دولت کی پیدا کردہ بیماریاں – پروفیسر ڈاکٹر زاہدہ درانی
غریبی اپنے ساتھ جو مصیبتیں لاتی ہے اس کا اندازہ ہر قلبِ حساس بآسانی کرسکتا ہے۔ لیکن ایک غلط معاشرہ میں دولت کی فراوانی جس قسم کی تباہیاں لاتی ہے، اس کا تصور عام طور پر نہیں کیا جا سکتا۔ ان تباہیوں کا ایک گوشہ وہ ہے جس کا اندازہ مجھے بہ حیثیت ایک ڈاکٹر کے ہوا۔ اور انہی کی ایک خفیف سی جھلک میں اس وقت آپ کو دکھانا چاہتی ہوں۔ جہاں تک بیماری اور اس کے علاج کا تعلق ہے؛ غریبی کی پیدا کردہ مصیبت ایک ہی نوعیت کی ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ ایک غریب بیوہ اپنی اکلوتی بیٹی کو لے کر آتی ہے جو ایک خطرناک اور مہلک بیماری کا شکار ہے۔ میں اسے دوائی لکھ کر دیتی ہوں۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ حتیٰ الامکان دوائی سستی ہو۔ وہ نسخہ ہاتھ میں لے کر پوچھتی ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ یہ دوائی بازار سے کتنی قیمت میں ملے گی؟ میں کہتی ہوں؛ پانچ سو روپے میں مل جائے گی۔ "پانچ سو روپے" سُن کر اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ، اس کے ہونٹوں کی تھرتھراہٹ اور اس کی آنکھوں کی نمی، اس کے دل کی ساری کہانی اس کے ماتھے پر لکھ دیتی ہے۔ جب یہ دیکھ کر میری آنکھیں بھی نم آلود ہوجاتی ہیں، تو اُس کے ضبط کئے ہوئے آنسو، ٹپ [...]