ڈاکٹر امال سٹرلنگ کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ یہ بیماری جینیاتی ہے یا نہیں۔ لیکن اس کے حملے دمہ کے دورے کی طرح ہیں۔ وہ ہفتے میں ایک بار یا کئی بار ہو سکتے ہیں۔

جن لوگوں کو مہینے میں آٹھ سے 15 دن مائیگرین کا درد ہوتا ہے، اُن کا شمار دائمی یا باقاعدہ مائیگرین کے زمرے میں ہوتا ہے۔ آٹھ دن سے کم سر درد رکھنے والوں کی ’ایپیسوڈک مائیگرین‘ کے طور پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔ لیکن بعض اوقات اس کا پتہ لگانا آسان نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر امال سٹرلنگ کا کہنا ہے کہ بہت سے مریضوں کا خیال ہے کہ اگر ان کے خاندان میں ان کی والدہ یا بہن کو سر میں درد تھا، یا دوسرے لوگوں کے سر میں درد تھا تو یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ مائیگرین کا پتا صرف اس وقت ہوتا ہے جب مریض ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے۔

دوسرا چیلنج یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ جب سر کے صرف ایک حصے میں درد ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں مائیگرین ہے۔ یہ سچ نہیں ہے۔ مائیگرین سے سر کے دونوں طرف بھی درد ہو سکتا ہے۔

مائیگرین کی علامات کے حوالے سے اور بھی بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ کئی بار لوگ گردن یا ہڈیوں کی وجہ سے ہونے والے سر درد اور مائیگرین کے درد کے درمیان فرق نہیں کر پاتے۔

ڈاکٹر امال سٹرلنگ کے مطابق ’کئی بار مریضوں میں درد شقیقہ کی علامات واضح اور شدید نہیں ہوتیں۔ لیکن چکر آنا مائیگرین کی ایک مستقل اور بڑی علامت ہے۔ عام طور پر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کان میں خرابی یا کسی مرض کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ لیکن کان کا معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

’دراصل مسئلہ یہ ہے کہ جب کان دماغ کو کوئی سگنل بھیجتا ہے تومائیگرین سے متاثرہ دماغ ان پر صحیح طریقے سے عمل نہیں کر پاتا، جس کی وجہ سے جسم کا توازن خراب ہو جاتا ہے یا سر چکرا جاتا ہے۔‘

اگر مائیگرین کی بروقت نشاندہی اور علاج نہ کیا جائے تو حالت مزید بگڑ سکتی ہے اوریہ درد مائیگرین میں بدل سکتا ہے۔

مائیگرین کے لیے ابھی تک کوئی خاص دوا دستیاب نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ ہر مریض کو مائیگرین کی مختلف اقسام ہو سکتی ہیں۔ اس لیے ہم نہیں جانتے کہ کس مریض کو کس دوا سے فائدہ ہو گا۔

دردسر

علاج میں نئے تجربات

ایرانی نژاد ڈاکٹر فریدون نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ کے محقق ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر مائیگرین کا علاج دو طرح سے ہوتا ہے، ایک جسے ہم ایکیوٹ ٹریٹمنٹ کہتے ہیں یعنی ان مریضوں کا علاج جو اس وقت میگرین کے حملے میں مبتلا ہیں۔

اور دوسرا احتیاطی علاج ہے یعنی ایسے شخص کا علاج جسے فی الحال مائیگرین کا دورہ نہیں پڑا، لیکن اسے مستقبل میں بھی مائیگرین سے بچنے کے لیے دوا دی جاتی ہے۔ دونوں طریقہ ہائے علاج میں مختلف دوائیں استعمال کی جاتی ہیں۔

’مائیگرین کو کنٹرول میں رکھنے یا اس کے انتظام کے لیے ہم پیراسیٹامول یا آئبوبروفین جیسی دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہم خاص طور پر شدید درد کے انتظام کے لیے ’ٹرپٹین‘ استعمال کرتے ہیں۔‘

جب شدید سر درد شروع ہوتا ہے تو ٹرپٹین دی جاتی ہے۔ لیکن درد شقیقہ کے حملوں سے بچنے کے لیے اینٹی ڈپریسنٹ یعنی ڈپریشن کو کم کرنے والی ادویات اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے والی ادویات بھی استعمال کی جاتی ہیں جن کا چناؤ ہر مریض کے مخصوص حالات اور طبی کنڈیشن کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر فریدون کا کہنا ہے کہ یہ ادویات باآسانی دستیاب ہیں۔

ڈاکٹر فریدون کہتے ہیں: ’میں ایران سے ہوں اور یہ ادویات وہاں بھی آسانی سے دستیاب ہیں۔ انڈیا میں بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ادویات سستی ہیں۔ لیکن خاص طور پر مائیگرین کے علاج کے لیے بنائی گئی دوائیں ہر جگہ آسانی سے دستیاب نہیں ہوتیں۔ لہٰذا، ہمیں جو کچھ بھی دستیاب ہے اس کے ساتھ گزارا کرنا پڑے گا۔‘

لیکن اینٹی ڈپریشن اور بلڈ پریشر کے لیے استعمال ہونے والی ادویات تمام مریضوں کو نہیں دی جا سکتیں۔

ڈاکٹر فریدون نے خبردار کیا ہے کہ یہ ادویات بلڈ پریشر اور دمہ کے مریضوں یا حاملہ خواتین کو نہیں دی جا سکتیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان ادویات کے علاوہ مائیگرین پر قابو پانے کے کچھ طریقے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’باقاعدگی سے ورزش بھی بڑی مدد گار ہوتی ہے۔ اس سے گردن کا درد کم ہو جاتا ہے۔ ایروبک ورزش مائیگرین کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔ لیکن ایک یا دو بار ڈاکٹر سے ملنے سے اس کا علاج نہیں ہو سکتا۔‘

ان کے مطابق ’اس میں صبر ضروری ہے کیونکہ بہت سے طریقے آزمانے پڑتے ہیں۔ یہ آزمائش اور غلطی یا تجربے کی بات ہے جس میں یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ کون سا علاج کام کر رہا ہے اور کون سا نہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ طبی ماہرین اس دوا کے منتظر ہیں جو خاص طور پرمائیگرین کے علاج کے لیے بنائی گئی ہو۔‘

نئی دوا: ’امید بڑھ گئی ہے‘

پروفیسر پیٹر گوڈسبی کنگز کالج لندن میں نیورولوجی کے پروفیسر ہیں اور مائیگرین کے لیے نئی ادویات پر تحقیق کرنے والوں میں شامل ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ پہلی بار مائیگرین سے بچاؤ کے لیے ایک دوا بنائی گئی ہے جو کہ بہت کارآمد ہے اور اس سے مریضوں کی صحت میں نمایاں بہتری آتی ہے۔ لیکن یہ دوا کیسے کام کرتی ہے؟

وہ کہتے ہیں ’یہ دوا سی جی آر پی نامی کیمیکل کے اثر کو روکتی ہے۔ اس کیمیکل کی وجہ سے شدید سر درد ہوتا ہے۔ یہ دوا خاص طور پر مائیگرین کے درد کے علاج کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ جسم میں جلدی گھل جاتی ہے اور درد شروع ہونے سے پہلے ہی رک جاتا ہے۔‘

پیٹر گوڈسبی کا کہنا ہے کہ یہ نئی ادویات درد شقیقہ کے حملوں کو روکنے کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔

’رمیجے پینٹ‘ (Rimegepant) نامی اس دوا کو بین الاقوامی استعمال کے لیے منظور کر لیا گیا ہے اور اسے امریکا سمیت 80 ممالک میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس دوا کو برطانیہ میں مائیگرین کے حملوں کو روکنے اور حملے کی صورت میں مائیگرین پر قابو پانے کے لیے اس کی منظوری دی گئی ہے۔ لیکن ڈاکٹر اس دوا کو صرف کچھ خاص حالات میں لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔

پیٹر گوڈسبی نے کہا کہ ’ٹھیک ہے، یہ دوا مائیگرین کے حملوں سے بچنے کے لیے دی جاتی ہے۔ لیکن مریض کو دوا صرف اس وقت ملتی ہے جب اسے ایک مہینے میں چار یا اس سے زیادہ دن یہ درد رہتا ہے اور عام طور پر درد کے لیے دی جانے والی کم از کم تین دوائیں کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔‘

’رمیجے پینٹ‘ شدید علاج کے لیے دیا جاتا ہے جب ٹرپٹین سے علاج ناکام رہا ہو۔‘ میجے پینٹ دوا کی دریافت ایک بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن اس سے بہت زیادہ توقع نہیں کی جا سکتی۔‘

پیٹر گوڈسبی کے مطابق رمیجے پینٹ کوئی معجزاتی دوا نہیں ہے۔ بہت سے مریضوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن یہ سب کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان ادویات کے بہت کم ضمنی اثرات ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’تجربے کے دوران پتہ چلا کہ اسے استعمال کرنے والے صرف ایک سے دو فیصد لوگوں کو متلی کا مسئلہ تھا۔ بہت سے لوگوں کو مائیگرین کے بوجھ سے نجات مل گئی ہے اور ان کی زندگیاں بدل گئی ہیں۔‘

ان کے مطابق گذشتہ چند برسوں میں اس دوا کو تیار کرنے کے تحقیقی کام میں شامل ہونا ان کے کریئر کا سب سے دلچسپ مرحلہ ثابت ہوا ہے۔

لیکن مائیگرین یعنی آدھے سر کے درد پر قابو پانے کی سمت میں ابھی مزید کام کرنا باقی ہے۔ مزید نئی دوائیں بنانے کی ضرورت ہے۔

بہت سے سوالوں کے جواب ابھی باقی ہیں

یہ جاننے کے لیے کہ آیا مائیگرین کے علاج کے لیے دیگر آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے؟ بی بی سی نے لیزا ریسٹڈ اوئے سے بات کی، جو ایک نیورولوجسٹ اور نارویجن سینٹر فار ہیڈ پین ریسرچ (نارہیڈ) کی ایک محقق ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ نئی دوائیوں کی مدد سے مائیگرین کے شکار افراد کو سردرد سے نجات مل سکتی ہے۔

ان کے مطابق ’ہمیں مائیگرین کے انفرادی معاملات میں گہرائی سے دیکھنا چاہیے۔ ہم نہیں جانتے کہ کچھ لوگوں کو مائیگرین کا درد کیوں ہوتا ہے اور دوسروں کو نہیں ہوتا۔ مائیگرین کا حملہ کیا ہوتا ہے اور یہ کیوں شروع ہوتا ہے؟ ہمارے پاس ابھی تک اس کے بارے میں بہت سے سوالات کے جوابات نہیں ہیں۔‘

ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے سے علاج کے بہتر آپشنز مل سکتے ہیں۔

لیزا ریسٹڈ اوئے نے کہا کہ ‘میں نارہیڈ میںمائیگرین کے علاج کے لیے ادویات کے علاوہ دیگر آپشنز پر تحقیق کر رہی ہوں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مائیگرین کا تعلق تناؤ سے ہے اور تناؤ کو مائیگرین کے حملوں کی ایک بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے۔

‘ہم مائیگرین یا درد شقیقہ کو کنٹرول کرنے کے لیے تناؤ کو کم کرنے کے طریقوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔‘

نارہیڈ دنیا کے کئی حصوں میں محققین کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ اس میں مصنوعی ذہانت کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

مائیگرین سے متعلق بہت زیادہ معلومات کمپیوٹر میں اپ لوڈ کرکے مطالعہ کیا جا رہا ہے تاکہ اس درد کے پیٹرن اور علامات کے آغاز کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا سکیں۔

لیزا ریسٹڈ کے مطابق جدید ٹیکنالوجی ہمیں درد شقیقہ کے اثرات کا بہتر انداز میں اندازہ لگایا جا سکےگا۔ ہم کیسے جانیں گے کہ علامات ظاہر ہونے سے پہلے مائیگرین کا علاج کیا جا سکتا ہے؟

لیزا ریسٹڈ اوئے کے مطابق ’ہم یہ بھی سمجھ سکیں گے کہ آیا مائیگرین کا تعلق کسی خاص شخص کے جین سے ہے یا نہیں۔ اس سے ہم یہ بھی جان سکیں گے کہ کون سی دوا کس مریض کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو گی۔‘

لیزا کہتی ہیں کہ فی الحال مائیگرین کے علاج کے لیے بنائی جانے والی ادویات مہنگی ہیں اور ہر جگہ آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مائیگرین کے علاج کے لیے پہلے سے موجود ادویات میں ترمیم کرکے نئی دوائیں بنائی جا سکتی ہیں۔

لیزا ریسٹڈ اوئے نے کہا کہ وہ ایسی ہی ایک دوا کے کلینیکل ٹرائل میں شامل ہیں۔ یہ دوا ہائی بلڈ پریشر کے علاج میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ سستی اور آسانی سے دستیاب ہے۔

اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ یہ دوا مائیگرین کے علاج میں کارگر ہے تو یہ دوا پوری دنیا میں مائیگرین کے علاج کے لیے استعمال ہونا شروع ہو سکتی ہے۔

مائیگرین کے لیے نئی ادویات بنانے کے مقابلے پرانی ادویات میں ترمیم کر کے انھیں علاج کے لیے استعمال کرنے سے پیسہ اور وقت دونوں کی بچت ہو گی۔

تو اب واپس آتے ہیں اپنے اصل سوال کی طرف کہ کیا مائیگرین کے علاج میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے؟

مائیگرین کے علاج کے لیے دیگر بیماریوں کے لیے تیار کی گئی دوائیوں کے استعمال کے کئی دہائیوں کے بعد خاص طور پرمائیگرین کے علاج کے لیے رمیجے پینٹ کی منظوری ایک بڑی کامیابی ہے۔

لیکن یہ دوا نہ تو ہر جگہ دستیاب ہے اور نہ ہی یہ مائیگرین کے تمام مریضوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ ہاں اس درد کے علاج کے لیے آپشنز میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔

مائیگرین سے مکمل نجات کے لیے دوا تیار کرنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے لیکن اس سمت میں تحقیقی کام جاری ہے اور امید بڑھ رہی ہے۔

0 0 votes
Article Rating
Picture of kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter